10اپریل1973 ء کو قومی اسمبلی سے منظور اور 14اگست1973 ء کو مُلک بَھر میں نافذ ہونے والے پاکستان کے آئین کو رواں برس پچاس سال مکمل ہوگئے۔ اِس دوران آئین نے تین مرتبہ معطّلی اور دوبارہ بحالی دیکھی۔پاکستان اور بھارت ایک ہی دن آزاد ہوئے اور بھارت نے اپنا آئین اگلے دو سال میں بنا لیا اور وہ پچھلے 73سال سے مسلسل یومِ جمہوریہ منا رہا ہے۔چند برسوں کی تاخیر سے پاکستان بھی آئین بنانے میں کام یاب ہوگیا اور تین برس بڑے جوش و خروش سے یومِ جمہوریہ بھی مناتا رہا، لیکن بدقسمتی سے پہلے آئین کی عُمر تھوڑی ہی رہی کہ اُسے 1958ء میں منسوخ کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔
ماہرینِ سیاست کے مطابق، اُس دن سے ریاستِ پاکستان میں آئین اور حقیقی جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد جاری ہے۔درحقیقت، دستور ہی کسی بھی مُلک کی وہ مقدّس دستاویز ہے، جو یہ طے کرتی ہے کہ بنیادی ریاستی ستون، مقنّنہ، انتظامیہ، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کیسے نظامِ حکومت چلائیں گے، نیز، آئین میں یہ اصول بھی طے ہوتے ہیں کہ ریاست کی ذمّے داری اور عوام کے حقوق کیا ہیں، اِسی لیے آئین، نظامِ حکومت کو بحرانوں سے نکالنے اور نظام کو استحکام بخشنے کا باعث ہوتا ہے،لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے، جب دستور، عوام کے منتخب نمائندوں نے فہم وفراست سے بنایا ہو،جب کہ عوامی تائید ہی کسی آئینی دستاویز کو قوم کے لیے مقدّس حیثیت دیتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ آئین جس قدر زیادہ عرصہ نافذ العمل رہتا ہے، اُس کے عملی تجربات اور اُس کی طاقت میں اُسی قدر اضافہ ہوتا ہے۔برطانیہ اور امریکا سمیت کئی ترقّی یافتہ ممالک اس کی مثالیں ہیں، البتہ ایسی ریاست کو، جہاں علاقائی یا نسلی تفریق موجود ہو، ایک جامع اور لچک دار آئین کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز، جمہوری ریاستوں میں آئین کو’’ روشن مینار‘‘ سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ جس کی روشنی میں عوام اور حکومتی شعبے اپنی اپنی راہیں متعیّن کرکے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
ایک طویل اور کٹھن جدوجہد کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے مُلک، پاکستان میں آزادی کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو چند ترامیم کے ساتھ ریاست کا دستور قرار دیا گیا۔ بھارت کے برعکس، پاکستان میں آئین سازی کا عمل قدرے تاخیر سے شروع ہوا کہ آزادی کے ابتدائی برسوں میں اِس ضمن میں پیش رفت نہ ہونے کے برابر اور بہت سُست تھی۔پھر آزادی کے17 ماہ بعد مارچ1949ء میں آئین ساز اسمبلی میں قرار دادِ مقاصد کے ذریعے مستقبل کے آئین کے اصول وضع کر کے آئین سازی کی بنیاد رکھی گئی، تاہم بعض امور میں اختلافات کی وجہ سے اگلے کئی سال اِس سمت کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔
بعدازاں، آزادی کے نو سال بعد چوتھے وزیرِ اعظم، چوہدری محمّد علی کی قیادت میں آئین ساز اسمبلی نے23مارچ1956 ء کو مُلک میں پہلی مرتبہ نیا آئین نافذ کیا۔56 ء کے دستور کو پاکستان کی تاریخی آئینی کام یابی سمجھا گیا اور اِسی لیے سرکاری طور پر فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ ہر سال23مارچ کا دن،’’ یومِ جمہوریہ‘‘ کے طور پر منایا جائے گا، لیکن آئین کی صرف دو سال گرہ منائی جاسکیں اور 7 اکتوبر 1958 ء کو مُلک میں پہلی مرتبہ آئین منسوخ کرکے مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور پھر مارشل لاء حکومت کے چار سال بعد آرمی چیف، جنرل ایّوب خان نے یکم مارچ1962 ء کو نیا آئین نافذ کیا۔
