قیام پاکستان کے وقت اگر بھارت حیدرآباد دکن،جونا گڑھ اور کشمیر جیسے مسلم اکثریت کے علاقوں پر بزور بندوق قابض نہ ہوتا توبعض سیاسی مبصرین کے مطابق دونوں ملکوں کے تعلقات بانی پاکستان محمد علی جناح کی خواہش کے مطابق امریکہ اور کینیڈا جیسے دوستانہ ہوتے۔ تاہم قیام پاکستان کے عمل میں آتے ہی بھارت کا معاندانہ رویہ کھل کر سامنے آگیا۔اسی کے نتیجے میں آزادی کے بعد ڈھائی عشروں میں تین پاک بھارت جنگیں ہوئیں اور پاکستانی قوم کیلئے دفاع پر خصوصی توجہ دینا لازمی ہوگیا۔ پاکستان کو خاص طور پر تشویش تب لاحق ہوئی جب بھارت نے 1974میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کیا،یہ وہ واقعہ تھا جس سے خطے میں ہتھیاروں کی زبردست دوڑشروع ہو گئی،پاکستان نے بھی محدود وسائل اور زورآوروں کی مخالفت کے باوجودبہترین ایٹمی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرلی لیکن بھارت کا مہلک ہتھیاروں کا جنون بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اسکی دفاعی پیداوار پچھلے مالی سال 12 فیصد اضافہ کے ساتھ 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت کی دفاعی پیداوار 12 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔یاد رہے کہ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 2018میں جاری کردہ رپورٹ کی مطابق بھارت پچھلی دہائی میں دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک رہا۔ بھارت کی دفاعی برآمدات میں بھی 24 فیصد اضافہ ہوا جن کا حجم 160 ارب روپے رہا۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت اسلحے کے یہ انبار کیوں جمع کر رہا ہے لیکن اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی فوج اور قوم دفاع وطن کیلئے سیسہ پلائی دیوار ہیں۔بھارتی حکمراں ہتھیاروں کے بجائے عوام کی حالت بہتر بنانے پر وسائل صرف کریں تو یہ خود ان کی قوم و ملک کیلئے بہتر ہوگا۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998