ملکِ عزیز ان دنوں شدید سیاسی خلفشار کا شکار ہے۔ ایک برس سے جاری سیاسی محاذ آرائی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ معیشت متاثر ہوئی ہے جس کا بہ راہِ راست اثر کروڑوں غریبوں کی زندگی پرپڑا ہے۔ وہ غریب جن کی زندگی پہلے ہی ریکارڈ توڑ منہگائی نے جہنم بنارکھی ہے۔ اس صورت حال میں عوام سوال کرتے ہیں کہ ہمیں کس جرم کی سزادی جارہی ہے؟
ایسے میں یہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ غذائی افراط زر کی فہرست میں پاکستان دنیا بھر میں تیرہویں نمبر پر موجودہے۔ دیوالیہ ہونے والے ملک، سری لنکا کا فہرست میں اٹھارہواں نمبر ہے۔ ٹریڈنگ اکنامکس نامی ویب سائٹ کی جانب سے غذائی افراطِ زر سے متعلق دنیا بھر کے ممالک کی جاری کردہ فہرست کے مطابق لبنان 352 فی صد منہگائی کے ساتھ دنیا کا منہگا ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ 0.4فی صدکے ساتھ چین غذائی افراطِ زر کے حوالے سے دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔
منہگے ترین ممالک کی فہرست میں وینزویلا 158فی صد کے ساتھ دوسرے، زمبابوے108فی صد کے ساتھ تیسرے اور ایران 71.5 فی صد کے ساتھ فہرست میں چوتھے نمبرپر ہے۔ اسی طرح اسلامی ملک ترکی 53.92 فی صد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے۔ منہگائی میں اضافے کے بعد پاکستان 48 فی صد کے ساتھ تیرہویں نمبر پر موجود ہے۔ ہمارا ہم سایہ ملک بھارت 3.84فی صد کے ساتھ 152 ویں اور بنگلا دیش 9.09فی صد کے ساتھ 111 ویں نمبرپر ہے۔
جائیں تو کہاں؟
دوسری جانب ادارہ شماریات نے تیرہ مئی کو ملک میں منہگائی سے متعلق جوہفتہ وار رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق ایک ہفتے کے دوران ملک میں منہگائی کی شرح میں1.05 فی صد اضافہ ہوا ہے اور ملک میں ہفتہ وار منہگائی کی مجموعی شرح 48.35 فی صد ہوگئی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران 30 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رواں ہفتے آلو، دال چنا، انڈے، آٹے کا تھیلا، پھل، تازہ دودھ سمیت دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں زندہ مرغی کے فی کلو گرام نرخ میں 35 روپے 74 پیسے کا اضافہ ہوا۔ آلو کی فی کلوگرام قیمت میں 3 روپے کا اضافہ ہوا۔چنے کی دال 4 روپے 82 پیسے مزید منہگی ہوئی، دال مسور 5 روپے، دال ماش 6 روپے 81 پیسے، دال مونگ ایک روپیہ 42 پیسے منہگی ہوئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے میں 30 اشیاء منہگی ہوئیں اور9 کی قیمتوں میں کمی آئی۔ اسی عرصے میں بارہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
اس سے قبل اپریل کے آخری ایّام میں حکومت نے کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں منہگائی 38فی صد تک بڑھ سکتی ہے اور منہگائی کا طوفان ملک کا سابقہ بلند ترین ریکارڈ بھی توڑ سکتا ہے۔ مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی منہگائی کی توقعات پر قابو نہیں پا سکی۔ اس ضمن میں وزارت خزانہ نے کہا تھا کہ اپریل2023 کے لیے افراط زر36فی صد سے38فی صد کی حد میں رہنے کی توقع ہے۔ یاد رہے کہ دسمبر1973 میں پاکستان میں منہگائی کی سب سے زیادہ شرح 37.8 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جسے منہگائی کی حالیہ لہرنےکافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مارچ 2023 منہگائی کی شرح 35.4 فی صد تھی۔
