• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی بجٹ برائے سال2016-17پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بجٹ کے حوالے سے حزب اختلاف کے اراکین کی جانب سے جو ترامیم دی گئی تھیں ان میں سے اکثر کو بجٹ کا حصہ بنادیا گیا ہے ، اگرچہ دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ملک شدید مالی و اقتصادی بحران سے دو چار ہے مگر اس کے باوجود بعض مالیاتی شعبوں میں قابل ذکر بہتری آئی ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ارکان سینٹ کی62فیصد ترامیم کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح مقامی اور امپورٹڈ ٹریکٹروںکے سیلز ٹیکس میں جو 10فیصد تجویز کیا گیا تھا اسے کم کرکے5فیصد کردیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں شرح نمو میں بہتری آنے کی وجہ سے مہنگائی میں توازن پیدا ہوا ہے اور اس میں کمی آئی ہے لیکن ان کے اس بیان کی عالمی مارکیٹ میں تصدیق نہیں ہوئی، اگرچہ رمضان المبارک کے موقع پر صوبائی ا وروفاقی حکومت کی جانب سے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں سبسڈی دینے کا اعلان ہی نہیں انتظام کیا گیا ہے۔ رمضان بازار سجائے گئےلیکن اشیائے ضرورت پھل فروٹ، سبزی وغیرہ کی قیمتوں میں کوئی بڑی کمی واقع نہیں ہوسکی۔ ضرورت ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال اور بااختیار بنایا جائے اور بجٹ تجاویز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے اقدام کئے جائیں۔ وگرنہ اپوزیشن کا یہ الزام اثر انگیز ہوگا کہ بجٹ روایتی طور پر اعداد و شمار کا ایک گورکھ دھندا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی کے ارکان کی جانب سے بجٹ اجلاس میں شرمناک حد تک عدم دلچسپی کا اظہار کیا گیا۔ عام بجٹ میں کورم توٹوٹتا ہی رہا جب وزیر خزانہ بجٹ سمیٹتے ہوئے اہم تقریر کررہے تھے تو اس وقت بھی نہ صرف کورم کی نشاندہی کی گئی بلکہ کورم ٹوٹ گیا۔ کیا جمہوری اداروں کی اہمیت و ساکھ کو اس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین