پارلیمنٹ اور عدلیہ کی باہمی کشمکش اور محاذ آرائی کی کیفیت نے ملک میں مایوسی کی فضا پیدا کردی ہے۔ ہمارے عوام پاکستانی سیاستدانوں، عدلیہ اور قومی اداروں کی بے توقیری کو دیکھ کر اپنے مستقبل سے ناامید ہوتے جارہے ہیں۔ پی ڈی ایم سے ملکی معیشت سنبھل نہیں پارہی اور آئندہ الیکشن کے بارے میں غیر یقینی حالات نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ کیا یہ صورتحال یونہی رہے گی اور غریب عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے جائیں گے۔ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی و معاشی مخدوش حالات میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق بلا شبہ پاکستانی سیاست کے لئے ایک امید کی کرن ثابت ہوئے ۔ انہوں نے مذاکرات کا آغاز کرکے دو سیاسی متحارب پارٹیوں، پی ڈی ایم اور مسلم لیگ (ن) کو ایک میز پر بٹھایا ۔ ایسے محسوس ہواتھا کہ سیاسی درجہ حرارت کم ہونا شروع ہوگیا ہےتاہم اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔حالانکہ سپریم کورٹ نے بھی سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ سیاسی گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے الیکشن کی تاریخ کا حل نکالیں۔ جماعت اسلامی کے امیرجناب سراج الحق نے اس سے قبل عمران خان اور وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کرکے انہیں اس بات پر قائل کیا تھا کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی ختم کرنے کے لئے قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔ جس پر سپریم کورٹ نے بھی امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے مصالحتی کردارکو خراج تحسین پیش کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جماعت اسلامی ملک کی واحدد ینی و سیاسی جماعت ہے جو موجودہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جناب سراج الحق نے سپریم کورٹ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ عید الاضحیٰ کے بعد جولائی میں بھی الیکشن کروائے جاسکتے ہیں۔اس لئے مئی میں الیکشن کروانے پر ہی سیاسی ڈیڈلاک نہیں ہونا چاہئے۔عدالت عظمیٰ نے جناب سراج الحق کی اس عملی تجویز کو سراہا اور سیاستدانوں کو انتخابات کے حوالے سے درمیانی راستہ نکالنے پر زور دیا۔ یاد ش بخیر! جب تحریک انصاف نے 2014ء میں 126دن کا پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا تھا تو اس وقت بھی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے عمران خان اور طاہر القادری سے مذاکرات کرکے سیاسی بحران ختم کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا تھا۔ جماعت اسلامی سے کسی معاملے میں اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن قومی تحریکوں اور مشکل وقت میں ہمیشہ اس کے پاکستانی سیاست میں مرکزی کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملک میں جب کبھی کوئی ناگہانی آفت، زلزلہ، سیلاب آیا تو جماعت اسلامی نے خدمت خلق کی شاندار مثالیں رقم کیں۔ ابھی چند ماہ قبل ملک کے مختلف حصوں میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں ملکی و عالمی اداروں نے بھی جماعت اسلامی کے ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کی ریسکیو اور ریلیف خدمات کی دل کھول کر تعریف کی۔ پاکستان کے عوام جماعت اسلامی کی قومی خدمات اور امانت و دیانت کے شاہد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی اور گوادر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عوام نے جماعت اسلامی کے نمائندوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملک کی 75سالہ تاریخ میں عوام نے مختلف جماعتوں کو اقتدار میں لا کر دیکھ لیا۔ لیکن معاشی و سیاسی حالات دن بدن خراب ہوتے چلے گئے۔ہمارے خیال میں اب جماعت اسلامی کو بھی ایک بار پاکستان میں اقتدار میں آنے کا موقع ضرور ملنا چاہئے۔ جب جماعت اسلامی بغیر کسی حکومت کے پورے پاکستان میں عوامی ریلیف کا اتنا بڑا تاریخی کام کرسکتی ہے تو وہ یقینی طور پراقتدار میں آنے کے بعد قوم کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو بھی اب اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ آخر کون سی جماعت پاکستان کی سیاست اور معیشت کو پٹری پر دوبارہ چڑھاسکتی ہے اور عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دے سکتی ہے۔
کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مرکز اور چاروں صوبوں میں آئندہ الیکشن سے پہلے انتخابی اصلاحات بھی از حد ضروری ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا احتساب کرنا چاہئے۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کے ذریعے آئندہ انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اگر ماضی کی طرح آنے والے انتخابات میں بھی روپے پیسے کے بل پر امیدوار جیتتے رہے اور انتخابی قواعد کی دھجیاں اڑائی گئیں تو پھر الیکشن کا سارا عمل بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے قبل اس اہم مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے۔ جن ارکان اسمبلی نے ماضی میں کرپشن اور لوٹ مارکی ہے، ان کی شہرت بھی اچھی نہیں ہے، انہیں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں اپنا ٹکٹ جاری نہ کریں۔ یہ بھی کوشش کی جائے کہ متوسط پڑھے لکھے طبقے سے زیادہ امیدوار انتخابی میدان میں اتریں۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنا احتساب خود نہیں کرتیں اس وقت تک جمہوری نظام بہتر نہیں ہو سکتا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)