مولانا محمد قاسم رفیع
اللہ تعالیٰ نے جب سے حضرت آدمؑکو مسجود ملائکہ کا شرف بخشا ہے، تب سے ابلیس لعین ان کا اور ان کی ذریت کا دشمن بن گیا ہے۔ شیطان نے انسان کو گمراہ کرنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال نہیں کئے اور کون کون سے جال نہیں پھیلائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے شیطانی چالیں ناکام بنائیں اور ان انبیائے کرام علیہم السلام نے وحی الٰہی سے روشنی پاکر تاریک راہوں میں بھٹکتے مسافروں کو ان کی منزل مقصود (آخرت) کا راستہ دکھایا۔ شیطان نے جہاں کفر، شرک، الحاد، زندقہ و دیگر حربوں سے انسان کو گمراہ کرنا چاہا ، وہیں اس کا ایک مہلک وار انکارِ ختم نبوت کے فتنے کی صورت میں بھی سامنے آیا۔
آنحضرت ﷺ نے دو سو سے زائد احادیث طیبہ میں یہ بات ارشاد فرمائی ’’میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ مگر اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور ان جیسے دیگر جھوٹے مدعیانِ نبوت نے عقیدۂ ختم نبوت کا انکار کرکے خود کو خدا کا نبی باور کرایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان فتنوں کی سرکوبی کی اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
زمانہ قریب میں ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کرکے انکارِ ختم نبوت کے فتنے میں روح پھونکی اور سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے لگا، اس کے قلع قمع کے لئے علمائے امت نے ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ جماعت علمائے کرام کی قیادت و سیادت، سرپرستی و راہنمائی میں قادیانیت کا مقابلہ کرنے لگی۔ امام بیہقی ؒ نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے: ’’اس امت کے آخر میں کچھ لوگ ہوں گے جنہیں اجر امت کے پہلوں کا سا دیا جائے گا۔ یہ لوگ ’’معروف‘‘ کا حکم کریں گے، بُرائیوں سے روکیں گے اور اہلِ فتنہ سے لڑیں گے۔‘‘(مشکاۃ المصابیح، ص:۵۸۴، ط:قدیمی)
اس ارشاد نبوی ؐسے معلوم ہوا کہ ’’المعروف‘‘ کا حکم کرنا، ’’المنکر‘‘ سے روکتے رہنا، اور فتنہ پردازوں سے برسرپیکار رہنا، یہ تین اوصاف پچھلوں کو پہلوں سے ملادیتے ہیں۔ مقبولیت عنداللہ پانے اور زمانے کا مقتدا بننے کے لئے علم و فضل، تقویٰ و طہارت، زہد و تقدس، اخلاق حسنہ جیسے اوصاف کریمانہ ضروری ہیں، مگر ان گراں قدر صفات سے آدمی کا شمار اسی زمانے میں ہوگا جس میں وہ پیدا ہوا اور اس کے اجر و ثواب کا پیمانہ اور قدرومنزلت کی کسوٹی بھی اسی دور کے لحاظ سے متعین ہوگی، مگر امربالمعروف، نہی عن المنکر، اور اہل فتن سے جہاد ایسے اوصاف ہیں جو قرونِ متاخرہ کے افراد کو قرونِ اولیٰ کی شخصیات بنادیتے ہیں۔ شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو پیدا تو اسی زمانے میں ہوئے مگر قادیانیت سے تا عمر برسرپیکار رہ کر ارشادِ نبویؐ کے مطابق :(ان کا اجر امت کے پہلوں کا سا ہے) کا تمغہ پاگئے۔
حضرت شہید اسلامؒ ساری زندگی دین کے تمام شعبوں میں خدمات انجام دیتے رہے، آپ ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے۔ مسند تدریس سے منبر و محراب تک، علمی و تحقیقی شان کے ساتھ ساتھ سادہ عوامی لب و لہجے میں وعظ و بیان، تحریر کے میدان میں قلم کی جولانیوں سے تقریر کے محاذ پر رس گھولتی شیریں آواز کی گونج، تبلیغ و خانقاہ سے میدانِ جہاد تک، عظمت اہل بیتؓ و صحابہ کرامؓ سے دفاع اکابر و اسلاف کا مزاج، درسِ قرآن، درسِ حدیث، تفسیر قرآن و شرحِ حدیث، فقہ و فتاویٰ، عام آدمی کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں درپیش مسائل کا حل، شرعی و فقہی جواب کے ساتھ ساتھ حکیمانہ و اصلاحی مشورہ۔ غرض یہ کہ کون سا شعبہ دین ہے، جہاں آپؒ کی خدمات نہ گنوائی جاسکیں، لیکن جس چیز نے آپ کو زمانے میں سب سے سربلند کردیا اور جو آپ کا تعارف و پہچان بن گئی ، وہ ہے: ختم نبوت کا تحفظ اور فتنۂ قادیانیت کا تعاقب۔
