• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج مسٹر جسٹس گل حسن اورنگزیب عدالتوں کے احکامات کی مسلسل عدم تعمیل پر آبدیدہ ہوگئے۔ کہنے لگے کہ ’’عدالتوں کے آرڈرز ہوا میں اڑائے جارہے ہیں۔ ججز ٹاک شو میں بیٹھ کر اپنے آپ کو ڈیفنڈ نہیں کرسکتے۔یہ جو واقعات ہیں۔ یہ تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔ یہ معاملات سنگین ہیں۔ اٹارنی جنرل اعلیٰ اتھارٹی سے بات کرکے آئیں‘‘ جب یہ سطور آپ پڑھ رہے ہوں گے تو ممکن ہے اٹارنی جنرل اس سلسلے میں کچھ کرکے آئیں۔اس بحرانی موسم میں اچھی خبریں بھی آئی ہیں کہ پاکستان نے بالآخر اپنے با اعتماد پڑوسی ایران سے سستی بجلی لینے کا معاہدہ کرلیاہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں ۔ بہوئوں دامادوں سے ملنے۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ بہت کڑی آزمائشیں ہیں۔ ترجیحات بدل رہی ہیں۔ فوکس صرف ایک ہی شخص اور ایک ہی پارٹی پر ہے۔ ہر پاکستانی پریشان ہے۔ ججز تشویش میں ہیں۔ جنرلوں کو ریاست کے حالات پر پریشانی ہے۔ واہگہ سے گوادر تک عام پاکستانی دبائو کا شکار ہے۔ بزرگوں کی پلکیں بھیگ رہی ہیں۔ بوڑھی مائوں کی جھریوں میں آنسواٹکے ہوئے ہیں۔ بہنیں اپنے بھائیوں کی زندگی کےلئے دعائیں مانگ رہی ہیں۔ قانون دان قوانین کی دھجیاں اڑتے دیکھ کر طیش میں ہیں۔ مورخ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ محققین کے لئے اصطلاحات کم پڑ رہی ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے ذخیرۂ الفاظ سکڑ رہا ہے۔ جغرافیے کی سرحدیں سنبھالے نہیں سنبھل ر ہیں۔ کچھ تجزیہ کار جغرافیے کے ممکنہ انتقام سے خوف زدہ ہیں۔ جغرافیہ ویسے زیادہ عرصہ خاموش رہتا ہے ۔ زمین کی پرتیں ہلتے، جڑتے دیکھتا رہتا ہے۔ لیکن جب اس کی قدر نہیں کی جاتی۔ جغرافیائی حیثیت کا احترام نہیں کیا جاتا۔ تو وہ بڑا سخت انتقام لیتا ہے۔ ’جغرافیے کا انتقام‘ ایک امریکی صحافی مورخ کی اہم تصنیف ہے۔ اسے ضرور پڑھیں۔ ان دنوں میں آپ کی ابن خلدون۔ ٹائن بی۔ جارج آرویل۔ آلڈئوس ہکسلے۔محمد حسین ہیکل۔ جی ایم سید اور مبارک علی بہترین رہنمائی کرسکتے ہیں۔ 7بجے شام سے 12بجے رات تک بیسیوں چینلوں پر پچاسیوں ٹاک شوز میں بحران سے نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا۔

9مئی بہت ہی المناک دن تھا۔ اس روز جو کچھ ہوا۔ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن یہ اچانک رُونما نہیں ہوا۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پنجاب کے دل لاہور میں ہونے والے بلوے۔ جلائو گھیرائو۔گرفتاریاں۔چھاپے۔ اپنے گھربار چھوڑ کر مسلمانوں کےلئے الگ آزاد وطن میں آنے والوں کو اپنی صعوبتیں یاد دلارہے ہیں۔ سندھ نے جمہوریت کی بحالی کے لئے جتنی قربانیاں دی ہیں۔ وزرائے اعظم نے اپنی جانیں وطن اور اپنے حقوق پر نثار کی ہیں۔ بے شُمار نوجوانوں نے جوانیاں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بسر کی ہیں۔ ان کے زخم تازہ ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں نوجوانوںبزرگوں کو اپنے پُرکھوں، آزادی کے متوالوں کی طویل جدو جہد یاد آرہی ہے۔ کے پی کے میں بھی قربانیوں کی مسافتیں بہت لمبی ہیں۔ کشمیری اپنے انقلابی لیڈروں کی مزاحمتیں یاد کررہے ہیں۔ آئین کی حکمرانی ہوتی۔ عدالتوں کے احکامات ہوا میں نہ اڑائے جاتے۔ سپریم کورٹ کا احترام کرنے کی بجائے اسے ایک مخالف ادارہ جان کر اس کے خلاف اتنی تیزی سے قانون سازی کی گئی ۔ عدالت تو بے اثر ہونی ہی تھی۔ پارلیمنٹ نے بھی ان روز روز کے اجلاسوں اور اپنے ہی آئینی اداروں کے خلاف قوانین بناکر اپنے آپ کو کمزور کرلیا ہے۔