حکومت کی منکورہ رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیاتھا کہ مرکزی بینک کی پالیسیاں بھی مدد نہیں کر رہیں۔ وزارت خزانہ کے اقتصادی مشیر ونگ کی جانب سے تیار کی گئی اس رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ریکارڈ 21فی صد اضافہ کیا ہے۔ منہگائی کی شرح کم ہونے میں وقت لگے گا۔ اگلے مالی سال کے لیے حکومت نے اوسطاً20فی صد افراطِ زر کی شرح کا تخمینہ لگایا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی کام یابی سے تکمیل پریہ پروگرام زیادہ سرمائے کی آمد کو راغب کرنے، شرح تبادلہ میں مزید استحکام پیدا کرنےاور افراطِ زر کا دباؤ کم کرنے کی راہ ہم وار کرے گا۔ لیکن تاحال آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوسکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزارتِ خوراک کے تخمینے کے مطابق اس سال29ملین میٹرک ٹن گندم دست یاب ہوگی۔لیکن فی الحال تو لوگ سستے آٹے کے لیے در بہ در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔
ان حالات میں والدین کے لیے بچوں کی کتابیں خریدنا بھی مشکل ہوگیاہے۔ کاغذ کی قیمتیں بڑھنے سے درسی کتب کے نرخ بھی اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ انہیں خریدنا بہت سے والدین کے لیے ممکن نہیں رہاہے۔دو ہزار روپےکی کتابوں کا سیٹ آٹھ ہزار روپےتک جا پہنچا ہے۔ بچوں کے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر کتابوں اور کاپیوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے والدین اور اساتذہ، سب ہی کوبری طرح پریشان کر دیا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ حکومت بتائے کہ عوام کھانا پینا چھوڑ دیں یا بچوں کو پڑھانا،کیوں کہ دونوں معاملات کا ایک ساتھ چلنا تو ممکن نہیں رہا ہے۔والدین کے علاوہ بڑھتی ہوئی منہگائی سے دکان دار بھی پریشان ہیں۔ اسکول کے یونیفارم ہوں ،قلم، پینسل ہوں یا بستے، سب کی قیمت آسمان پر پہنچ چکی ہیں۔
آنے والا وقت بھی آسان نہیں
حال ہی جیں جاری کردہ آئی ایم ایف کی ورلڈ اکنامک آوٹ لک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں منہگائی ہدف سے زیادہ اور شرحِ نمو کم رہے گی۔ رواں مالی سال جی ڈی پی کی شرحِ نمو 0.5 فی صد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔منہگائی کی شرح 27.1 فی صد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے2.3 فی صد تک رہنے کا امکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فی صد تھی،لیکن رواں مالی سال پاکستان میں یہ شرح7 فی صد تک پہنچ جائے گی۔ تاہم آئندہ مالی سال میں ملک کی اقتصادی صورت حال میں کچھ بہتری کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو3.5 فی صد اور منہگائی کم ہو کر21.9فی صدتک ہو گی اورجاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے 2.4 فی صد تک رہنے کی توقع ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں بے روزگاری کی شرح7فی صد سے کم ہو کر6.8فی صدتک رہنے کا امکان ہے۔یعنی اگلے مالی سال میں بھی غریب کی مشکلات میں کو ئی خاص کمی نہیں آئے گی۔
مسئلے کی جڑ
