• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام !ذرا نہیں مکمل سنجیدگی سے سوچئے! ملکی مافیا راج (OLIGHARCHY) کی ہوس اقتدار اور اسی کی کھلی آئین شکنی نے کتنی مہلک شکل اختیار کرلی ۔مفلوک و بے حال عوامی قوت اور ناگزیر ملک گیر عسکری نظم میں بڑھتا خلا تصادم کی شکل اختیار کر گیا ۔ایک سے بڑھ کر ایک انتظامی ڈیزاسٹر اور مسلسل فسطائی اقدامات پر مکمل قابل مذمت تباہ کن عوامی برہمی اور خوف و خاموشی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کیا کیا کتنا اور کونسا بڑا بڑا کھلواڑ نہیںکیا جا رہا ؟مسلمہ قومی سیاسی قیادت کو عوام سے مکمل کاٹ کر شدید اور تسلسل سے غیر قانونی دبائو میں رکھنے کے بدترین سیاسی و انتظامی حربے، پھر بڑے بڑے ڈیزاسٹرز پر بھی ان کا جاری رہنا ۔!ملک کی 70فیصد آبادی کو نام نہاد اور مکمل سیاسی جانبدار اناڑی نگران حکومتوں کے حوالے کر دینا ملک کے کنٹرولڈ مین اسٹریم میڈیا سے ہائی فری کوئنسی پر آتشی حکومتی ابلاغ۔عدلیہ پر مسلح لشکر کشی کی کھلی حکومتی چھوٹ ادھ موا کر دینے والی مہنگائی میں جکڑے عوام سے مکمل حکومتی و سیاسی لاتعلق اور اس چوپٹ راج میں تباہ ہوتی قومی معیشت اور معمول کی اجڑتی بگڑتی کاروباری سرگرمیاں ، بے قابو مہنگائی کی آڑ میں ہونے والی ناجائز منافع خوروں کی پیدا کردہ ظالمانہ عوامی پسائی اور اس پر ’’نگرانوں‘‘ کی ساری نگرانی اس کی کہ انتخاب بمطابق آئین کا ماحول نہ بن پائے اس ستم گری میں جو بدتر اور سخت قابل مذمت سلوک گرفتاری کے وقت اور پھر ہماری مائوں، بہوئوں، بیٹیوں کےساتھ مردانہ تھانوں میں ہو رہا ہے ۔جعلی ، جھوٹے گھڑے مقدمات کی بھرمار، گرفتاریوں کا جنون اور ضمانتوں پر عدلیہ مخالف تبرے پرتبرا، ہوش پرجوش غالب نہیں حملہ آور ہے غضب خدا کا یہ کیا ہو رہا ہے ؟متفقہ آئینی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، جس نے مثالی ،اسلامی ، جمہوری ،فلاحی معاشرہ بننا تھا وہاں اب :

چراغِ طور جلائو بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھائو بڑا اندھیرا ہے