آپؒ میں اس جذبے کی بیداری کے اندر کس نے بنیادی کردار ادا کیا، آپ کے خادم و رفیق اور خلیفہ مجاز شہید ختم نبوت مولانا مفتی محمد جمیل خان ؒاس پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم فرماتے ہیں: مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کو قدرت نے تردیدِ قادیانیت کے لئے منتخب کیا تھا، آپؒ کی طالب علمی کے دور ہی سے تربیت اس ماحول میں ہوئی تھی،چنانچہ جامعہ خیرالمدارس میں تعلیم کے دوران آپؒ جمعہ کی تقریر سننے کے لئے حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد تشریف لے جاتے تھے۔ اسی کا فطری اثر تھا کہ ’’قادیانیت‘‘ کی نفرت دِل میں بیٹھی ہوئی تھی، ابتدائی تدریسی دور میں جب آپؒ کی نظر ’’صدقِ جدید‘‘ کے اس شذرہ پر پڑی جس میں مولانا عبدالماجد دریابادی نے لاعلمی یا غلط فہمی کی بناء پر قادیانیوں کی حمایت کی تھی، تو آپؒ تڑپ اُٹھے، اور فوری طور پر اس کا جواب لکھ کر ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ دیوبند کو اِرسال کردیا، جو نہایت آب وتاب کے ساتھ ’’دارالعلوم‘‘ میں شائع ہوا۔
اس کے بعد آپؒ اپنی تدریسی مصروفیات میں منہمک ہوگئے ،تاآنکہ قدرت کی طرف سے تردیدِ قادیانیت کے لئے آپ کو زندگی وقف کرنے کا حکم نامہ محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے ملا، اور آپؒ نے اپنی قلمی جولانیوں کا رُخ تردیدِ قادیانیت کی طرف ایسا پھیرا کہ آج اس موضوع پر سب سے زیادہ لٹریچر آپؒ کا تحریر کردہ ہے جو ’’تحفۂ قادیانیت‘‘ کی شکل میں ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے، جو تین جلدوں میں شائع ہوچکا ہے۔‘‘ (تحفۂ قادیانیت، ج:۱، ص:۱۴، ط:۲۰۱۰ء)
آپ کے اسی تحریر ی لٹریچر کی برکت ہے کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے تحت پروگراموں میں ختم نبوت پر جو اقوال جابجا آویزاں نظر آتے ہیں، وہ اکثر آپ ہی کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ اقوال ہر پڑھنے والے کو ختم نبوت کا پیغام دے جاتے ہیں۔ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے آپؒ کے جذبہ صادق اور قادیانی فتنے سے آپؒ کی نفرت اور غیظ و غضب آشکارا کرتے ہوئے آپ کے جانشین شہید ناموس رسالت مولانا سعید احمد جلال پوریؒ رقم طراز ہیں:’’دین، دینی اقدار کی سربلندی اور کفر و ضلال کی تردید اور مدعیٔ کاذب مرزا غلام احمد قادیانی کی تغلیط کے سلسلے میں ہمارے مخدوم و محبوب مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کو یہی مقام حاصل تھا، چنانچہ بارہا مشاہدہ ہوا کہ آپ کسی دُور دَراز کے سفر سے تھکے ہارے پہنچے، ادھر کوئی مرزائی یا قادیانیت زدہ آگیا، جیسے ہی اس نے قادیانیت پر کوئی سوال کیا، آپ کو اپنی ساری تھکن بھول گئی اور گھنٹوں اس سے بیٹھ کر ایمان و کفر اور کذبِ مرزا پر بات کرتے اور دلائل و براہین سے اُسے قادیانی دجل و فریب سے آشنا کرتے، مرزا کی دسیسہ کاریاں سمجھاتے، نہایت سوز و درد سے اس کا ایمان بچانے کی فکر کرتے، اور دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی کرکے بتاتے۔