زیادہ تر سیاسی اور اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ہمارے زیادہ تر مسائل، بالخصوص اقتصادی بدحالی ،کی بنیادی وجہ ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونا ہے۔اس وقت ملک کو سیاسی عدم استحکام،اقتصادی ابتری ،دہشت گردی سمیت کئی بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان میں جو سیاسی عمل شروع ہوا اس کے نتیجے میں 1973ء کا آئین اتفاق رائے سے بنایا گیا۔ اس آئین کو نافذ ہوئے پچاس برس ہوچکے ہیں۔ ان برسوں کا جائزہ لیں توملک میں زیادہ تر سیاسی عدم استحکام نظر آتا ہے۔
ہماری سیاست ،طاقت کی سیاست ہے۔ سیاست داں ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ا قتدار حاصل کرنے کی جستجو میں رہے۔ ہمارے ہاں شروع ہی سے اسٹیبلشمنٹ طاقت ور رہی۔ بیش تر سیاست داں اسی کی پیداوار ہیں۔ قائداعظمؒ کی رحلت اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد، پہلے سول بیوروکریسی ملک کے اقتدار پر قابض رہی، پھر فوجی آمرآئے۔ اسٹیبلشمنٹ بالواسطہ اور بلاواسطہ طورپرسیاست پر غالب رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں قدرتی طریقے سے سیاسی عمل نہیں چل سکا بلکہ جو قیادت آئی اس میں سرمایہ دار، وڈیرے، صنعت کار اور اشرافیہ کے لوگ تھے جو ہم پر مسلط کیے جاتے رہے۔
اس طرح ہمارے ہاں ایک مراعات یافتہ طبقہ پیدا ہوگیا جس نے ملک میں اصلاحات کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس سیاسی پختگی کا ثبوت دیا جس کے نتیجے میں سیاسی عمل صحیح معنوں میں آگے بڑھتا، سیاسی استحکام آتا اور معیشت مضبوط ہوتی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ 1970ء کے انتخابات کے علاوہ کوئی بھی الیکشن شفاف نہیں ہوا۔ جسےچاہا اقتدار میں لایا گیا اور جب چاہا نکال دیا گیا۔ دوسری طرف ہمارے معاشی حالات بھی ابتری کا شکار رہے۔ ہم قرضوںا ور امداد پر انحصار کرتے رہے۔ جس ملک نے ہمیں امداد دی اس نے ہمیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
آج کی اشد ضرورت اور تاریخ کی راہ نمائی
آج شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست داں آٓئین کے مطابق معاہدہ کریں، بروقت، شفاف انتخابات یقینی بنائیں، ان کے نتائج تسلیم کریں اور آگے بڑھیں۔ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں معیشت، خارجہ پالیسی اور اندرونی معاملات کےامور پر مل بیٹھیں تو سیاسی عدم استحکام کی راہ ہم وار ہوجائے گی۔ اسی لیے عدلیہ سے لے کر کورکمانڈرز کانفرنس تک سیاست دانوں کو مکالمے کی راہ اپنانے کا مشورہ دے رہی ہے۔ تاریخ بھی اسی جانب ہماری راہ نمائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
قومیں جب بقا کے خطرے سے دوچار ہوجاتی ہیں یا جب شدید بحران انہیں آگھیرتا ہے تو وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں اور کس طرح ان مشکل حالات سے نکلنے میں کام یاب ہو پاتی ہیں؟ ان سوالات کے ساتھ تاریخ سے رجوع کیا گیا تو جواب ملا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ کی اندرونی سیاست کے احوال کا مطالعہ کیا جائے۔ چناں چہ ایسا ہی کیا گیا۔
یہ اب سے تقریبا تراسی برس قبل کی بات ہے۔ دوسری جنگِ عظیم زور و شور سے جاری تھی۔ ہٹلر کی فوج کی جانب سے خوف ناک تباہی و بربادی کاسلسلہ جاری تھا۔ اسی دوران سات مئی 1940ء کا دن آگیا۔ وہ برطانوی وزیراعظم نیول چیمبرلین کی زندگی کا یادگار دن تھا۔ دارالعوام نے جرمنی کے خلاف تباہ کن برطانوی مہم پر بحث شروع کی اور بالآخر چیمبرلین کو اعتماد کے قابل سمجھا۔ اعتماد کاووٹ حاصل کرنے کے بعد چیمبرلین کو اپنی کام یابی و کامرانی پرشاداں و فرحاں ہوکر آگے بڑھنے کی ضرورت تھی۔ مگر اپنی ہی پارٹی میں پڑنے والی پھوٹ اور اٹھنے والے سوالات نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا دوسری جنگ عظیم میں وہ برطانوی قوم اور فوج کی قیادت کرنے کے قابل ہے اور کیاوہ دارالعوام میں اکثریت کی بنیاد پر اپنی مدت پوری کرسکتا ہے؟