ان بحرانوں کا خاتمہ آئین کی رو سے۔ پارلیمانی نظام کی روایات کے مطابق انتخابات کے انعقاد سے ہوسکتا تھا۔ لیکن تاریخ نے آسمان کی آنکھ نے دیکھا کہ انتخابی عمل نے سب کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ ایک روز ہم سب میڈیا والے۔ قانون دان۔ تاجر۔ صنعت کار۔ علما۔ انتخابی عمل کے قتل میں اعانت کے جرم میں تاریخ بلکہ اپنی اولادوں کی عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔

اپریل 2022 سے حالات کا دھارا جس انداز سے بہہ رہا تھا۔ وہ 9مئی جیسے کسی یوم سیاہ کی طرف ہی بہاکر لے جارہا تھا۔ اس بھیانک اور المناک منگل کو پنجاب ۔ کے پی کے۔ سندھ۔ بلوچستان میں جو شعلے بھڑکے۔ ان کی چنگاریاں بہت پہلے سے سلگ رہی تھیں۔ درد مند پاکستانی انہیں بجھانے کے لیے اقدامات کی گزارش کررہے تھے۔ ایسے اشتعال انگیز بلووں کا ایک فوری اقدام تو اس جلائو گھیرائو میں براہ راست ملوث افراد کے خلاف ملکی آئین و قوانین کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔ لیکن ملک کی دائمی سلامتی اور استحکام کے لئے ایک ناگزیر عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہمہ جہت فکری تجزیاتی تحقیق یہ ہو کہ ہمارا جفاکش پاکستانی۔ دہشت گردی کا شکار نوجوان۔ غربت اور بے روزگاری کے تھپیڑے سہتا جواں سال پاکستانی۔ اپنے خوابوں کی تعبیر میں ناکام رہتا پڑھا لکھا پنجاب اس انتہا کی طرف کیوں گیا ہے۔ اس کے لئے یقیناً آپ عمران خان کی ایک سال کی تقریروں پر بھی غور کریں۔ لیکن 9مئی کو جس شدت تک ذہن گئے ہیں۔ وہ ایک سال یا 3سال کی اکساہٹ نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے آپ کو 1985 کے بعد سے اب تک کےسول اور فوجی حکمرانوں کا بھرپور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا ہوگا۔ 20 سے 40 سال تک کے یہ پاکستانی انہی ادوار میں پیدا ہوئے۔ پلے بڑھے۔ ان کے ماں باپ بھی پاکستانی ہیں۔ نہ جانے انہوں نے کتنی قربانیاں دی ہوں گی۔ ریاست کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ان کی اصلاح کرے نہ کہ انہیں مستقل تخریب کار بنادیا جائے۔ پاک فوج نے ایک بہت اچھا پروگرام کئی برس سے شروع کیا ہوا ہے۔ Deradicalisation اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں جھانکا جائے۔ یہ ان مقامات کی طرف جانے پر کیوں آمادہ ہوئے۔ پھر ان محفوظ مقامات میں انہیں یہ اشتعال انگیز کارروائیاں کرنے کی تحریک کیوں پیدا ہوئی۔ ماضی میں بھی ہم نے سرجریاں کی ہیں۔ لیکن وہ اس لئے کامیاب نہیں رہیں کہ بیماری کی تشخیص بھرپور نہیں کی گئی تھی۔

13رکنی جماعتی اتحاد سے تو ایسی فکری کوشش کی توقع عبث ہے۔ کیونکہ ملک کا دائمی استحکام تو ان کی منزل ہی نہیں ہے ایک ’’غیر ضروری عنصر‘‘ کو انہوں نے نظریۂ ضرورت کے تحت جسد سیاست سے باہر نکالنا ہے۔ ان کی ساری فکری توانائیاں اسی مقصد کے لئے وقف ہیں مگر ہمارے اداروں۔ علماء۔ عدالتوں۔ میڈیا۔ یونیورسٹیوں اور دوسری سیاسی جماعتوں کو صرف اور صرف معروضی انداز میں معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہئے کہ خاص طور پر پنجاب اور وہ بھی لاہور میں ایسا کیوں ہوا۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو روکنے والے کہاں تھے۔ آگ لگانے والے تو حرکت میں تھے۔ آگ بجھانے والے کہاں تھے۔ پولیس۔ ایمبولینس۔ ریسکیو۔ سب کدھر تھے۔

فوری قانونی کارروائی اپنی جگہ کریں۔ لیکن اس کے طویل المیعاد حل کے لئے بھی سوچیں۔ نوجوانوں کو محبت سے اپنا کریں۔ فوجی عدالتوں سے نہیں۔

تازہ ترین