‘‘ (تحفۂ قادیانیت، ج:۱، ص:۱۹، ط:۲۰۱۰ء)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بات سمجھانے کا جو ملکہ عطا فرمایا تھا، اس کی بدولت آپ کتنے قادیانیوں کو راہِ راست پر لے آئے اور قادیانی سوالوں سے پریشان سادہ لوح مسلمانوں کے اشکالات کو بھی چٹکیوں میں حل فرمادیا۔ جناب محمد عتیق انور (لاہور) ایسا ہی ایک واقعہ اپنی یادداشت سے لکھتے ہیں:’’یکم صفر ۱۴۲۱ھ بمطابق ۶؍ مئی ۲۰۰۰ء بروز ہفتہ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ ملتان ختم نبوت کانفرنس سے فارغ ہوکر خیرالمدارس تشریف لے گئے، یہ حضرتؒ کا ملتان کا آخری سفر تھا۔ وہاں شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق ؒ نے حضرت کی خدمت میں نعت پیش کی، لوگ اچانک حضرت کو دیکھ کر حیران بھی تھے اور بہت خوش بھی۔
اسی اثنا میں حضرت شیخ الحدیث صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! میری بچی نے مجھ سے ایک سوال کیا ہے، میری خواہش ہے کہ جواب آپ ہی دیں۔ سوال یہ ہے کہ: کلمہ طیبہ کے دو جزو ہیں، پہلے جزو ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے منکر بے شمار ہیں، مگر دوسرے جزو ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے منکر چند ایک ہیں، جیسے قادیانی وغیرہ، جب کہ ہماری ساری محنت کلمے کے دوسرے جزو کے منکرین کے خلاف ہوتی ہے، کھلے کافر یعنی منکرینِ توحید یا لا الہ الا اللہ کے خلاف اس قسم کی محنت کیوں نہیں؟
حضرت شہیدؒ بچی کی ذہانت پر بہت خوش ہوئے اور اسے انعام بھی بھجوایا اور اس کے سوال کے جواب میں فرمایا: اس لئے کہ ہم سب مسلمان جانتے ہیں کہ عیسائی، یہودی اور ہندو وغیرہ لا الہ الا اللہ کے منکر ہیں اور ہم ان سے نفرت بھی کرتے ہیں، مگر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے منکر ایک تو ہمارے اندر چھپے ہوئے ہیں اور دوسرا اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں اور اس کے ساتھ ہمیں جتنی نفرت ان سے ہونی چاہئے اتنا نہیں ہے۔ اس لئے ہم اس پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔‘‘ (بینات شہید اسلام نمبرؒ، ص:۳۹۱)
اسی طرح کا ایک واقعہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی ناظم تبلیغ مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی لکھتے ہیں:’’جھنگ صدر کے مولانا ریاض الحسن قادری نے بتایا کہ ڈرگ روڈ کراچی کے ایک قادیانی نے ایک مسلمان نوجوان کو ورغلایا اور اس کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرکے اسے قادیانی بنالیا، رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں قادیانیت سے متأثر نوجوان کو حضرت لدھیانویؒ کی خدمت میں لایا گیا، حضرتؒ نے حسبِ عادت اس سے انتہائی شفقت و محبت سے گفتگو کی اور اس کے دل و دماغ میں ڈالے گئے شکوک و شبہات کا ازالہ فرمایا اور آخر میں اسے چند نکات بتائے کہ وہ اپنے قادیانی دوستوں کے سامنے پیش کرکے ان کے جوابات لے اور مجھے ان جوابات سے مطلع کرے، چنانچہ وہ نکات حسب ذیل ہیں:
۱:...تمام انبیائے کرام کے نام مفرد ہیں (یعنی حضرت آدم، نوح، شیث، ابراہیم، اسماعیل، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام) کسی نبی کا نام مرکب نہیں، جب کہ مرزا قادیانی کا نام مرکب(غلام احمد) ہے، ایسا کیوں ہے؟
