• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک صاحب ہیں جیفری حنٹن جنہیں بابائے آرٹیفشل انٹیلجنس کہا جاتا ہے، انہوں نے حال ہی میں گوگل سے استعفیٰ دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو اگر احتیاط اورذمہ داری سے استعمال نہ کیا گیا تو یہ مستقبل میں انسانیت کےلئے خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے۔بابا حنٹن کا خیال ہے کہ ابھی تو مصنوعی ذہانت اپنے خالق یعنی انسان سے کم ذہین ہے مگر اندیشہ ہے کہ جلد ہی یہ اپنے خالق سے زیادہ چالاک ہو جائے گی، کیوں کہ انسانی دماغ کی طرح آرٹیفشل انٹیلجنس نہ صرف معلومات اکٹھی کرتی ہے بلکہ ان کا تجزیہ کر کے اپنے تجربات سے سیکھتی بھی ہے۔بابا جی نے یہ بھی تنبیہ کی کہ انسان بائیو سسٹم ہیں جب کہ AI ڈیجیٹل سسٹم ہے جو اپنے جیسے ہزاروں ماڈل یک لخت تخلیق کرنے پر قادر ہے۔ یاد رہے کہ CHATGPT نامی معروف بوٹ کی بنیادیں بابا حنٹن نے رکھی تھیں۔

آپ کو یقیناً یہ کہانی سُنی سُنی لگ رہی ہو گی۔ کم از کم اس معاملے میں پاکستان مغرب سے کہیں آگے ہے، ہمارے ’سائنس دان‘ آرٹیفشل انٹیلجنس تخلیق کرنے کا یہ تجربہ کر بھی چکے ہیں، یہ تجربہ ’خطرے ناک‘ ہو بھی چکا ہے، مقامی مصنوعی ذہانت اپنے خالق کو نگلنے کے درپے ہو بھی چکی ہے اور اپنے جیسے ہزاروں ماڈل تخلیق کر بھی چکی ہے۔وطن اور سائنس کی محبت میں ڈوبے ہوئے مقامی جابر بن حیان اور ابنِ سینا پچھلے پچھتر سال سے ملکِ خداداد میں آرٹیفشل انٹیلجنس تخلیق کرنے پر کام کر رہے ہیں، CHATMQM سےCHATTTP تک درجنوں بوٹ تخلیق کئے گئے، سب کے سب اپنے خالق کے گلے پڑ گئے، سب کے سب نے بابا حنٹن کے اندیشوں کی تصدیق کی۔مگر ہمارے اولو العزم سائنس دانوں نے ہمت نہ ہاری، اور سال ہا سال کی محنتِ شاقہ کے بعد آخرِ کار آرٹیفشل انٹیلجنس کی انتہائی ترقی یافتہ شکل CHATPTI ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔پہلے تو اس بوٹ کو بڑے چائو سے سارا ڈیٹا فِیڈ کیا گیا، جو جو ہنر خالق میں تھا تخلیق میں منتقل کیا گیا، بوٹ میں فِیڈ کیا گیا کہ اپنے ہر مخالف کوغداری سے کیسے جوڑا جاتا ہے، بوٹ میں فِیڈ کیا گیا کہ اسلامی ٹچ دینے کے زریں اصول کون کون سے ہیں، یہ ڈیٹا بھی ا سٹور کیا گیا کہ ایمان داری کے ہمالہ کی چوٹی پر ناجائز قبضہ کیسے کیا جاتا ہے۔آرٹیفشل انٹیلجنس نے یہ سب ہنر سیکھے اور اپنے سیاسی مخالفین پر انتہائی کامیابی سے استعمال کرنے لگا، سائنس دانوں نے اپنی تخلیق کی یہ کامرانیاں دیکھیں تو خوشی سے نہال ہو گئے، لیکن یہ خوشی زیادہ دن برقرار نہ رہ سکی، کسی بات پر تخلیق اپنے خالق سے ناراض ہو گئی، اور اس نے مُڑ کر اپنے خالق پر پھنکارنا شروع کر دیا۔ آج اسی پھنکار میں سارا ملک جل رہا ہے۔نو مئی کو ہر طرف آگ بھڑک اُٹھی، سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کیا گیا، جناح ہائوس کی توہین کی گئی، شہیدوں کی یادگاروں کو جلایا گیا، غازیوں کی نشانیوں کو بھسم کر دیا گیا۔درجنوں آڈیو وڈیو ثبوت بتاتے ہیں کہ یہ سارا کھیل ایک منصوبہ بندی سے کھیلا گیا۔عمران خان کہتے ہیں یہ بلوا ہمارے لوگوں نے نہیں کیا لیکن جو لوگ جاں بہ حق ہوئے ہیں وہ ہمارے لوگ ہیں، اور ساتھ ہی دھمکی دیتے ہیں کہ اگر مجھے دوبارہ کسی کرپشن کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تو ملک اسی طرح جل اٹھے گا۔ سادہ لفظوں میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں قانون کمی کمین کے لئے ہے میرے لئےنہیں۔اب اس کا بھی کیا کیا جائے کہ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیرِ اعظم ہیں جو ثبوتوں سمیت رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، انہوں نے ایک آدمی کو ساٹھ ارب کا فائدہ پہنچایا اور رشوت میں اربوں روپے کی 450کنال زمین وصول کی۔انتہائی واضع، بالکل سادہ کیس ہے۔مگر خان صاحب فرما رہے ہیں کہ اگر کسی نے مجھے گرفتار کیا تو میں ملک کو آگ لگا دوں گا۔ اور اب آئیے آپ کو ایک سنگِ مرمر کی عمارت کی سیر کرواتے ہیں جہاں آپ کی ملاقات CHATCJPنامی ایپ سے کروائی جائے گی ۔ملزم کو دیکھ کر می لارڈ فرماتے ہیں’آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی‘۔ جج صاحب آپ کو کس بات کی خوشی ہوئی؟ ملک جل رہا ہے، شہیدوں کی یادگاریں جل رہی ہیںاورآپ ملزم کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوئے جارہے ہیں، کبھی مسکراتے ہیں، کبھی شرماتے ہیں، کبھی ہکلاتے ہیں،اور پھر فرماتے ہیں ’آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی‘۔ جج صاحب ’خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے۔‘ یہ عدالتی بوٹ بھی خالق کی مخلوق ہیں جو اپنے ’پروردگاروں‘ کے گریبان سے دست آزما ہیں۔

