• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری محمّد جمشید خان

حیا، کسی بھی نیک فطرت انسان کی باطنی قوت ہے، جو اُسے تہذیب و شرافت،پارسائی و شائستگی کا منصب عطا کرتی ہے۔ یوں سمجھیں،ایمان ایک کھیتی ہےاور حیا اُس میں اُگنے والی فصل کا نام ہے۔ بلاشبہ،جب حیا انسان کی فطرت بن جاتی ہے، تو وہ احساسات و جذبات اور افکارو خیالات کے اظہار کی بندشوں میں مقیّد ہو جاتا ہے۔ عام طور پر حیا کے وصف کو مستورات کے پلڑے میں ڈال کر مَردوں کو اس سے بری الزمّہ قرار دے دیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ سوچ، رویّہ انتہائی غلط ہے۔ 

دَرحقیقت، نفسِ انسانی کے باطن کی یہ پاکیزگی مَردوں اور عورتوں دونوں ہی کے لیے یک ساں ضروری ہے۔ تاہم، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کی فطرت میں حیا کا جوہر مَردوں کے مقابلے میں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہےاور غالباًاسی حقیقت کی روشنی میں عورت اور حیا کو لازم و ملزوم گردانا جاتا ہے۔

حضرتِ آدم ؑسے لے کر ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ تک تمام انبیاء و رُسل شرم و حیا کا پیکر تھے۔ جس سے یہ بات تو واضح ہے کہ حیا مَردوں میں بھی اسی طرح مطلوب ہے، جس طرح عورتوں میں اس کا ہونا ضروری ہے۔یہ وہ اخلاقی خوبی ہے، جس کی تعلیم حضرت آدم ؑ سے لے کر سید المرُسلین، امام المتّقین ،جنابِ رسولِ مقبولﷺ تک ہر نبی نے دی۔اسی لیے ایک مسلمان کا دل ایمان و حیا کا مسکن سمجھا جاتاہے، جس میں اگر بگاڑ آجائے، تو اعمال خطرے میں پڑجاتے ہیں۔ جب کہ حیا کے تحفّظ کے لیے ہمیں اپنے وجود کے ہر ہر عضو کی سرتاپاحفاظت کرنی ہے۔سر کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ یہ طاغوتی اور باطل قوتوں کے آگے جُھکے اور نہ ہی خود فرعون اور نمرود کی طرح غرور سے اکڑتا پھرے۔اسی طرح دماغ پر حیا کا پہرہ نہ ہو تو دماغ میں باطل سوچیںڈیرہ ڈال لیتی ہیں۔

نگاہ پر حیا کی چوکیداری نہیں ہوگی،تو اس سے بے شمار اخلاقی و سماجی فتنے ،فساد ات جنم لیں گے۔کانوں کو بے ہودہ اور شرم ناک آوازوں سے نہ بچایاگیا تو اُن کے راستے فحش ، گھٹیا پیغامات دل تک جائیں گے۔ ناک اگر بد بُو کی عادی ہو جائے تو نفاست اور ذوقِ سلیم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ زبان اگر حیا کا سا تھ چھوڑ دے، تو اُس سے حق اور سچ کا کلمہ نہیں نکلتا۔ وہ جھوٹ، غیبت،چغل خوری جیسی قبیح عادات میں مبتلا ہوجاتی ہے۔حیا احتیاط کے پاسبان کو ہر وقت چوکس اور چوکنا رکھتی ہے تا کہ پیٹ میں لقمہِ حرام نہ جائے۔ ہاتھ صرف نیکی کے کاموں میں استعمال ہوں اور قدم راہِ حق ہی میں اُٹھیں۔

آج جو ہمارے معاشرے میں یہ افراتفری سی ہے، اس کی ایک وجہ بےحیائی اور خوفِ خدا نہ ہونا بھی ہے کہ اگر ہر کوئی اپنا کام ایمان داری سے کرے، بےحیائی کے کاموں میں نہ پڑے تو کئی معاشرتی برائیاں تو خود بخود ہی دَم توڑدیں۔سو، اس ضمن میں ہمیں چاہیے کہ سب مل کر اپنے پیارے وطن پاکستان کو، جسے ہمارے بزرگوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا، صحیح معنوں میں ایک ایسے اسلامی معاشرے میں بدلنےکی سعی کریںکہ جہاںبےحیائی و فحاشی کا نام و نشاں بھی نہ ہو۔ مُلک کا چپّا چپّا شرم و حیاکی خُوش بُو سے ایسے مہک اُٹھے کہ پھر رہتی دنیا تک بےشرمی و بے حیائی سر نہ اُٹھا سکے۔ (مضمون نگار، قائداعظم ڈگری کالج، دھمیال روڈ ،راول پنڈی کے پرنسپل ہیں)