۲:... ہر نبی کی وحی اس کی قومی زبان میں نازل ہوتی رہی، جب کہ مرزا قادیانی کو اس کے خود ساختہ تصوراور دعوے کے مطابق مختلف زبانوں میں وحی و الہام ہوئے۔
۳:...نبی کی پہلی وحی سے لے کر آخری وحی تک گرامر کی کوئی غلطی نہیں ہوئی، جب کہ مرزا قادیانی کی خرافات میں عربی اور اردو گرامر کی بے شمار غلطیاں موجود ہیں۔
۴:... تمام انبیائے کرامؑ نے بیت اللہ شریف کا طواف (حج و عمرہ) ادا کیا، مرزا قادیانی اس سے محروم رہا۔
۵:...کسی نبی کا کوئی استاذ نہیں ہوتا ،جب کہ مرزا غلام احمد نے فضل الٰہی، فضل احمد، گل علی شاہ سے ظاہری علوم اور اپنے والد مرزا غلام مرتضیٰ سے طب پڑھی۔ (بحوالہ: کتب البریہ، ص:۱۴۸ تا ۱۵۰)
۶:...کوئی نبی کسی امتحان میں ناکام نہیں ہوا جب کہ مرزا قادیانی مختاری کے امتحان میں ناکام ہوا۔
۷:...نبی جہاں فوت ہوتا ہے، اس کی تدفین اسی مقام پر عمل میں لائی جاتی ہے (جب کہ مرزا قادیانی کی موت لاہور کی احمدیہ بلڈنگ برانڈرتھ روڈ، نشتر روڈ) میں ہیضہ کی بیماری سے ہوئی، اور قادیان میں تدفین عمل میں لائی گئی، یعنی موت لاہور میں واقع ہوئی اور تدفین قادیان میں۔‘‘
وہ نوجوان یہ نکات نوٹ کرکے لے گیا اور قادیانی مربیوں سے گفتگو کی، مگر کوئی مربی اسے مطمئن نہ کرسکا، آئندہ جمعہ جو جمعۃ الوداع تھا، وہ حضرت لدھیانویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے قادیانیت سے توبہ کرکے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا، چنانچہ مسجدِ فلاح کے نمازیوں اور سامعین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور شام کو اس کے اعزاز میں عظیم الشان افطار کا اہتمام کیا گیا۔(بینات شہید اسلام نمبرؒ، ص:۴۱۷ تا ۴۱۹)
چونکہ یہ واقعہ آپ کی مسجد فلاح کا ہے، اسی مناسبت سے یہ بات عرض کرتا چلوں کہ آپؒ نے اپنی مسجد فلاح میں ۱۹۸۰ء تا دمِ شہادت (۲۰۰۰ء) بیس سالہ عرصے میں ختم نبوت کا کام اتنی گہری بنیادوں پر کیا کہ آج آپ کی شہادت کو بائیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس علاقے میں تحفظ ختم نبوت کی بہار قائم ہے، یقیناً یہ آپ کی مظلومانہ شہادت کی کرامت ہے اور اس مقدس خون کا اعجاز ہے جو فلاح مسجد سے دفتر ختم نبوت جاتے ہوئے ۱۸؍ مئی ۲۰۰۰ء کو اسی علاقے کی زمین نے اپنے اندر جذب کرلیا تھا۔
جیسے اللہ تعالیٰ ہر دور میں باطل کی سرکوبی کے لئے اپنے خاص بندوں کا انتخاب کرتا ہے، جن کے شب و روز اسی فکر میں گزرتے ہیں کہ کس طرح باطل کا راستہ روک کر اہل ایمان کو بچایا جائے اور پھر وہ اس فکر میں اپنی جان تک سے گزر جاتے ہیں، پھر ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی خاص شعبہ دین میں امامت اور مجددیت کے مقام پر فائز ہوجاتے ہیں، ایسے ہی شہیدِ اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کو عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانی فتنے کے تعاقب کے شعبے میں امامت کا درجہ حاصل تھا اور یقیناً آپ اس میدان کے مجدد تھے۔ تب ہی تو قطبِ دوراں خواجۂ خواجگان مولانا خواجہ خان محمدؒ آپؒ کو اپنی زبان اور ترجمانِ ختم نبوت کہا کرتے تھے۔
آج تحفظ ختم نبوت کا کوئی مبلغ اور کارکن آپ کی رہبری و رہنمائی سے مستغنی نہیں ہوسکتا اور آپ کا ردِقادیانیت پر شاہکار انسائیکلوپیڈیا ’’تحفۂ قادیانیت ‘‘ سے کوئی مبلغِ ختم نبوت اور عالم دین بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ یقیناً سب گلستانِ ختم نبوت کے اس گلاب کے خوشہ چیں ہیں، جس کی خوشبو چہار دانگ عالم کو مسحور کر رہی ہے۔