9 مئی کو جو حشر بپا ہوا، وہ پنجاب کی تاریخ کا ایک بڑا ہی غضبناک اور منفرد واقعہ ہے۔ پنجابی طالبان تو فوجی تنصیبات پہ حملہ آور ہوتے رہے۔ لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ پنجابی نوجوانوں کا غضبناک ہجوم اپنے ہی پاور اسٹرکچر پر حملہ آور ہوگیا اور جو بھی فوجی تنصیبات اور یادگاریں راستے میں آئیں، تہس نہس کردی گئیں۔ حیرت اس پر ہوئی کہ جب جذبات سے مغلوب چھوٹا سا ہجوم کور کمانڈر لاہور کی انتہائی سیکورٹی میں محفوظ رہائش گاہ کے آہنی گیٹ پر پہنچا تو وہاں پر ایک چوکیدار بھی موجود نہ تھا اور ہجوم سابقہ جناح ہاؤس میں ایسے داخل ہوا جیسے لارنس گارڈن میں چہل قدمی کیلئے نکلا ہو اور پھر ناراض نوجوانوں کے غصے کے ہاتھوں سب کچھ پامال ہوگیا ، ریاست کی ہیبت ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ رات کو جوہرٹاؤن کے اوورہیڈ پل کے نیچے بیٹھا میں ان نوجوانوں کی تباہ کن جنگجوئیت کا مظاہرہ دیکھنے پہ مجبور ہوا کہ انہوں نے شوکت خانم اسپتال کے سامنے پل پر ٹریفک بلاک کردی تھی۔ وہاں میرا سامنا نوجوانوں کے ایک پرجوش گروہ سے ہوا، ان میں سے ایک شاہین اقبال نامی نوجوان جس کی عمر بمشکل 16 برس ہوگی۔ اس سے میں نے پوچھا کہ تم یہ سب کیوں کررہے ہو، اسکا سیدھا اور سپاٹ جواب تھا کہ عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور انہوں نے (مطلب فوج نے) ہماری ریڈ لائن کراس کرلی ہے اور اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو ہم ہر چیز جلا ڈالیں گے۔ کچھ اسی قسم کے جذبات و خیالات دوسرے نوجوانوں کے تھے۔ انکے لئے عمران خان کسی مسیحا سے کم نہیں تھا جس کیلئے وہ مرنے مارنے پہ آمادہ تھے۔ رات گئے گھر پہنچ کر میں سوچتا رہا کہ یہ نئی نسل کیا چاہتی ہے اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟
گزشتہ تین چار روز میں کئی ریڈلائنز کراس ہوچکی ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کی ریڈلائن کراس ہوئی تو ہم نے وہ نظارہ دیکھا جو کسی لیڈر کی گرفتاری پہ نہ دیکھا تھا۔ ریاست کی دھاک جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ اور جو ریڈلائن فوج کی طرف سے کھینچی گئی تھی، اس کے دفاع میں کھڑا ہونے والا کہیں نظر نہ آیا۔ بتایا گیا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”اپنے لوگوں“ کے خون خرابے کی سازش کو ناکام بنادیا گیا۔ بہت خوب! لیکن ریاستی دبدبے کے ہلکان ہونے کی قیمت پر۔ ”اپنے لوگ“ تو بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں بھی ہیں، ایسی فیاضی انکے نصیب میں کب آئی۔ بہرکیف پنجاب کے نوجوانوں نے، بلوچ اور پختون نوجوانوں کے شکوے کا جواب شکوہ دے دیا، بھلے اس واقعہ کو کیسے ہی ”وطن دشمنی“ سے تعبیر کیا جائے۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ انہیں بھٹو کے عدالتی قتل اور بے نظیر بھٹو کے سرعام قتل اور نواز شریف کی تاحیات نااہلی کرنے والی عدلیہ سے واسطہ نہ پڑا۔ فقط 48 گھنٹوں میں عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ نے نہایت سرعت سے عمران خان کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ انتظامیہ کے لمبے ہاتھوں کو بے بس کردیا۔ ایسی پھرتی اور شہری کی سلامتی کیلئے انصاف کی سرعت قابل تحسین ہے، جو کاش دیگر وزرائے اعظم اور عام شہریوں کے مقدر میں بھی لکھی جاتی۔ عمران خان نے اپنی رہائی کے بعد متشدد مظاہرین کی مذمت کی بجائے یہ کہا کہ انہوں نے اس بابت پہلے ہی متنبہ کردیا تھا اور اگر انہیں پھر گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو عوامی ردعمل پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔ جب جسکی پتلون بانس پہ لٹکادی گئی تھی، اسے ہیرو بنانے کی سوشل میڈیا پہ مہم چلی تو راولپنڈی کو وضاحت دینا پڑی کہ فوج اپنے سپہ سالار کی کمانڈ میں متحد ہے اور جمہوریت کی پاسبان بھی۔ لیکن عمران خان ہیں کہ اپنی بندوق کی شست اس سپہ سالار پہ تانے ہوئے ہیں، جو اپنے پیش رو کی سیاسی خجالت سے سیکھ کر سیاست میں اپنے پیشہ ورانہ ہاتھ گندے نہیں کرنا چاہتے۔ ایسے میں اشتعال انگیزی خاص طور پر وہ جو بھگوڑے پنجابی انٹیلی جنس آفیسرز باہر بیٹھ کر پیدا کررہے ہیں وہ کھلی غداری ہے۔ دریں اثنا تحریک طالبان پاکستان نے تحریک انصاف کی حمایت میں مسلح جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔ اسے سختی سے دور نہ رکھا گیا تو تحریک انصاف کا انجام کیا ہوگا؟ یہ خاکی مفتی تصادم ملک کو کہاں سے کہاں لے جائے گا؟ سول وار یا پھر کچھ اور؟ عمران خان پاپولزم کی لہر پہ سوار ہوکر عوام کی منشا کو انصاف اور اخلاقیات سے جوڑتے ہیں اور تحریک انصاف کو پرانی سیاسی مقتدرہ کے توڑ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن انکی جمہوریت بس اتنی ہے جو انکی زوردار شخصیت کے بلا شرکت غیرے صوابدیدی اختیار و اقتدار کی محتاج رہے۔
14 مئی آج گزرگیا اور پنجاب میں انتخابات نہ ہوسکے جو آئینی سے زیادہ سیاسی ترجیحات کا مسئلہ تھا۔ عدالت عظمیٰ نے 4 اپریل کو پختونخوا کو بھولتے ہوئے پنجاب میں انتخابات کیلئے 14 مئی کی تاریخ کیا مقرر کی کہ حکومت اور قومی اسمبلی حکم عدولی پہ ڈٹ کر کھڑی ہوگئی۔ کل ایک طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انتخابات کے حوالے سے تین رکنی بنچ کے سامنے درخواست کی سماعت ہونے جارہی ہے اور دوسری طرف پی ڈی ایم کی جماعتوں کے سپہ سالار حضرت مولانا فضل الرحمان نے تین رکنی بنچ کو دھمکاتے ہوئے سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ 90 روز میں انتخاب کروانے اور چیف جسٹس کے کلی اختیارات کو برقرار رکھنے کی ریڈ لائن کھینچ چکی ہے تو دوسری طرف حفظ ماتقدم کے طور پر توہین عدالت سے بچنے کیلئے پارلیمنٹ اور کابینہ کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے۔ گویا حکومت و پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سویلین آئینی اتھارٹیز کے مابین لڑائی میں ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں صرف آئینی و جمہوری نظام کے انہدام کا بندوبست کریں گی۔ انتخابی معاملات آئینی طور پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، سپریم کورٹ اسکے اختیار کو چھیننے کی بجائے اسے مزید مضبوط کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی قابل عمل تجاویز کو قبول کرلے۔ اگر ایسے ہوتا ہے تو عدلیہ حکومت سے تصادم میں بڑے سیاسی بحران کو مزید بگاڑنے سے بچ جائے گی اور اتحادی حکومت اور اس میں شامل جماعتیں عدلیہ پر حملے کے غیر آئینی جرم کے ارتکاب سے بچ جائیں گی۔ میری بطور مصالحت کار عزت مآب چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ الیکشن کمیشن کی آئینی استدعا کو شرف قبولیت بخشیں اور اپنے ادارے کی حرمت اورپارلیمنٹ کے استحقاق کو محفوظ بنائیں۔ میری محترم و مکرم اپنے دوست مولانا فضل الرحمان سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ اپنے دھرنے کی کال کو واپس لے لیں۔ آئینی اداروں میں تصادم اور آئین سے انحراف سے نقصان صرف جمہوری سیاست اور آئینی حکمرانی ہی کا ہوتا ہے۔ آئندہ ہفتے دو اور ریڈلائنوں کے تصادم میں کہیں لائنیں ہی نہ مٹ جائیں جن پر اتنی دھینگا مشتی ہو رہی ہے؟