• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر خارجہ بلاول بھٹوزرداری بھارت کی سرزمین پر مودی سرکار کی جو منجی ٹھوک کر آئے ہیں اس پر بھی کچھ مہربان چیخ وپکار کررہے ہیں کہ وہ بھارت سے ذلت کے سوا لے کر کیا آئے ہیں؟ یہ وہی مہربان ہیں کہ جن کے دورِ حکومت میں بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ان سے حق خودارادیت چھیننے اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کی ناپاک کوشش کی ۔یہ وہی ہیں جو اپنے دور ِحکومت میں کشمیریوں کے ساتھ انسانی ہاتھ کی زنجیریں بنا بنا کر اداکاری کرتے تھے اور دوسری طرف مودی سرکار کشمیری رہنماؤں ، نوجوانوں کو عملی طور پر لوہے کی زنجیریں پہنا کر جیلوں میں قید کرتی رہی یا انہیں شہید کر دیا گیا۔ کیا ایسے لوگوں کو جنہوں نے کشمیریوں کا حق خودارادیت غصب ہوتےوقت چپ سادھے رکھی ہو،جو اپنے سطحی سیاسی مقاصد کی خاطر قوم کو دھوکہ دیتے ہوں ان پر مستقبل میں بھروسہ کیا جانا چاہئے؟ قوم جسے عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے اگر یہ پاکستانی ہو تو ایک ایسا جم غفیر ہے جسے کبھی قیمے والے نان تو کبھی مفت کی سحریوں، افطاریوں پر ورغلایا جاتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرکے کیا برُا کیا؟ پاکستان کو سفارتی تنہائی سے نکالنے کی ایک کامیاب کوشش ہی تو کی، مکار میزبان نے اپنا اصل بھیانک چہرہ دکھا کر پاکستان کی تضحیک کرنے کی ناکام کوشش کی جسے بلاول بھٹو زرداری نے منہ پر کھری کھری سنائیں تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ساتھ پاکستان میںبعض لوگوں کےپیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے گوا جا کر دلیری کا مظاہرہ کیا یا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے پر ڈھونگ رچانے والے اداکاروں نے بزدلی کا ثبوت دیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی ثالثی کے نام پر مودی کے ساتھ کشمیر کا سودا کیا اوریہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ عمران خان ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو خطے میںکشمیر کے نام پر امن قائم کرسکتے ہیں اور امن کا نوبل پرائز ان کے سر پرمنڈلا رہا تھا، ہجوم عاشقاں اپنے محبوب لیڈر کے دور اقتدار میں کشمیر بارے دھوکہ، فراڈ پالیسی کا بلاول بھٹو کے دورہ بھارت کے دوران دیئے گئے بیانات ، تقاریر، پاکستان کے ٹھوس اور واضح مو قف کا موازنہ کرنے کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں جے شنکر کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے جواب میں درج ذیل نکات پڑھے او ر خود فیصلہ کرے کہ بلاول بھٹو نے بزدلی کا مظاہرہ کیا یا دشمن کودشمن کی سر زمین پر اسی کی زبان میں منہ توڑ جواب دے کر پاکستانی قوم کا پوری دنیا میں سرفخرسے بلند کیا۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ”بھارت دہشت گردی کے نام پر غیر ریاستی اداکاروں کو ریاستی کرداروں سے جوڑنا بند کرے۔ کشمیر پر بھارتی رویہ رعونت پر مبنی ہے۔

پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن پر واپس آئے بغیر بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ جو ملک خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے اسے کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق انہیں ریفرنڈم سے دورنہیں رکھنا چاہئے۔ کلبھوشن یادیو پاکستان کی سر زمین پر کیا کررہا تھا؟ مودی کو گجرات کا قصائی قرار دیئے جانے کے اپنے بیان پر انہوں نے کہا کہ یہ جملہ اسی لئے استعمال کیا کیونکہ یہ بھارتی شہری ان کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سیاست اور سفارت کاری میں کوئی چیز ذاتی نہیں ہوتی۔ پانچ اگست کے اقدامات حساس ہیں۔ ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سندھ طاس معاہدے کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کو بھارت کے کئی ہائیڈرو پاور پروجیکٹس پر خدشات ہیں جنہیں ختم کرنا ہوگا۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس پر پاکستان اب بھی انصاف کا منتظر ہے۔ لاہور حملے کے ڈوزیئر اقوام متحدہ کے پاس ہیں۔ ہمیں اس بارے میں سنجیدہ خدشات ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔“ عقل مگر تم کو نہیں آتی۔

اس ہجوم عاشقاں اور اس کے مقبول ترین لیڈر کی سیاسی بصیرت کا کیا کیا جائے جو ہر دلیرانہ اقدام میں بھی کیڑے نکالتے ہیں اور ان کا رونا ہی ختم نہیں ہوتا۔ یہ لوگ قومی یک جہتی کے معاملے اور عالمی امور پر اتحادی حکومت کی کسی بھی مثبت کوشش کو رگیدنے اور متنازع بنانے سے باز نہیں آرہے جس کی انہیں سزا ضرورملے گی،بلاول بھٹو نے وہی کیا جو ایک باعزت قوم کا بیانیہ ہوسکتا ہے۔ اس دورے کو معمولی نہ سمجھئے، آنے والے چند ماہ میں آپ اس کے واضح اثرات دیکھیں گے۔ پس منظر میں چین کی عالمی سفارت کاری کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران دنیا کا سیاسی و معاشی نقشہ یکسر بدل چکا ہے۔ چین عالمی سفارت کاری کا بادشاہ بن کر ابھررہا ہے تو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان کی سرپرستی میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امت مسلمہ کے نئے ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں۔ ایران، سعودیہ سفارتی تعلقات کی بحالی اورمستقبل میں بے مثال تعاون پر مبنی دوستی کی یقین دہانی نے پوری عرب دنیا کو امریکہ کے شکنجے سے نکال کر اس کا رُخ چین کی طرف کر دیا ہے۔ سی پیک کے پس منظر میں چینی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ ”پاکستان، چین مل کر کمیونٹی کونیامستقبل شیئر کریں گے۔“ روشن مستقبل کی طرف واضح اشارہ ہے اور جو لوگ ہوا کے مخالف اُڑ رہے ہیں وہی امریکہ سے مدد کے طلب گار ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین