بلاشبہ جمہوریت ہی کاروبار مملکت چلانے کا بہترین بندوبست ہے،لیکن گزشتہ کئی روز بلکہ قیام پاکستان تاامروز اس ملک میں جو کچھ ہوتا چلاآرہا ہے کیا اُسے کسی بھی طور جمہوری کہا جاسکتاہے ،بنابریں ملک بھر کےتجزیہ کاروں کا اس پر اجماع ہے کہ جس طرح کی حکومت ہے اپوزیشن بھی اُسی نوع کی ہے۔ اس پیرائے میں راقم کاکہنایہ بھی ہے کہ جس طرح تحریک انصاف کی حکومت کےبارے میں اسٹیبلشمنٹ نوازی کا چرچاتھا اسی طرح اس وقت پی ڈی ایم سمیت اپوزیشن میں شامل بعض طاقتور سیاستدانوں کی بھی اس سے یاری چھپائے نہیں چھپتی ۔توپھرکیونکر یقین کیا جائے کہ ایک کے جانے کے بعد جو دوسرے آئیں گے وہ ’’خودمختار‘‘ہوں گے۔قیامِ پاکستان تا امروز چونکہ پاکستان میں جمہوریت کواُس کی روح کے مطابق نافذ نہیں ہونے دیا گیا، اس لئے کسی بھی حکومت سے متعلق کبھی بھی یقین سے یہ نہیں کہا جا سکا کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہوگی۔یہ آج کا قصہ نہیں، جمہوریت کو پنپنے نہ دینے کی سازش اور حکومتوں کی توڑ پھوڑ کاعمل پاکستان قائم ہوتے ہی شروع ہوا۔ 11ستمبر 1948کو بانی پاکستان کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنا دیے گئے، یہ منصب چونکہ طاقت کا اصل منبع تھا اس لئے 16اکتوبر 1951کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے فوری بعد خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل سے ہٹاکر وزیراعظم اور بیورو کریٹ ملک غلام محمد گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہو گئے۔اپریل 1953میں گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کر دیا۔ محمد علی بوگرہ قانون ساز اسمبلی کے ذریعے 1935کےایکٹ میں ترمیم کرنا چاہتے تھے جس کے ذریعے گورنر جنرل آئے روز حکومتوں کو برطرف کرنے پر کمربستہ تھے۔ (دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ ایکٹ انگریز نے بنایا تھالیکن اُس نے کبھی اسے برطرفی کیلئے استعمال نہیں کیا) خیر ایک جمہوری طرزِ حکمرانی کے خوف سے اعزازی میجر جنرل اور وزیر دفاع اسکندر مرزا نے پہلے قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور1956 میں صدر پاکستان بن کر براہِ راست حکومتی جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ چوہدری محمد علی کو امریکہ سے بلاکر ملک کا وزیراعظم مقرر کیا، 12ستمبر 1956میں ایوان صدر نے عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم بنوایا اور استعمال کرکے چلتا کر دیا۔ اکتوبر 1957سے دسمبر 1957تک تین ماہ کیلئے ابراہیم اسماعیل چندریگر اور دسمبر 1957سے اکتوبر 1958 تک 10ماہ کیلئے فیروز خان نون بھی وزیراعظم رہے۔ 7اکتوبر 1958کو صدر اسکندر مرزا نےایوب خان کے ذریعے ملک میں مارشل لگا کر بالآخر اپنے عزائم کو عملی شکل دیدی لیکن 20روز بعد ہی انہیں اقتدار جنرل ایوب خان کے حوالے کرکے لندن میں اپنی باقی زندگی جلاوطنی میں بسر کرنا پڑی۔انگریز کے لے پالک، خان بہادروں، جاگیرداروں اور نام نہاد اسلام پسندوں پر مشتمل سیاسی کھوٹے سکوں نے اوائل آزادی سول و فوجی بیورو کریسی کے ساتھ مل کر ملک و ملت پر اقتدار کی ترجیح کا ایسا شرمناک ڈرامہ شروع کیا کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے ’’اتنی جلدی تو میںپاجامہ نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں حکمران بدل جاتے ہیں‘‘۔برطانوی راج سے آزادی لیتے وقت پاکستان و بھارت کی ریاستیں اقتصادی طور پر ایک سی تھیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ہر میدان میں فرق بڑھا۔کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ انگریز اگر دودھ، دہی خود کھاتا تھا تو لسی تو رعایا کو بھی مل جاتی تھی لیکن آج آزاد پاکستان میں 95 فیصد عوام 5 فیصد خواص کے استحصال کاایسے شکار ہیں کہ انہیں لسی سے بھی محروم کیا جارہاہے۔ ظاہر ہے جوتبدیلی عوامی قوت کے بجائے جوڑ توڑ یعنی ڈیل کے ذریعے آئے تو ایسی تبدیلی سے بھلا کیسے ملک و ملت کی حالت زار میں کسی جوہری تبدیلی کی اُمید رکھی جا سکتی ہے۔بدقسمتی یہ بھی ہےکہ جہاں حکومتی امور میں غیرجمہوری قوتوں کا عمل دخل پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے وہاں سیاست کا لبادہ اُوڑھے بعض ایسے پریشرگروپس بھی سامنے آچکے ہیں جو کسی بھی حکومت کیلئے کسی بھی وقت درد سر بن سکتے ہیں۔یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ ملک کی بڑی جماعتیں محض حکومت کو دبائو میں رکھنے کیلئے ایسے پریشر گروپوں کو ساتھ ملانے بلکہ کلیدی کرداردینے پرخود کو مجبور پاتی ہیںیہی وجہ ہے کہ حکومتوں کی تبدیلیوں سے زیادہ پائیدار جمہوری نظام کیسے آئے، اس سوال پر غور کی ضرورت ہے۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت اور مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے والےملک کی ترقی ہمارے حکمران طبقات اور سیاستدانوں کےکوتاہ وژن کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