جس طرح ذوالفقار علی بھٹو مرحوم پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کے جذبات اور مقبولیت کا آئینہ دار تھے۔ ایک بڑے عرصہ اور گیپ کے بعد کسی حد تک عمران خان نے بھی اسی انداز کا ایک امیج اپنے بارے میں بنایا۔ عمران کی حب الوطنی اور ملک و عوام کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ بالکل اپنی جگہ مسلّم ہے مگر ہر انسان اپنی مضبوطی کے ساتھ ساتھ کمزوریوں کا ملاجلا مجموعہ ہوتا ہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے قبل اس وقت کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کی تحریک چل رہی تھی کہ ایک بھارتی طیارہ ’’گنگا‘‘ سرینگر سے دہلی جاتے ہوئے طیارے میں سوار دو کشمیری نوجوان اشرف قریشی اور ہاشم نے اغوا کرلیا اور یہ بھارتی طیارہ لاہور لے آئے۔ اس کشمیری نوجوانوں کی حریت پسندی اور ایکشن کا اتنا چرچا تھا کہ کشمیر کاز کیلئے بھارتی طیارہ اغوا کرنے والے کشمیری نوجوان ہیرو سمجھے گئے اور ڈھاکا سے واپسی پر عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو بھی عوامی جذبات کی صورتحال کے تناظر میں طیارہ اغوا کرنے والے ان دونوں کشمیری ہیروز سے لاہور ایئرپورٹ پر ہی ملے اور پھر بھارت نے اس طیارے کے اغوا اور پاکستان میں جلائے جانے کے واقعے کو بنیاد بنا کر مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو جانے والی پاکستانی پروازوں کو بھارت پر سے فلائی کرنے کا راستہ بند کر کے ملک کے دونوں حصوں کے درمیان فضائی رابطہ منقطع کردیا بعد میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اشرف قریشی اور ہاشم دونوں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ تھے۔ اختصار کے ساتھ بیان کردہ اس واقعے کا مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کی تلخ حقیقت سے بڑا اہم تعلق ہے اور بھٹو مرحوم کا ان کشمیریوں سے ملنا ایک عرصے تک بھٹو کے سیاسی مخالفین نے زیربحث رکھا۔ ایسا نہ ہو کہ نیٹو کی سپلائز کے خلاف عمران خان کا دھرنا بھی ایسے ہی چند مشیران کے مشورے پر عمران خان نے عوامی جذبات کی مطابقت کے لحاظ سے شروع کیا ہو ورنہ نیٹو سپلائز پاکستان کے راستے لے جانے کیلئے پاکستان ایک معاہدے کا پابند ہے۔
عمران خان جیسے سمجھدار اور عوامی لیڈر کا کام صرف عوامی جذبات کے ساتھ بہہ کر ان کی تعمیل کرنا نہیں بلکہ عوامی جذبات کو ایک مثبت رنگ اور موڑ دے کر عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے اس سمت میں لے جانا عمران خان کی ذمہ داری ہے جو عوام اور ملک دونوں کیلئے مفید اثرات کا حامل ہو۔ عالمی صورتحال کے تناظر میں نیٹو سپلائز کو پاکستان کے راستے لانے، لے جانے کی محفوظ اور بلاروک ٹوک اجازت ہمارے عاقبت نااندیش خودغرض سابق حکمرانوں کے دستخط کردہ معاہدے کے تحت ایک ذمہ داری ہے ورنہ پہلے سے مشکلات میں مبتلا امریکی تنقید اور لاتعلقی کے شکار پاکستان کے عالمی سطح پر مزید تنہا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ کیا عمران خان یہ الزام اپنے سر لینے کو تیار ہیں کہ ان کے نیٹو کے خلاف دھرنے کے باعث پاکستان کیلئے امریکی امداد معطل یا منسوخ کردی گئی؟ نیٹو ممالک کی ناراضی الگ ہوگی۔ اس بارے میں ثبوت کے طور پر امریکی محکمہ دفاع کے سالانہ بجٹ برائے 2014ء کے سیکشن 1211 کا متن ہے کہ جس کے مطابق پاکستان کو امریکی لوکیشن سپورٹ فنڈ کی ادائیگی اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان نیٹو سپلائز کو اپنے زمینی راستوں سے محفوظ انداز میں گزارنے کی ذمہ داری پوری کررہا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اگر کسی دھرنے یا رکاوٹ کے باعث پاکستان نیٹو سپلائز اپنے زمینی راستے سے نہیں گزار سکتا تو ماضی میں ہم نے اپنے پاکستانی وسائل سے دہشت گردی کے خلاف جو اسلحہ خرچ کیا اور دیگر اخراجات کئے تھے، پاکستان کو وہ سپورٹ فنڈ بھی واپس ادا نہیں ہوگا۔ دوسرے یہ کہ ایک مرتبہ پھر 12؍سال تک پاکستان کے سابق حکمرانوں کی غلطیوں اور ہوس اقتدار کے باعث پاکستان بطور اتحادی استعمال ہوکر تباہی اور مسائل کا شکار ہے۔ امریکہ اب اتحادی پاکستان سے اپنی ضروریات پوری کرکے بھارت کے ساتھ اتحادی بن کر ہمیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی تیاری کرچکا ہے۔ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے حالیہ ایک روزہ دورۂ پاکستان کے دوران امداد بند کرنے کی جو دھمکی زبانی طور پر ملاقاتوں میں دی تھی وہ قانونی اور تحریری طور پر امریکی بجٹ کی تعمیل کا حصہ بنائی جا چکی ہے۔ کیا دھرنا جاری رکھ کر عمران خان امریکی امداد کے اس حصے کو پاکستان کیلئے بند کرانے کا الزام یا کریڈٹ اپنے ذمہ لینے کو تیار ہیں؟ ملک کو بچانے اور ان طوفانی حالات میں ملک کی سمت متعین کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے عمران خان کی حب الوطنی کے ساتھ ساتھ دوراندیشی اور مثبت قائدانہ فیصلوں اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ علامہ طاہرالقادری کی تحریک بھی ان کی قیادت کے بغیر احتجاجی ریلیاں منعقد کرے گی۔ گزشتہ روز علامہ طاہرالقادری نے دوران گفتگو مجھے بتایا کہ وہ اپنی تحریک کے فائنل رائونڈ کے وقت پاکستان جائیں گے، فی الوقت وہ بھارت کے دورے پر جارہے ہیں۔ ایم کیوایم کی احتجاجی ریلی کی وجہ عمران خان اور طاہرالقادری کی ریلی سے مختلف ہے۔
لوکل باڈیز انتخابات کے حوالے سے ایم کیوایم کی اقتدار کی ساتھی پی پی پی اور سیاسی مخالف کے بدلتے ہوئے رشتے ان دونوں پارٹیوں کے تعلقات اور تعاون و عدم تعاون کا ریکارڈ ہے جو تجزیہ طلب ہے۔ پرویز مشرف کے حامیوں اور طاہرالقادری کے جلسوں میں نیویارک کی سطح تک تو تعاون اور قربتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ گزشتہ روز علامہ صاحب کیلئے ایک تقریب و خطاب کا تمام انتظام اور کنٹرول پرویز مشرف کے حامیوں کے پاس تھا اور سامعین کی ایک بڑی تعداد بھی ان پر مشتمل تھی جو پرویز مشرف کے حالیہ جلسوں کے منتظم ہوتے تھے۔
ادھر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکلاء نے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے سے روکے اور مداخلت کرے کیونکہ پاکستانی عدالت میں مقدمے کا فیصلہ منصفانہ نہیں ہوگا۔ جی ہاں! یہ وہی حکمراں جنرل (ر) مشرف ہیں جنہوں نے اپنے 9؍سالہ آمرانہ حکمرانی کے دور میں آئین کی دفعات، ہر ہر قانون، ہر ہر ضابطے کو اپنے مفاد، مرضی اور معنی کے مطابق استعمال کیا اور ان کے آمرانہ انداز اور فیصلوں سے اختلاف کرنے والوں کو کہا کہ ملک کے قوانین کی پابندی اور احترام لازمی ہے۔
سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر بھی اپنے اقتدار اور مفاد کا تحفظ کیا لیکن اقتدار سے محرومی کے ساتھ ہی پاکستان سے باہر آکر بینظیر اور نواز شریف جیسی کیفیت سے دبئی، لندن، نیویارک اور واشنگٹن میں دوچار ہوتے رہے۔ اب پاکستان میں ایک پاکستانی عدالت میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو پرویز مشرف کے وکلاء ان کی نمائندگی کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کرکے واضح پیغام ’’سب سے پہلے مشرف‘‘ سب سے پہلے اقوام متحدہ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ مشرف کے وکلاء کی یہ اپیل حقائق، قانون، اخلاق، انسانی حقوق کے لحاظ سے کوئی وقعت نہیں رکھتی اور اس کے مسترد کئے جانے کا امکان ہے۔ لاطینی امریکہ کے ملک پیرو کے حکمران فیوجی موری، ارجنٹینا کے فوجی آمر پنوشے، گوئٹے مالا کے جنرل افرین ریوس مونٹ پر ایسے ہی مقدمات ان ملکوں کی عدالتوں میں چلا کر انہیں سزائیں دی جا چکی ہیں۔ یہ تمام ممالک پاکستان سے چھوٹے، کم ترقی یافتہ اور کمزور سیاسی نظام کے حامل ملک ہیں، اقوام متحدہ نے کوئی مداخلت نہیں کی۔
دوسری بات اقوام متحدہ کا منشور تو فوجی آمریت کا اصولی مخالف ہے لہٰذا پرویز مشرف کی اقوام متحدہ سے جرنیلی اپیل پر کسی مداخلت یا شنوائی کے آثار نہیں ہیں۔ رہی بات امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب کی حمایت تو اقتدار سے محرومی کے بعد شاہ ایران، فلپائن کے مارکوس جیسے دولت مند اور بااثر سابق حکمران جس بے بسی اور ابتلا سے گزرے ہیں، وہ تاریخ اور مکافات عمل کا حصہ ہیں لہٰذا پرویز مشرف کی اقوام متحدہ سے اپیل محض ایک سیاسی چال ہے جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ ہمارے حکمران خود کو دوران اقتدار قانون سے بالاتر اور مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور اقتدار سے اترتے ہی قانون کی نظر میں مساوی ہونے کے بجائے بیرونی سرپرستوں کے تحفظ اور انسانی حقوق کا سہارا ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ تمام پاکستانیوں کیلئے قوانین بنانے والی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں ٹیکس لگاتی ہیں مگر تازہ رپورٹ ہے کہ ان اسمبلیوں کے 47؍فیصد اراکین خود یا تو ٹیکس میں دھاندلی یا عدم ادائیگی کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ایسے اراکین کو تو اسمبلی میں ووٹ کا حق نہیں، ان کے بنائے ہوئے قوانین کے قانونی اور اخلاقی جواز مشکوک ہے۔