چوں کہ یہ ایک آمرانہ حکومت تھی، اِس لیے یہ آئین بھی دیرپا ثابت نہ ہوا اور چھے سال بعد ہی1968 ء میں جنرل ایّوب کے اقتدار کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ تحریک میں وَن یونٹ کے خاتمے کا مطالبہ بہت شدّت اختیار کر گیا تھا، جو62 ء کے آئین کا بنیادی جزو تھا۔ مُلکی صُورتِ حال بے قابو ہونے لگی، تو ایّوب خان مستعفی ہوگئے اور اگلے آرمی چیف، جنرل یحییٰ خان نے25مارچ1969 ء کو حکومتی باگ ڈور سنبھال لی۔ جنرل یحییٰ نے ایّوب خان کا آئین معطّل کر کے ایک نیا عبوری آئین نافذ کیا اور 28نومبر1969ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مُلک میں آئندہ عام انتخابات 15اکتوبر 1970ء کو ہوں گے۔
نئی اسمبلی کو اپنے پہلے اجلاس کے120 دن کے اندر نیا آئین تیار کرنا ہوگا اور اگر اس مدّت میں یہ نہ ہوسکا، تو قومی اسمبلی توڑ دی جائے گی اور نئے سرے سے انتخابات ہوں گے۔7 دسمبر 1970 ء کو مغربی اور مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے، سیاسی جماعتوں کا منشور آئین سے متعلق تھا،عوامی لیگ چھے نکاتی ایجنڈے پر مشرقی پاکستان سے جیت کر مُلک کی سب سے بڑی اور اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی، جب کہ مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں، لیکن یحییٰ خان پُرامن طریقے سے اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے میں ناکام رہے، نتیجتاً مُلک کا ایک حصّہ علیٰحدہ ہوگیا۔ سقوطِ ڈھاکا کے ساتھ ہی یحییٰ خان کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہوگیا اور 20دسمبر1971 ء کو اُن کی جگہ ذوالفقار علی بھٹّو نے صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی ذمّے داریاں سنبھال لیں۔
ذوالفقار علی بھٹّو نے اقتدار سنبھالتے ہی قوم سے خطاب میں بتایا کہ جمہوریت جلد بحال ہوگی اور عوامی خواہشات کے مطابق آئین تیار کیا جائے گا۔14اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔17اپریل کو عبوری آئین کے مسوّدے پر عمل کرتے ہوئے25رُکنی آئینی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کی سربراہی رُکن قومی اسمبلی، محمود علی قصوری کو سونپی گئی، جب کہ دیگر ارکان میں ممتاز علی بھٹّو، غلام مصطفیٰ خان جتوئی، عبدالحفیظ پیرزادہ، سیّد قائم علی شاہ، ڈاکٹر مسز اشرف خاتون، غلام مصطفیٰ کھر، ڈاکٹر غلام حسین، بیگم نسیم جہاں، ڈاکٹر مبشر ملک، ملک محمّد اختر، ملک معراج خالد، مولانا کوثر نیازی، خورشید حسن میر، شیخ محمّد رشید، مفتی محمود، میرغوث بخش بزنجو، خان عبدالقیوم خان، محمّد حنیف خان، پروفیسر غفور احمد، شاہ احمد نورانی، نعمت اللہ خان شنواری، سردار شوکت حیات خان اور میاں ممتاز محمّد خان دولتانہ شامل تھے۔
20 اپریل1972 ء کو صدر ذوالفقار علی بھٹّو نے امورِ مملکت چلانے کے لیے عبوری آئین نافذ کیا۔22 اپریل کو وفاقی وزیرِ قانون و پارلیمانی امور، محمود علی قصوری کی صدارت میں آئینی کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔9اکتوبر کو عبدالحفیظ پیرزادہ کو اتفاقِ رائے سے آئینی کمیٹی کا نیا چیئرمین منتخب کیا گیا۔20 اکتوبر کو صدرِ پاکستان، ذوالفقار علی بھٹّو کی میزبانی میں قومی اسمبلی میں پارلیمانی رہنماوں کی کانفرنس بلائی گئی، جس میں نئے آئین کے بنیادی خدّوخال اور اہم نکات کے دستوری معاہدے پر اتفاق ہوا اور اِس آئینی سمجھوتے پر تمام پارلیمانی جماعتوں کے دس رہنماؤں نے دست خط کیے، جن میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ،ذوالفقارعلی بھٹّو، قیوم مسلم لیگ کے خان عبدالقیوم خان، نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے میر غوث بخش بزنجو اور ارباب سکندر خان خلیل، جمعیت علماء اسلام سے مولانا مفتی محمود، کاؤنسل مسلم لیگ سے سردار شوکت حیات، قبائلی علاقوں سے ریٹائرڈ میجر جنرل جمال دار خان، جمعیت علماء پاکستان سے مولانا شاہ احمد نورانی، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد اور آزاد ارکان کی طرف سے شیرباز مزاری شامل تھے۔
2 فروری1973 ء کو آئینی بِل قومی اسمبلی میں پیش ہوا، جس پر 17فروری سے بحث کا آغاز ہوا اور کُل34 نشستیں ہوئیں، آئینی مسوّدے کی تین خواندگی مکمل ہوئیں، اس دَوران روایتی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف میں بعض نکات پر شدید اختلافات بھی پیدا ہوئے، لیکن بات چیت بھی ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں 16دن اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والی حزبِ اختلاف نے آخر کار 10اپریل1973 ء کو قومی اسمبلی کے تاریخی اجلاس میں شرکت کی اور ایوان میں حاضر128ارکان میں سے125 نے آئین کی منظوری دے دی۔چار ارکان مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا محمّد علی رضوی، احمد رضا قصوری اور محمود علی قصوری نے رائے شماری میں حصّہ نہیں لیا۔ایک دن کے وقفے کے بعد12اپریل کو رائے شماری میں حصّہ نہ لینے والے چاروں ارکان سمیت قومی اسمبلی کے137ارکان نے آئین کی اصل کاپی پر دست خط کیے۔
بعدازاں، ارکانِ قومی اسمبلی15میل لمبے تاریخی جلوس میں پریذیڈینسی پہنچے۔ راستے میں دونوں جانب عوام پُرجوش استقبال کے لیے موجود تھے، پھر جیسے ہی صدرِ مملکت ذوالفقار علی بھٹّو نے آئین کے مسوّدے پر دست خط کیے، 31توپوں کی سلامی کے ساتھ’’ ہفتۂ جشنِ آئین‘‘ کی تقریبات کا آغاز کردیا گیا۔ اِس موقعے پر صدرِ مملکت نے مختصر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’قوم کو آئین مل گیا ہے، یہ آئین عوام کا ہے، عوام کی ملکیت ہے، وہ اپنے آئین کی خود حفاظت کریں گے۔‘‘ اِس خوشی میں مُلک بَھر میں دو دن کی عام تعطیل بھی کی گئی۔
آئین کی توثیق کے بعد مرکزی وزیرِ قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ’’نیا آئین پائے دار ثابت ہوگا، لیکن ضرورت پڑنے پر اس میں ترمیم ہوسکتی ہے۔‘‘ جب کہ دیگر جماعتوں کا موقف تھا کہ’’ بحیثیتِ مجموعی نیا دستور پچھلے دساتیر سے بہتر ہے،بعض بنیادی امور قابلِ اصلاح رہ گئے ہیں،جن کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔‘‘بہرکیف، 14 اگست1973ء کو قومی اسمبلی کی ایک سادہ سی تقریب میں چوہدری فضل الہیٰ نے صدر اور ذوالفقار علی بھٹّو نے بطور وزیرِ اعظم حلف اُٹھایا اور یوں نیا آئین نافذ ہوگیا۔
14اگست1973ء سے آج تک کا جائزہ لیں، تو پچاس سال میں آئین تین بار معطّل ہوا۔ پہلی مرتبہ آرمی چیف، جنرل ضیا الحق نے 5جولائی1977 ء کو آئین معطّل کیا اور 30دسمبر1985 ء کو8 سال، 6ماہ بعد کچھ اِس طرح بحال کیا کہ وہ آرمی چیف اور طاقت وَر صدر کے طور پر برقرار رہے۔ دوسری مرتبہ آرمی چیف، پرویز مشرف نے12اکتوبر1999ء کو آئین معطّل کیا اور پھر یہ اگلے تین سال اور 16دن کے بعد 16نومبر2002ء کو بحال ہوا، تاہم وہ بھی آرمی چیف کے ساتھ، طاقت وَر صدر کے طور پر بھی برقرار رہے۔ تیسری مرتبہ 3 نومبر2007 ء کو ایک بار پھر آرمی چیف، جنرل پرویز مشرف نے آئین معطّل کیا، لیکن محض ڈیڑھ ماہ بعد15دسمبر کو بحال کر دیا گیا۔
گزشتہ نصف صدی میں حکومتوں نے مختلف ضروریات کے تحت آئین میں ترامیم بھی کیں۔ اگست1973 ء سے اب تک آئین میں 26 ترامیم کی جاچُکی ہیں۔ بیش تر ترامیم محض ایک دن کی قلیل مدّت میں منظور ہوئیں۔ سات ترامیم آئین کے خالق وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بھٹّو کے دَور میں ہوئیں۔ میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہے اور اُن کے تینوں ادوار میں مجموعی طور پر8 آئینی ترامیم ہوئیں، غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم، محمّد خان جونیجو کے دَور میں تین آئینی ترامیم ہوئیں، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم، یوسف رضا گیلانی کے دَور میں بھی تین آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ نون کے وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عبّاسی اور عمران خان کے دور میں دو، دو آئینی ترامیم ہوئیں، جب کہ ظفراللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم ہوئی۔
ان میں سب سے زیادہ متنازع آٹھویں اور 17ویں ترامیم رہیں۔آٹھویں ترمیم میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا اور سترہویں ترمیم میں جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفّظ دیا گیا تھا۔جب کہ آئین کی اٹھارہویں ترمیم سے جمہوریت کو تقویت ملی اور اسے پارلیمنٹ کی سب سے بڑی کام یابی تصوّر کیا جاتا ہے۔یاد رہے، ترامیم کا آغاز آئین بننے کے تقریباً ایک سال بعد ہی ہوگیا تھا۔ 23اپریل 1974ء کو پہلا ترمیمی بِل قومی اسمبلی میں دو تہائی سے زائد اکثریت سے منظور ہوا،اس کے حق میں104 ووٹس پڑے، جب کہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ایوان میں موجود حزبِ اختلاف کے 13ارکان نے رائے شماری میں حصّہ نہیں لیا،اِس ترمیم کے ذریعے آئین سے مشرقی پاکستان سے متعلق شِق حذف کردی گئی اور مُلک کی جغرافیائی حدود کا ازسرِ نو تعیّن کیا گیا۔دوسری ترمیم 7ستمبر1974ء کو اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی۔
قومی اسمبلی میں حاضر حکومت اور حزبِ اختلاف کے 130ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا، اِس ترمیم سے منکرینِ ختم نبوّت، قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔تیسری ترمیم12اپریل 1975 ء کو دو تہائی سے زائد اکثریت سے ہوئی، ایک سو ارکان نے اس کی حمایت کی تھی اور حکم راں جماعت، پیپلزپارٹی کے باغی رُکن راؤ خورشید کا ووٹ مخالفت میں آیا،اِس بل کی رُو سے حکومت کو کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کو خلافِ قانون قرار دینے کا حق حاصل ہوگیا، جو مُلک کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف کارروائیوں میں ملوّث پائی گئی ہو۔
چوتھی ترمیم14نومبر1975 ء کو ہوئی، بِل کے حق میں 102ووٹ آئے، جب کہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔یہ اجلاس بہت ہنگامہ خیز رہا، اسپیکر کی حکم عدولی پر سارجنٹ ایٹ آرمز نے اپوزیشن کے 8اراکان کو ایوان سے زبردستی نکال دیا تھا۔اِس بل میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کو نمائندگی دینے اور بعض ارکان کی رُکنیت ختم کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کے عُہدے کی میعاد اور ریٹائرمنٹ کی شرائط میں تبدیلی کی گئی، اِس ترمیم کے نتیجے میں عدلیہ اور مقنّنہ میں علیٰحدگی ہوئی۔پانچویں ترمیم پانچ ستمبر1976ء کو منظور ہوئی، بِل کے حق میں 111اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔حزبِ اختلاف نے ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کیا تھا۔
اِس ترمیم سے عدلیہ پر انتظامیہ کی گرفت مضبوط ہوئی، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائی کورٹ کی مدّتِ ملازمت مقرّر کی گئی۔چھٹی ترمیم 22 دسمبر 1976 ء کو منظور ہوئی، اس بِل کی حمایت میں105 اور مخالفت میں7ووٹ آئے۔اِس ترمیم کی رُو سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عُمر65سال اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عُمر 62سال مقرّر کی گئی۔
ساتویں ترمیم16مئی1977 ء کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوئی، قومی اسمبلی کے226 میں سے 153ارکان نے حق میں ووٹ ڈالا، اِس ترمیم سے وزیرِ اعظم کو ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا۔ آٹھویں ترمیم 16 اکتوبر1985 ء کو کی گئی اور غیر جماعتی انتخاب سے وجود میں آنے والی اسمبلی کے 188ارکان نے بِل کی حمایت کی، جب کہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا،البتہ 46ارکان ایوان سے غائب رہے۔اِس ترمیم سے مارشل لا کے اقدامات کو تحفّظ مل گیا اور صدرِ مملکت کو اختیار دیا گیا کہ وہ جب چاہیں، اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔
آٹھویں ترمیم کے اِس اختیار سے تین مختلف صدور نے مُلک کی چار قومی اسمبلیاں توڑیں اور حکومتیں گھر بھیجیں۔نویں ترمیم8 جولائی 1986ء کو سینیٹ سے منظور ہوئی، جس کے مطابق شریعہ لاء کو لاء آف دی لینڈ کا درجہ دیا گیا۔ دسویں ترمیم 12مارچ1987 ء کو منظور ہوئی، بل کی حمایت میں 174ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک ووٹ پڑا، جب کہ حزبِ اختلاف نے ایوان سے واک آوٹ کیا تھا۔اِس ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرّر کیا گیا کہ قومی اسمبلی کی مدّتِ کارروائی کا درمیانی وقفہ130 دن اور سینیٹ کی مدّتِ کارروائی میں وقفہ 70دن تک رہے گا۔
گیارہویں ترمیم16مئی1991ء کو بھاری اکثریت سے منظور ہوئی، ایوان میں حاضر 138ارکان میں سے120 نے بِل کے حق میں ووٹ دیا،اِسے’’ شریعت بِل‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔بارہویں ترمیم18جولائی1991 ء کو منظور ہوئی، بِل کے حق میں154 اور مخالفت میں 26 ووٹ آئے، اِس ترمیم کی رُو سے سنگین جرائم کے تیز ترین ٹرائل کے لیے3 سال کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں۔ تیرہویں ترمیم یکم اپریل1997 ء کو منظور ہوئی۔ بِل کے حق میں 190ووٹ آئے اور کسی رُکن نے مخالفت نہیں کی، اِس ترمیم سے آٹھویں ترمیم کی متنازع شقوں، جیسے صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے، وزیرِ اعظم کو ہٹانے، گورنر اور افواج کے سربراہ مقرّر کرنے کا اختیار ختم کر دیا گیا۔14 ویں ترمیم یکم جولائی1997 ء کو منظور ہوئی، حکومت اور اپوزیشن کے 181ارکان نے بِل کے حق میں ووٹ ڈالے، جب کہ 36ارکان غیر حاضر رہے، اِس ترمیم کی رُو سے ارکانِ پارلیمان میں Defect پائے جانے کی صُورت میں اُنھیں عُہدوں سے ہٹانے کا قانون وضع کیا گیا۔
پندرہویں ترمیم9اکتوبر1998 ء کو منظور ہوئی، جس کی حمایت میں151 اور مخالفت میں 16ووٹ آئے، پانچ ارکان غیر حاضر رہے۔یہ ترمیم’’ شریعت بِل‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ 16ویں ترمیم27جولائی1999 ء کو منظور ہوئی،162 ارکان نے اس کی حمایت اور صرف چار نے مخالفت کی، اِس ترمیم سے کوٹا سسٹم کی مدّت میں بیس سال کی توسیع کی گئی۔ سترہویں ترمیم 29 دسمبر2003 ء کو منظور ہوئی،ترمیم کے حق میں248 ووٹ آئے اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا، حزبِ اختلاف کے اتحاد، اے آر ڈی نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، ترمیم سے مشرف حکومت کے اقدامات کو آئینی تحفّظ ملنے کے ساتھ، صدر کے اختیارات میں اضافہ ہوا، اُسے قومی اسمبلی کی تحلیل اور وزیرِ اعظم اور اُس کی کابینہ کی برطرفی کا اختیار مل گیا۔
آئین میں اٹھارہویں ترمیم8اپریل2010 ء کو منظور ہوئی،یہ اپنی نوعیت کا ایک تاریخی واقعہ تھا۔ یہ ترمیم متفّقہ طور پر منظور ہوئی، اس کے حق میں292ووٹ آئے،جب کہ کسی نے مخالفت میں ووٹ نہیں دیا۔ اِس ترمیم سے 1973ء کا آئین اپنی رُوح کے مطابق بحال ہوا، صدر کے اختیارات وزیرِ اعظم کو منتقل ہوئے، مستقبل میں مارشل لا روکنے کے لیے مزید محفوظ قوانین لائے گئے، صدر سے اسمبلی توڑنے اور سروسز چیفس کی تقرّری کے اختیارات واپس لے لیے گئے، کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ہوا، صوبائی خود مختاری دی گئی اور صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہوکر خیبر پختون خوا ہوا۔
انیسویں ترمیم22دسمبر2010 ء کو منظور ہوئی، اِس کے حق میں258 اور مخالفت میں ایک ووٹ پڑا، بِل کی رُو سے اسلام آباد ہائی کورٹ قائم کی گئی اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیّناتی سے متعلق قانون وضع کیا گیا۔بیسویں ترمیم14فروری2012 ء کو منظور ہوئی،جس کی 245 اراکان نے حمایت کی، کسی نے مخالفت نہیں کی، ترمیم کی رُو سے صاف شفّاف انتخابات کے لیے عبوری حکومت کے قیام میں حکومت اور حزبِ اختلاف میں اتفاقِ رائے ضروری قرار پایا، جب کہ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی مدّتِ ملازمت کا تعیّن بھی کیا گیا۔
اکیسویں ترمیم6جنوری2015 ء کو منظور ہوئی،ایوان میں 272اراکین موجود تھے، لیکن بل کی247 اراکان نے حمایت کی۔اِس ترمیم سے سانحۂ اے پی ایس کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں۔بائیسویں ترمیم19مئی 2016 ء کو منظور ہوئی اور ایوان میں موجود تمام 236ارکان نے اس کی حمایت میں ووٹ دیا، اِس بل کے ذریعے الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو کے قوانین متعارف کروائے گئے، چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی اہلیت کا دائرۂ کار تبدیل کیا گیا کہ بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رُکن بن سکیں گے۔
اگلی آئینی ترمیم21مارچ2017 ء کو منظور ہوئی،بِل کی حمایت میں255 ارکان نےووٹ دیئے، جب کہ چار ارکان نے مخالفت کی، اِس بِل سے2015 ء میں اکیسویں ترمیم کے ذریعے قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کی مدّت میں مزید دو سال کا اضافہ کیا گیا۔ چوبیس ویں ترمیم16نومبر2017 ء کو ہوئی، بِل کے حق میں242ووٹ آئے، ایک رُکن نے مخالفت کی، یہ ترمیم مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی دوبارہ تشکیل اور ختمِ نبوّت سے متعلق الیکشن ایکٹ کی شِقوں کی بحالی سے متعلق تھی۔پچیس ویں ترمیم 24مئی 2018ء کو ہوئی، بِل کے حق میں229 ووٹس آئے، اِس ترمیم کی رُو سے فاٹا کا خیبر پختون خوا میں انضمام ہوا۔چھبیس ویں ترمیم13مئی 2019ء کو متفّقہ طور پر منظور ہوئی، بِل کے حق میں288ارکان نے ووٹ دیا اور کسی رُکن نے اس کی مخالفت نہیں کی، اِس بِل کی رُو سے قبائلی اضلاع(سابق فاٹا) میں قومی اور صوبائی نشستوں میں اضافہ کیا گیا۔
بلاشبہ پاکستان کا آئین مُلک میں رہنے والے ہر شہری کی جان و مال اور عزّت وآبرو کے تحفّظ کا ضامن ہی نہیں، ہر شہری کے بنیادی حقوق کا پاس دار بھی ہے، جب کہ دنیا کے ہرجمہوری مُلک میں آئین ہی کو اوّلیت حاصل ہے۔مُلک کا کوئی بھی شہری اس سے بالا تر نہیں ہوسکتا کہ آئین سے انحراف درحقیقت مُلکی قوانین سے انحراف ہے اور اس کی آئین میں سخت سزا مقرّر ہے۔