ملک کی اس مجموعی مایوس کن منظر کشی میں غم والم کے جو نقوش گلی محلے اور قصبات و شہر پر تنی ہراسگی کی چادر و چار دیواری پر اٹے پڑے ہیں اس کے متوازی ایک غضب یہ ہو رہا ہے کہ ملکی قومی دھارے کو ابلاغ عامہ سے کاٹ کر اس کُل کے جزو (پروپیگنڈے) میں خطرناک حد تک جکڑ دیا گیا ہے آئین و الیکشن اور جمہوری سیاست سے مکمل خوفزدہ اتحادی حکومت اپنے اقتدار کی ہوس اور انتخاب بمطابق آئین کے نتائج سے خوفزدہ ہو کر جس نوعیت کی اشتہاری مہمات میڈیا سے، عوامی حاصل ٹیکس سے مختص سرکاری ایڈبجٹ کا غیر قانونی اور غیر اخلاقی استعمال کرکے، چلائی جا رہی ہیں اس کے عوامی نفسیات پرپہلے سے موجود مہلک درجے کے سیاسی و معاشی عدم استحکام (پر مزید منفی ) اثرات خصوصاً ہر سطح کی معاشی سرگرمیوں اور رہی سہی سرمایہ کاری پر کیا مرتب ہو رہےہیں، اسے سیاسی فائدے کے محدود تنگ نظری سے پرکھنا تو موجودہ ڈیزاسٹر حکومت کے بس کا روگ تو قطعی نہیں ۔اتنے بڑے بجٹ کا فیڈ بیک حاصل کرنا بھی سائنٹفک کمپین کا لازمہ ہوتا ہے ۔سو ان مہمات کے ذرائع ابلاغ جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہی ہیں خدارا کسی ماہر ابلاغیات کی خدمات مستعارلے لیں وہ جو کچھ اولیگارکی سیاست کے جنون میں کر رہی ہیںوہ ملک و معاشرے کیلئے اور خود ان مہم جوئوں کیلئے مکمل اور بڑے خسارے کا سودا ہے ۔اس کے نتائج دوررس تو جو نکلیں گے نکلیں گےہی ،جو نکل رہے ہیں وہ بھی سیاسی تخریب کے زمرے میں آتے اورساتھ ساتھ نکل رہے ہیں ۔خاکسار اس کا مفصل تجزیہ اس لئے نہیں کرے گا کہ ناچیز جاری حالت حاضرہ میں آئین کی جتنی بالادستی،عدلیہ کے اعتماد و وقار کے تحفظ خصوصاً آئینی حوالے سے ہرحالت میں مطلوب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے الیکشن پر حکومتی موقف سے اپنی کالم نویسی میں لی گئی یکسر پوزیشن کے باعث جملہ مخاطب حکومتوںکیلئے قابل و اعتبار نہیں جبکہ کالم کے اس پارٹ میں میری مخاطب اشتہار باز حکومتیں ہی ہیںناکہ معمول کےقارئین۔تاہم اتنا ان حکومتوںاورعام قارئین کی CONSUMMTIONکیلئے ہر حال میں لازم ہیں خود میڈیا انڈسٹری کیلئے بھی، یہ کہ:پروپیگنڈہ (جس کیلئے جدید اصطلاح، اب سائیکلوجیکل وار فیئر یا کمیونیکیشن اور ترقیاتی ابلاغ (ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن) کی طرح (MASS COMMUNICATION) کی ایک جہت ہے ناکہ اسے میڈیا یا صحافت سمجھ کر اس پر نازاں ہوا جائے کہ میڈیا کی طاقت ہمارے ہاتھ لگ گئی۔پروپیگنڈہ کیلئے میڈیا دشمن ملک کیلئے تو استعمال ہوتا ہے ناکہ اپنے ملک کے عوام کو اس کا ٹارگٹ آڈیننس بنا کر معاشرے کو تقسیم و انتشار سے دوچار کیا جائے۔

ایک ہی ملک میں مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف اور اپنے موقف کی ترویج کیلئے بھی پروپیگنڈے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے نہ ہی اس کے حربوں پر مبنی اقسام کا استعمال ہوتا ہے بلکہ پولیٹکل کمیونیکیشن پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا سٹائل کو ایڈورٹائزنگ کےنام سے استعمال مکمل غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے اور مہمات چلانے والے اس کے خسارے پر چوکس ہوتے ہیں بشرطیکہ حقیقی ابلاغ کے ماہر ہوں ماشااللہ پاکستان کے جمبو سائز الیکٹرانک میڈیا کو جس طرح پیمرا نے اپنے کلچر میں جکڑ کر ملک گیر پارلیمانی قوت وقیادت کی کوریج کا بائیکاٹ کرکے ٹاک شوز میں حکومتی مخالف نقطہ نظر کی محتاط گنجائش کا اتمام حجت کرنے کی اجازت دی ہے اور انتہاکی غیر ذمے داری اور مہلک سیاسی مزاج سے پروپیگنڈا مہمات اپنے ہی ملک کے عوام کو ٹارگٹ آرڈیننس بنا کر چلائی جا رہی ہیں وہ پوری قوم و ملک کیلئے خسارے کا سودا ہیں ۔اتنی بات سمجھ آ رہی ہے تو خاکسار کو بھی ملکی شہری سمجھ کر غور کرلیں۔

حق بات تہ تیغ و سرِ دار کریں گے

یہ جرم گر زندہ ہیں تو سو بار کریں گے

تازہ ترین