چیمبرلین نے عالمی اور ملکی صورت حال ، جرمنی کے جارحانہ عزائم اور اپنی محدودات (Limitations) کا جائزہ لیا۔اپنی سیاسی جماعت کی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت چلانا اس کی ترجیح تھی اور نہ اس کی قوم کویہ ادا پسند تھی۔چناں چہ اس نے کنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی اور لبرل پارٹی پر مشتمل قومی حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن لیبر لیڈر لارڈ کلیمنٹ ایٹلی نے اس کی راہ روکنے کی کوشش کے طور پر یہ پیش کش مسترد کردی۔ لارڈ ایٹلی نے یہ فیصلہ نازی جرمن کو خوش کرنے کی ’’چیمبرلین پالیسی‘‘کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا تھا۔ دوسری جانب سرونسٹن چرچل بار بار نازی عزائم سے عوام اور پارلیمان کوآگاہ کررہا تھااور پولینڈ پر حملے نے اس کے خدشات کی تصدیق کردی تھی۔
چیمبرلین نے قومی حکومت کی تشکیل میں ناکامی کے بعد استعفیٰ دینے کا آبرو مندانہ راستہ اختیار کیا اور کوشش کی کہ اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ لارڈ ہیلی فیکس کو وزیراعظم بنادیا جائے۔ مگر ہیلی فیکس نے آنے والے طوفانوں کا اندازہ کرکے یہ پیش کش قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یوں سرونسٹن چرچل کےبرطانیہ کا وزیراعظم بننے کی راہ ہم وار ہوگئی جسے چند روز قبل فرسٹ لارڈ آف ایڈمریلٹی کے طور پر واپس بلایاگیا تھا۔ چیمبرلین اور بادشاہ دونوں چرچل کے حق میں نہیں تھے، مگر قرعہ فال بالآخر اسی کے نام نکلا۔
چرچل نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ میرے پاس اپنا خون، محبت ، آنسو اور سوائے لینے کے دینے کو کچھ نہیں ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس نے برطانیہ کو ان حالات میں زبردست قیادت دی اور اس کی بقا کو لاحق خطرات دور کیے۔ لکھنے والوں نے لکھا کہ برطانوی تاریخ کےاس کٹھن مرحلے پر اگرچرچل کی قیادت نہ ہوتی تو شاید آج برطانیہ کرۂ ارض پر موجود ہی نہیں ہوتا۔
چیمبرلین اپنا تاریخی کردار ادا کرچکا تھا اب چرچل کی باری تھی اس نے وزیراعظم بنتے ہی چیمبرلین پر زور دیا کہ وہ ان کی حکومت میں موجود رہے۔ کل تک چیمبرلین کی پالیسیوں، بالخصوص نازی جرمنی کے حوالے سے قوم کو دلاسا دینے والی پالیسی کےسب سے بڑے ناقدنے اپنے پیش رو کی شرافت اور نیک نامی کی تعریف کی اور فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے تمام اجلاسوں اور فیصلوں میں شریک کیا۔ یہ سیاست کے اعلیٰ معیار کی ایک واضح مثال ہے۔ لیکن ایسا وہ سیاست داں ہی کرسکتا ہے جو دور بیں اور وطن اور اہلِ وطن سے بہت مخلص ہواور اس کی فکر مدبّرانہ ہو۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس موقعے پر چرچل نے جو جنگی کابینہ تشکیل دی اس میں تینوں سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے۔ سابق وزیراعظم چیمبرلین کے ساتھ لیبر پارٹی کے کلیمنٹ ایٹلی، نیشنل پارٹی کے سرجان اینڈرسن ، کنزرویٹو پارٹی کے وسکائونٹ ہیلی فیکس، کینگسلے وڈ اور انتھونی ایڈن اور دیگر مایہ ناز برطانوی سیاست داں اس کابینہ کا حصہ تھے۔ قومی دفاع اور سلامتی کے علاوہ آزادی و خود مختاری کے تحفظ کی یہ جنگ جیتنے کےلیے سیاست دانوں نے اپنے اختلافات اور جماعتی مفادات کو پس پشت ڈالا اور اجتماعی دانش کو بہ روئے کار لاکر فاشزم پر فتح حاصل کی۔
پُر عزم راہ نما کے الفاظ
’’مجھےپورا اعتماد ہے کہ اگر ہم سب اپنے فرائض اداکریں،کوئی کوتاہی نہ کریںاور اگر بہترین انتظامات کیے جائیں ،جو کیے جارہے ہیں، تو ہم ایک بار پھر یہ ثابت کردیں گے کہ ہم مادر وطن کا دفاع کرسکتے ہیں، جنگ کا طوفان ٹال سکتے ہیں اور جبر و استبداد کی آفت ٹال سکتے ہیں۔ اگر ضرورت ہوئی تو ہم برسوںتک ایسا کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو میں اکیلے ایسا کروں گا۔ ۔۔۔۔۔ جب تک زندگی ہے ،ہم مادر وطن کی حفاظت کریں گے۔۔۔۔۔ اگر چہ یورپ کا بڑا حصہ اور بہت سی پرانی اور مشہور ریاستیں گسٹاپو اور نازی حکومت کےتمام ترکریہہ ہتھکنڈوں کی گرفت میں آچکی ہیں، لیکن ہم سرنگوں ہوں گے اور نہ ہی ناکام۔۔۔۔
ہم آخری حد تک جائیں گے ،ہم فرانس میں لڑیں گے۔ ہم دریاوں اور سمندروں میں لڑیں گے۔ہم اپنے فزوں تر اعتماد اور طاقت کے ساتھ فضاوں میں لڑیں گے، ہم اپنے جزیرے کی حفاظت کریں گے،خوا ہ اس کے لیے ہمیں کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ ہم ساحلوں پر لڑیں گے۔ ہم میدانوں میں لڑیں گے۔ ہم کھیتوں اور گلیوں میں لڑیں گے۔ ہم پہاڑوں میں لڑیں گے۔
ہم کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔اور اگر ایسا ہوا ،جس پر میں ایک لمحے کو بھی یقین نہیں کرتا ،کہ اس جزیرے یا اس کے بڑے حصےکو محکوم بنالیا گیا تو سمندروں کے پار پھیلی ہوئی ہماری سلطنت ،جس کی حفاظت برطانوی بحری بیڑہ کررہا ہے، وہ جدوجہد جاری رکھے گی۔ تا آنکہ خدا کی طرف سے آنے والے اچھے وقت میں نئی دنیا اپنی تمام تر طاقت اور اختیارات کے ساتھ ابھرے گی اور وہ پرانوں کی مدد کرنے اور اور انہیں آزادی دلانے کے لیے آگے بڑھے گی‘‘۔
برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل نے یہ تقریر دوسری جنگ عظیم کے دوران4جون 1940ءکو دارالامراء میں کی تھی۔اس تقریر کے الفاظ سے عیاں ہے کہ اس وقت برطانوی سلطنت پر کس قسم کے خطرات منڈلارہےتھےاور وہاں کے خواص اور عوام کی فکر کیا تھی۔وہ برطانوی عوام کے لیے قیامت کی گھڑیاں تھیں کیوں کہ اس وقت اتحادیوں کی قیادت ا ن ہی کا ملک کررہا تھا لہذا وہ دشمن کے لیے فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا تھا جسے مزہ چکھانا دشمن کے لیے ضروری تھا۔
مصنف، خطیب اور سربراہِ حکومت ، سر ونسٹن چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران وزیراعظم کی حیثیت سے برطانیہ کو شکست کے دہانے سے فتح تک لانے کی مہم کی قیادت کی۔ وہ 1874ء میں انگلینڈ کے قصبے اوکسفرڈ شائر میں پیدا ہوئے اور پہلی جنگ عظیم میں ایک حربی قائد کے طور پر اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ رکن پارلیمنٹ کے طور پر، ہٹلر کے جرمنی کی طرف سے درپیش خطرات سے متعلق مسلسل متنبہ کرنے کے نتیجے میں انہیں برطانیہ کا وزیراعظم منتخب کیا گیا تھا۔
1940ء میں انہوں نے فرینکلن ڈی روزویلٹ اور جوزف اسٹالن کے ساتھ مل کر دوسری جنگ عظیم کے لیے متحدہ حکمت عملی ترتیب دینے کا کام شروع کیا۔ ایک زبردست محب وطن اور اپنے ملک کی عظمت پر رومانوی یقین رکھنے والے فرد کی حیثیت سے چرچل نے اپنے عوام کو وہ مضبوط قیادت اور خلوص فراہم کیا جو بالآخر برطانیہ کی حربی نجات کا سبب بنا۔ 1953ء میں انہیں ان کی کتاب ’’ورلڈ وار‘‘ کے لیے ادب کا نوبل انعام ملا اور اسی سال انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔
جنگ شروع ہوئی تو نیول چیمبر لین برطانیہ کے وزیر اعظم تھے،لیکن اس وقت وہاں سیاسی کھچڑی پورے زوروں پر تھی ایسے میں چیمبر لین نےآنے والے طوفانوں کا رخ بھانپ لیا تھا، لہذا سرونسٹن چرچل کو اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا اور انہوں نے وہ کردکھایا جس کی خواہش مند ان کی قوم تھی۔ اس جنگ کے دوران ایسا وقت بھی آیا تھا کہ جرمن طیارے روزانہ دن میں دو مرتبہ لندن پر حملہ آور ہوتے۔ ایسے حالات میں چرچل نے بہت جرات، ہمت اور دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے پارلیمان کو ان سیشن رکھا، روزانہ ایک مورچے کا دورہ کرتے اور فوجیوں کی ہمت بڑھاتے، آرڈنیس فیکٹر ی جاتے اور معمول کے کام بھی کرتے۔اس دوران انہوں نے قوم سے جو خطابات کیے اور مختلف مقامات پرجو تقاریرکیں وہ شاہ کار تصور کی جاتی ہیں۔انہوں نے اپنے عمل اور خطابات سے پژمردہ قوم میں نئی روح پھونک دی تھی، لہذا اس قوم نے فتح پائی۔
دراصل ہم نے تاریخ کے دربار میں پاکستان کے تناظر میں سوال کیا تھا کہ زندہ قومیں مشکل حالات میں کیا کرتی ہیں؟ اس پر تاریخ کی کتابوں سے جواب آیا تھا کہ وہ اس طرح حالات کا مقابلہ کرتی ہیں۔ پھر سری لنکا اور کولمبیاوغیرہ کی بھی مثالیں بھی پیش کی گئیں۔
قوموں کا جذبہ
چین میں کوریاکی جنگ کے دوران ماؤزے تنگ کا بیٹا چل بسا تھا، جب بیٹے کی موت دت کی خبر چین پہنچی تو چین کی مائیں اپنے اپنے بیٹے لے کر ماؤ کے پاس حاضرہوگئیں اور ان سے کہا کہ آج سے ہمارے سب بیٹے آپ کے بیٹے ہیں۔ ماؤ نے یہ بیٹے بھی محاذ جنگ پر بھجوا دئیے اور اس کے بعد محاذ سے ہمیشہ اچھی خبر آئی۔
کولمبیا میں مافیا نے منصفوں اور عدالتوں کو بموں سے اڑانا شروع کردیا تھا، لیکن ججز نے اس کے باوجود مافیا کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری رکھی۔ عوام نے جب ججز کا استقلال دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے جس کے بعد عوام انہیں جلوس کی شکل میں عدالت لاتے اور خود جج کی کرسی کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے۔ عدالت میں بم پھٹتا اور یہ لوگ بھی جج کے ساتھ جان کی بازی ہار دیتے۔یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ ایسا وقت بھی آیا جب جج کی کرسی سے لے کر میلوں تک لوگ ہی لوگ ہوتے۔ چنانچہ بم پھٹنے کا سلسلہ رک گیا اور منصفین نے مافیا لارڈ کو سزا سنا دی۔
لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم ایک مسلح تنظیم تھی جو سری لنکا کے شمالی اور مشرقی جزیرے میں’’تامل ایلم‘‘ کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرنا چاہتی تھی ۔اسّی کی دہائی کے اوائل میں شروع ہونے والی یہ خانہ جنگی شروع میں صرف شمال تک محدود تھی، مگر دھیرے دھیرے یہ ملک کے دیگر شہری علاقوں میں پھیلتی چلی گئی اور نوّے کی دہائی میں کولمبو میں کیے جانے والے خود کش دھماکوں نے تو سری لنکا کو ہلا کر رکھ دیا ۔اس خوں ریزی میں 70,000 افراد مارے گئے۔
سری لنکا کی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا اور سیاحت بری طرح متاثر ہوئی۔تین دہائیوں پر محیط اس خونی تنازعے کو چار مرتبہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر چاروں دفعہ یہ کوشش کام یاب نہ ہو سکی۔ 2002ء میں ٹائیگر باغیوں اور سری لنکن حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا جس پر سری لنکن وزیراعظم وکرما سنگھے اورٹائیگرزکے سربراہ ولوپلائی پربھاکرن نے دست خط کیے۔
تاہم صرف تین سال بعد ہی تنازعے نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا اور بالآخر حکومت نے جولائی 2006ء میں ایک فوجی کارروائی شروع کی اور تامل باغیوں کو مشرقی صوبے سے باہر دھکیل کر 3,720مربع میل کے علاقے پر حکومتی عمل داری بحال کی جہاں اس سے پہلے تامل باغیو ں کا قبضہ تھا۔2007ء میں حکومت نے کارروائی کا رُخ شمالی علاقوں کی طرف موڑدیا۔2008ء میں امن معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے سری لنکا کی حکومت نے کہا کہ تامل باغیوں نے ہزاروں مرتبہ اس کی خلاف ورزی کی ہے۔
2009ء میں سری لنکا نے بالآخر ان تمام علاقوں پر اپنی رٹ بحال کر دی جن پر تامل باغیوں کا قبضہ تھا جس کے بعد ایل ٹی ٹی ای نے باقاعدہ شکست تسلیم کرلی۔ اس تاریخی کام یابی کے بعد سری لنکا کی حکومت نے کہا کہ جدید دنیا میں سری لنکا پہلا ملک ہے جس نے اپنے ملک سے دہشت گردی ختم کی ہے ۔18مئی 2009ء کو ایل ٹی ٹی ای کا سربراہ ولوپلائی پربھاکرن بھی سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں مارا گیا۔
آئر لینڈ کا تنازع 1968میں شروع ہوا، اس خونی تنازعے میں 3600افراد مارے گئے ،اس دور کو Troublesکے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔اصل جھگڑا شمالی آئر لینڈ کی آئینی حیثیت سے متعلق تھا۔ یونینسٹ جو اکثریت میں تھے اور پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتے تھے ، تاج برطانیہ کے زیر سایہ رہنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف نیشنلسٹ اورر ی پبلکن تھے جو کیتھولک اقلیت تھے اور ری پبلک آف آئرلینڈ کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ یہ مذہبی نہیں بلکہ خالصتاً علاقائی تنازعہ تھا۔آئرش ری پبلکن آرمی اسی دور میں وجود میں آئی جس کی مسلح جدوجہد کا مقصد گوروں کو اپنے علاقے سے باہر نکلنے پر مجبور کرنا اور شمالی آئرلینڈ کا ری پبلک آف آئرلینڈ سے الحاق تھا۔
آئی آر اے کا سیاسی بازو شن فین Sinn Feinکہلاتا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ تنازعے میں مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی رنگ غالب آتا گیااور بالآخرتمام فریقوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ 1996میں شروع ہوا جو 1998 میں ایک معاہدے کی صورت میں اختتام پذیرہوا۔ اس معاہدے میں ’’رضامندی کا اصول‘‘ طے ہوا جس کے مطابق شمالی آئر لینڈ کی آئینی حیثیت اور آئر لینڈ سے اس کے الحاق کا فیصلہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سرحدوں کے دونوں اطراف علیحدہ علیحدہ ریفرنڈم میں اکثریتی ووٹ اس کے حق میں ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس معاہدے سے پہلے آئی آر اے 1994میں جنگ بندی کا اعلان کر چکی تھی اور مذاکرات سے پہلے تمام جنگ جوئوں کے ہتھیار باقاعدہ تباہ کردیے گئے تھے۔