جانا بلاول بھٹو کا ہندوستان میں گوا کے شہر میں، شنگھائی تنظیم میں 22ممالک کے اجتماع میں ہاتھ نہ ملانا انڈیا کے فارن منسٹر کا اس حد تک حالات و واقعات اور چہروں کے تاثر ہم نے ہی نہیں دنیا بھر نے نوٹ کئے۔ ستم بالائےستم یہ کہ بلاول کا انٹرویو بھی کیا گیا اور یہاں شاباش ہمارے سیاسی بی جے پی اور ہندو توا کے ہر کارے ، کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، مسلسل بلاول کیخلاف بول رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں ایسی ہی کیفیت عمران پارٹی کی ہے۔ مگر ایک سوال جو ہم سب کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری بزدلی کہ احتیاط کا دامن 72سال سے پکڑا ہوا ہے۔ یہ بات تو ہم سب کو یعنی ہماری نوجوان نسل کو بھی معلوم ہے کہ آزاد کشمیر، ہم نے کیسے حاصل کیا۔ یہ بھی معلوم ہے کہ مودی نے 2019میں کیسے بناکسی بین الاقوامی قانون کو مد نظر رکھتے، اپنی آمریت دکھا کر کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرلیا۔ وہ وقت اور تھا جب پنڈت نہرو نے حیدرآباد اور جونا گڑھ پر زبردستی قبضہ، باقی ریاستوں کی طرح کیا تھا۔ اس وقت دنیا کا سارا میڈیا دکھا رہا ہے، جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بالخصوص زیادتیاں کی جارہی ہیں۔ بلاول کا برملا یہ کہنا کہ انڈیا کی قومی اسمبلی میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔یہ بھی واقعہ ہے کہ سیکورٹی کونسل میں ہزاروں، لاکھوں قراردادوں کے باوجود، اسرائیل سے انڈیا تک جہاں مسلمانوں اور اب تو گرجا گھروں کو بھی مسمار کیا جارہا ہے، منی پور کے واقعات،ایک اورزخم کو تازہ کررہے ہیں۔ میں کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے آئر لینڈ کی علیحدگی کی داستان دہرانا نہیں چاہتی بس اتنا دونوں ملکوں کو سمجھانا چاہتی ہوں کہ قوموں خاص کر نوجوان نسل کو بے راہ اور گمراہ کرنے کی بجائے جیسا انگلینڈکی بادشاہت نے آئر لینڈ کو علیحدہ مملکت کی طرح قبول کیا۔ ہم دونوں ممالک علیحدہ مملکت نہ مانیں تو کم از کم سافٹ بارڈر کرکے2006 والی صورتحال کی جانب قدم بڑھا کر دونوں جانب کے شہریوں کیلئے سکون کا سامان کریں۔
میں یہ اس لئے بھی کہہ رہی ہوں کہ شہباز ہوں کہ نواز یا عمران خان، پرویز الٰہی یہ سب ہماری طرح بڑے ہو چکے ہیں۔یہ سب کمائی اور چھپائی ہوئی دولت کو عمران کی طرح اسپتال اور یونیورسٹیاں بناکر اورخدا کے حضور کچھ پیش کرنے کیلئے اپنی عاقبت سنواریں، یہ ملک، نوجوانوں کے حوالے (حمزہ اور نجم ثاقب جیسے جوان نہیں) کرکےدیکھیں اور ان کو بلاول کی طرح اپنی ذہانت استعمال کرنے دیں۔ ورنہ مصنوعی ذہانت کا دور کچھ دور نہیں۔
اس ملک میں پڑھے لکھے اور روشن خیال نوجوانوں کی کمی نہیں البتہ مدرسوں کے جوانوں کو بھی کوئی جماعت اسلامی کی طرح کوئی ایسا طبقہ ملے جو کام کرے۔ ہزار اختلاف کے باوجود، ہر سیلاب اور زلزلے کے مصائب سے نمٹنے کیلئے جماعت اسلامی کے نوجوان رضاکار اور پاکستان کی فوج آگے بڑھ کر معاملات کو سنبھالتے ہیں۔ اب جبکہ یمن سے لے کر،مشرق وسطیٰ کے سارے ممالک مع ایران، اپنے اندر لچک اور مفاہمت پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں قبائلی نظام اور مستحکم ہو رہا ہے۔ جبکہ پرانے زمانے کے آداب کی نشاندہی کردوں۔ فوزیہ سعید، ہماری دوست جس نے سوشل ایشوز پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اس کے گھر میں نسل در نسل80برس تک ایک بابا، روز صبح سائیکل پر دن بھر کے گھر کے چھوٹے موٹے کام اور چوکیداری کرنے آتا تھا۔ اس کی اولاد بھی مناسب تعلیم کے بعد، خود مختار ہوکر بار بار اپنے باپ کو کہتی یہ کام چھوڑدیں، ہمارے پاس آکر رہیں۔ آخر فوزیہ اور ملیحہ نے مل کر اپنی اماں کے ساتھ ، بابا کا الوداعی کھانا کیا، تحائف دے کر، بیٹے کے ساتھ زبردستی روانہ کیا اور یوں ایک مثال قائم کی جو پہلے ہمارے بڑوں کے ہاں سارے نوکر کبھی شادی ہوکر یا کام کے ناقابل ہوکر،وظیفے پر گھر چلےجاتےتھے۔ کہنے کو میں نے بھی ایک در در بھٹکتی عورت کو اور اس سے پہلے آوارہ پھرتے لڑکے کو، اپنے پاس ملازم نہیں گھر کا انچارج بناکر، پڑھا لکھا کر اور اپنے سے بہتر کپڑے پہناکر رکھا۔ میرے اعتماد نے یہ رنگ چڑھایا کہ دونوں گھر خالی کرگئے۔ اب بھی کہتی ہوں۔ دونوں نے مجھے بہت آرام دیا، مگر شاید خاندان میں کوئی خرابی تھی جو ظاہر ہوکر رہی۔
اعداد وشمار پر بقول یوسفی صاحب، ہم بہت غلط بیانی اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے کرتے ہیں۔ خوراک کے بین الاقوامی ادارے نے بتایا ہے کہ پاکستان میں 4ارب ڈالر کی خوراک ہر سال ضائع ہوجاتی ہے۔ ہر چند کچھ نوجوانوں نے شادیوں کی دعوتوں پر لوگوں کی بے تحاشہ بوٹیاں، پلیٹوں میں ڈالنے اور چھوڑ جانے کی روایت کو ختم کرنے کیلئے ، گروپس بنائے تھے جو شادیوں میں اضافی کھانے جمع کرکے، غریبوں کی بستیوں میں رات کو دےکر آتے تھے۔ ابھی تک طلبا کی یونینیں بحال نہیں ہوئیں مگر یونہی اگر ہر کالج اور یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں رضا کارانہ کام کو وسعت دیں تو شاید پاکستان طعنوں سے بچ جائے، سرکار کو سمجھائیں کہ آپ کو حکومت مال بنانے کیلئے نہیں ملی، ہر چند 72سال سے یہی ہوتا رہا ہے۔ اب براہ کرم سارے معمر سیاسی شعبدہ بازوں کو کوچ کا حکم ملے۔