خیر، ہم خس و خاشاک اس مسئلے میں کیا کہہ سکتے ہیں، یہ معاملہ خالق اور اس کی مخلوق کے درمیان ہے، اب اگر CHATPTI اپنے خالقوں کے خلاف نفرت بھڑکا رہی ہے تو یہ تو ہونا تھا،اس ایپ میں نفرت بھی آپ نے ہی فِیڈ کی تھی، آپ نے اُس کی سیاست کی بنیاد میں نفرت کا گارا بھرا تھا، چور ڈاکو، چور ڈاکو کی گردان آپ نے ہی تو سکھائی تھی، اپنے مخالفین کو انسانیت کے منصب سے معزول کر کے گردن زدنی قرار دینے کا سبق آپ ہی نے تو پڑھایا تھا، آپ ہی نے تو اپنی مخلوق کو ’خیر‘ کا اور اس کے مخالفین کو ’شر‘ کا استعارہ بنایا تھا، اب یہ نفرت کی آگ آپ کے دروبام تک آ پہنچی ہے۔ یہ آگ بجھائیے ہر چند اس میں آپ کے ہاتھ جل جائیں!

بہرحال، اس صورتِ حال میں پاکستان کا ہر باشعور شہری بابا حنٹن کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے اور ان کے اس مطالبے کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے کہ ’’مصنوعی ذہانت کا یہ تجربہ یہیں روک دینا چاہئے، ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہئے، اورآگے بڑھنے سے پہلے سب کو مل کر منزل کا تعین کرنا چاہئے۔‘‘

تازہ ترین