• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے آخرکار 13 ماہ بعد سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کر ہی لیا تھا۔ تاہم اگلے روز سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا اور اس کے ساتھ ہی انہیں ’’شب بسری‘‘ کیلئے پولیس کے گیسٹ ہائوس بھجوا دیا، اس دوران انہیں 10ملاقاتیوں کی اجازت بھی دے دی گئی۔سپریم کورٹ نے عمران خان کیلئے ان کے ’’شایان شان‘‘ اکاموڈیشن فراہم کرنے کی ضمانت حاصل کر لی۔ عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےاحاطہ سے’’القادر ٹرسٹ کرپشن کیس ‘‘ میں نیب نے گرفتار کیاتھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے عمران خان کی گرفتاری پر جہاںاسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توہین عدالت کی کاررو ائی شروع کر دی وہاں ان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا،اس دوران احتساب عدالت نے عمران خان کا 8روز کا ریمانڈ بھی دے دیا ، توشہ خانہ کیس میں بھی عمران خان پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے جہاں عمران خان مختلف حیلے بہانوں سے پیش نہیں ہو رہے تھے۔ اب توشہ خانہ کیس فرد جرم کے مرحلے سے شہادتوں کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے،سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے معاملہ کو دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دیا ہے،جہاں عمران خان کو بڑا ریلیف مل گیا ہے۔ عمران خان نے اپنی گرفتاری سے قبل سیاسی حکمت عملی کے تحت اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ بنایا تھا انہوں نے ایک بار پھر انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف الزام تراشی کی تو فوج نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا فوج کی جانب سے عمران خان کو وارننگ دی گئی، پاک فوج کے ترجمان نے عمران خان کی طرف سے انٹیلی جنس ایجنسی کے اعلیٰ افسر کوٹارگٹ بنانابد نیتی پر مبنی،من گھڑت الزام ، انتہائی افسوس ناک ، قابل مذمت اور ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ ’’پاک فوج بد نیتی پر مبنی بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے ‘‘ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ ایک سال سے یہ ایک مستقل طرز عمل بن گیا ہے،جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اشتعال انگیز اور سنسی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ 9مئی2023کا واقعہ پیش آگیا۔عمران خان جو ضمانتوں کے پیچھے چھپ رہے تھے ،نیب نے موقع غنیمت جان کر عمران خان کو اسلا م آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار تو کرلیا لیکن اسے عمران خان کی گرفتاری پر لینے کے دینے پڑ گئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا لیکن آئی جی اسلام آباد پولیس اور سیکریٹری وزارت داخلہ کیخلاف عدالت کا تقدس مجروح کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی ،اس پر طرفہ تماشایہ کہ سپریم کورٹ نے ایک دن میں ہی کارروائی کر کے عمران خان کو مشروط طور پر رہا کر دیااور اگلے روز ان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔ 9مئی2023ء کو نیب نے عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیاتو فوری طور پر راولپنڈی ، اسلام آباد ، پشاور ، لاہور اور دیگروں شہروں میںپی ٹی آئی کے مشتعل کارکنوں نے فوجی تنصیبات پر حملےشروع کر دئیے،پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ٹی ٹی پی نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا تھا،دوسری بار پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جی ایچ کیو کے مین گیٹ پر پتھرائو کیا،لاہور میں کور کمانڈر کا گھر تباہ کر دیا میانوالی میںاس سیبر طیارے کا ماڈل نذر آتش کر دیاجس نے ہلواڑہ میں بمباری کر کے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔عمران خان کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کا پر امن احتجاج کا حق بنتا تھا لیکن جس طرح انہوں نے فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا،ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا ، اگرچہ پی ٹی آئی کی قیادت پر تشدد ردعمل سے لا تعلقی کا اظہار کر رہی ہے لیکن اب تک جتنی آڈیوز منظر عام پر آئی ہیں ان میں پی ٹی آئی کے کئی رہنما کارکنوں کو تشدد کی ترغیب دیتےسنائی دیئے۔ فوج کے ترجمان نے 9مئی2023کے واقعات کو سیاہ باب قرار دیا اور کہا ہے کہ ’’جو کام ابدی دشمن 75سال میں نہ کر سکا وہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی لبادہ اوڑھے گروہ نے کر دکھایا ‘‘ فوج کے ترجمان نے کہا کہ’’ فوجی تنصیبات پر حملوں کے پیچھے پی ٹی آئی کی شرپسند لیڈر شپ ، ہے مذموم منصوبہ بندی کے تحت حملے کئے گئے، منصوبہ سازوں اور سیاسی بلوائیوں کی شناخت کر لی گئی ہے سخت رد عمل کااظہار کیا جائے گا ‘‘1979میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے خود سوزی تو کی لیکن کسی نے فوجی تنصیبات پر حملہ نہ کیا12 اکتوبر1999 ء کو فوجی انقلاب کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی لیکن کسی مسلم لیگی رہنما نے جی ایچ کیویا کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملہ نہیں کرایا، 2007 ء میں بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے سرکاری تنصیبات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن کسی نے فوجی تنصیبات کا رخ نہیں کیا۔ 2017ء میں نواز شریف کو نااہل قرار دلوا کر ملکی سیاست سے باہر کر دیا گیا تو مسلم لیگی قیادت نواز شریف کو سزا دلوانے والے جرنیلوں کی نشاندہی تو کرتی رہی ہے لیکن اپنے کسی کارکن کو فوج کے ادارے کے سامنے نہیں لا کھڑا کیا ۔تاہم پی ٹی آئی نے عمران خان کی گرفتاری پر جو کچھ کیا اس کی ملکی سیاست میں نظیر نہیں ملتی اور عمران خان نے ریڈ لائن عبور کر کے اپنے لئے سیاست میں بہتر مواقع محدود کر دئیے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی ضمانت لے لی ہے، عدالت نے عمران خان کوپیر تک کسی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کی ہے ،عمران خان سے پوچھا گیا کہ دوران قید ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ملاقات ہوئی ہے تو انہوںنے نفی میں سر ہلایا لیکن جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ ڈٹے ہوئے ہیں یا ڈیل ہو گئی ہے تو وہ مسکرا دئیے ، جب ان سے ان کی خاموشی کےبارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنے منہ پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا سیاسی تجزیہ کار اس کے اپنی اپنی مرضی کے مطالب نکال رہے ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین