• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! آج پاکستان جس سنگین آئینی و سیاسی و معاشی اور انتظامی بحران میں پکڑا جکڑا گیا ہے اس سے ہر ملکی طبقہ متاثر اور شہری مضطرب ہے۔ مکمل واضح ہے کہ ہم بحیثیت قوم صراط مستقیم سے بھٹک گئے۔گزری رات نیند اجڑی رہی تو میں خود بخود عالم اضطراب میں دیکھی بنتی تاریخ میں بھٹکتا رہا۔ رات گئے ترکیہ الیکشن کےنتائج نیٹ پر دیکھتے یادوں کے پرتو کھلے تو آج و حال پاکستان کے حوالے سے تاریخ کا اک پورا چیپٹر کھل کر سامنے آگیا۔ بہت حوصلہ افزا بہت سبق آموز۔80 کی دہائی میں جب اسلامی اور آزاد مغربی دنیا کی مالی و عسکری معاونت سے افغانستان میں روسی قابض افواج کے خلاف افغان مجاہدین کی کمال نتیجہ خیز مزاحمت جاری تھی تو اس کےسیاسی اثرات دور دور تک پہنچنے لگے۔ پولینڈ میں مزدوروں کی سالیڈیرٹی تحریک، روسی بغل میں آزادی کے لئے جارجیااور بالٹکس اسٹیٹس کی کروٹیں، نیپال کے شاہی خاندان میں بھارتی جکڑ سے نکلنے کا اضطراب، فلسطین میں خالصتاً سول فورس کے زور پر کامیابی سے بڑھتی تحریک انتفادہ، اسی طرز پر 1987-88 میں بغیر کسی بڑی بیرونی مداخلت کے مقبوضہ کشمیر میں سول زیر قیادت اور سیٹ اپ سے پاپولر اپ رائز (پرامن عوامی تحریک) کا لوئر پروفائل میں محتاط آغاز ہوا۔ افغانستان میں روسی شکست اور جینوا مذاکرات کے بعد روسی قابض افواج کا انخلاہی جاری نہ تھا، سوویت ایمپائر اور دیوار برلن تیزی سے مائل با انہدام تھیں۔

اس پس منظر میں یہ مئی 1990ء کی بات ہے مقبوضہ کشمیر کا پاپولر اپ رائز (انتفادہ) کا گراف تیزی سے بڑھنے لگا تو نئی دہلی نے بوکھلا کر بے قابو ہوئی مکمل پرامن سول تحریک پر لاٹھی گولی اور پھر بے رحمانہ کھلی فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہ سلسلہ شدت اختیار کرتا گینگ ریپس تک پہنچا، اس مرحلے پر تحریک آزادی کے سرگرم رہنما میر واعظ مولوی فاروق موجود میر واعظ کے والد شہید کر دیئے گئے۔ آزاد کشمیر میں داخل ہوتے دریائے جہلم میں شہدا کی بہہ کر آنے والی لاشوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ پاکستان میں محترمہ بے نظیر کی پہلی حکومت تھی۔ جماعت اسلامی کےاسکالر سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے اسلامی ممالک میں اپنے قریبی رابطوں کے تعاون سے پاکستان کا ایک بڑا پارلیمانی وفد تشکیل دیا، مقصد ان ممالک کی حکومتوں اور وہاں کے اپوزیشن رہنمائوں سمیت رائے عامہ کے رہنمائوں کو مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی اور کشمیری انتفادہ کے لئے حمایت اورتعاون حاصل کرنا تھا۔ وفد کی قیادت امیر جماعت اسلامی سینیٹر قاضی حسین احمد کر رہے تھے اور اس میں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (درخواستی، جو جمعیت فضل الرحمٰن سے الگ دھڑا تھا) کے سینیٹر اور اراکین قومی اسمبلی شامل تھے۔ گویا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سب پارلیمانی گروپ ایک پیج پر تھے اور سب کچھ کرنے پر آمادہ۔پروفیسر خورشید صاحب اور سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے مجھے وفد میں بطور میڈیا منیجر شامل ہونے کے لئے مدعو کیا، جو یقیناً میرے لئے پیشہ ورانہ اور کشمیر کاز پر سرگرم لکھاری کے حوالے سے اعزاز تھا۔ میرا کام وفد کی سرگرمیوں کی مفصل خبریں جلد سے جلد پاکستان اور متعلقہ ممالک کو بھیجنا تھا۔ ممالک میں سعودی عرب، ترکی، مصر، سوڈان، ابوظہبی، قطر اور دبئی شامل تھے۔انقرہ کے صدارتی محل میں جب صدر تورگت اوزال سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے سامنے رکھا نقشہ پھیلا کر قاضی صاحب سےگفتگو کرتے ہوئے مکمل انہماک سے مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوئوں کو سمجھا، ترکی کی ہر ممکن تعاون، مدد کا یقین دلایا اور فرمایا اب میں ترکی کے مسئلہ کشمیر پر تاریخی اور مسلمہ قومی موقف سے ہٹ کر ایک اور اہم بات آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔ صدر اوزال پیشے کے انجینئر تھے۔ بتانے لگے میں عہدہ صدارت سے پہلے پشاور کے افغان مہاجرین کیمپس دیکھنے گیا تھا، یہ اسلام آباد سے پشاور تک 9 سال بعد میرا دوسرا سفر تھا جس میں گردو نواح کے مناظر دیکھ کر مایوس ہوا اندازہ ہوا کہ پاکستان میں ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ پاک ترک گہری دوستی کا تقاضا ہے کہ میں آپ کی توجہ اس طرف ضرور دلائوں کہ مسئلہ کشمیر پر اپنے جاندار موقف پر قائم رہتے آپ اپنا فوکس اقتصادی ترقی پر کریں، اس سے آپ مسئلہ کشمیر کو بھی جلد حل کرانے کی صلاحیت حاصل کریں گے۔ پاکستان کااقتصادی طور پر مستحکم ہونا بہت اہم ہے‘‘۔ انقرہ وفد نے نومولودسیاسی جماعت رفاہ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی کیا جہاں پارٹی کے سربراہ انجینئر نجم الدین اربکان سے ہماری ظہرانے پر طویل ملاقات ہوئی۔ وہ مکمل حکیمانہ انداز سے ترکیہ کے سخت گیر سیکولر جرنیلوں کی امکانی مزاحمت سے بچتے اور خود کو قابل قبول بنانے کا پہلا ہدف حاصل کر چکے تھے کہ وہ رفاہ پارٹی کو بلدیاتی سطح پر سرگرم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اقتصادی سرگرمیوں کو بھی بڑھانے میں ان کی ترجیح بہت واضح تھی۔ انہوں نے وفد کو اس کے مقصد (کشمیر کاز) پر بھرپور حمایتی بیان جاری کرنے کے ساتھ اسے فارغ ہی نہیں کردیا بلکہ اپنے نائب کو ہدایت دی کہ وفد کو ایک مثالی بلدیاتی حلقہ (جو ایک پہاڑی دیہی علاقے میں واقع تھا) انقرہ کے چیمبر آف کامرس کا دورہ کرایا جائے۔ ان کی بریفنگ کا لب لباب اور سیاسی حکمت عوام الناس کو ان کے بنیادی حقوق کے حصول کو بذریعہ سیاست یقینی بنانے کے لئے ان کے ساتھ جڑ جانا اور ترک اقتصادیات میں عملاً شریک ہونا تھا۔ آنے والے وقت نے آشکار کیا کہ گلی محلے کی سطح پر عوام کی انتہائی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے بہترین ماڈل کی پریکٹس سے جناب نجم الدین اربکان کی پارٹی نے بڑی اکثریت سے ترک عوام کے دل موہ لئے۔ اتنے کہ ترکی کے کھوئے اسلامی تشخص کی بحالی کے دوررس ہدف کو حاصل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کرلی۔ موجودہ ترک صدر جناب طیب ایردوان میئر شپ میں استنبول کی کامیاب ترین شہری قیادت سے ملک کو مطلوب اپنی کامیاب قیادت کی راہ نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ واضح رہے کہ نجم الدین اربکان رفاہ پارٹی کو اکثریتی پارلیمانی جماعت بنا کر عہدہ صدارت پر فائز ہوئے اور داخلی سیاست کے ثانوی جھمیلوں کے باوجود ترکی کے اسلامی تشخص کا عمل رکا نہیں۔ طیب ایردوان کی موجودہ اکثریتی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی جو گزشتہ روز کے انتخاب میں رات گئے آنے والے انتخاب میں دوبارہ اکثریت حاصل کرتی نظر آ رہی ہے، نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی ہی آف شوٹ جبکہ طیب ایردوان بانی پارٹی کے ہی سیاسی شاگرد ہیں جنہوں نے ترکی کی اقتصادی اور عسکری قوت کی بحالی میں تاریخ ساز کردا ر ادا کیا اور ترکی کے عالمی و علاقائی سیاست میں کردار کی اہمیت اتنی بڑھ گئی کہ دنیا بھر خصوصاً یورپ، امریکہ اور روس کی نظریں ترکیہ کے جاری انتخابی نتائج پر لگی ہیں۔ ترکی کی یہ جدید روشن تاریخ سازی پاکستان کے لئے کیسے بہت سبق آموز اور عملاً بہت کچھ سیکھنے کا ساماں ہے؟ اس کے تجزیے سے پہلے قارئین یہ ذہن نشین کرلیں۔

تازہ ترین