بڑے آدمی کی محرومیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں معاشی، سماجی، سیاسی چوٹیوں پر براجمان کامیاب لوگوں کا ایک مختصر سا گروہ ہوتا ہے جن کے بارے میں دُور سے دیکھنے والوں کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کامرانی کے استعارے ہر طرح کی محرومی سے مبرا ہیں۔مگر ایسا نہیں ہوتا۔ جون بھائی کا ارشاد ہے ’’درونیانِ تسلّی سے تو ملا ہے کبھی...عذابِ حسرتِ بیرونیاں تو کچھ بھی نہیں‘‘۔یعنی کھلاڑیوں کی حسرتوں کے مقابلے میں تماشائیوں کی حسرت تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ہندوستانی گلوکارہ لتا منگیشکر سے ان کے آخری انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ آپ اگلے جنم میں کیا بننا چاہیں گی، لتا جی کہتی ہیں ’کچھ بھی، مگر لتا منگیشکر نہیں۔‘ یہ وہ عورت کہہ رہی ہے جسے اس کے ملک میں ’دیوی‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا، بلبلِ ہند، جسے برصغیر کی میوزک انڈسٹری کی سب سے ’کامیاب‘ گلوکارہ سمجھا جاتا ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کہا کرتی تھیں کہ ’کاش میں زندگی میں ایک راگ اپنے استاد کی طرح گا سکتی۔‘ نور جہاں وہ خاتون ہیں جنہوں نے عمر بھر شہرت و دولت کے سوا کچھ نہیں دیکھا تھا۔بلاشبہ، بڑے آدمی کی محرومیاں بھی بڑی ہوتی ہیں جنہیں ہما شما سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔
کیا اس قاعدے کا اطلاق کوچہء سیاست میں بھی ہوتا ہے؟ کیا بڑے سیاست دانوں کی محرومیاں اور ناکامیاں بھی بڑی ہوتی ہیں؟اگر عالمِ بالا میں آج قائدِ اعظم کا انٹرویو کیا جائے تو کیا ان کا جواب بھی لتا منگیشکر جیسا ہو گا؟ کیا مادرِ ملت فاطمہ جناح اگلے جنم میں فاطمہ جناح بننا چاہیں گی؟ ذوالفقار علی بھٹو کا کیا جواب ہو گا؟ (شاید بھٹو صاحب کہیں کہ میں اگلے جنم میں سنیل دت بننا چاہوں گا یعنی نرگس کا خاوند) اسی طرح نواز شریف جو تین دفعہ اس ملک کے منتخب وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں کیا وہ اپنے لئے دوبارہ اسی زندگی کا انتخاب کریں گے جس کا معتد بہ حصہ جیل اور جلا وطنی سے عبارت ہے، یا وہ اگلے جنم میں محمد رفیع بن کر اپنے پیاروں کے درمیان گنگناتے ہوئے زندگی گزارنا پسند کریں گے۔اور عمران خان؟ غالباً خان صاحب کی ہمالیائی انا و نرگسیت انہیں اگلے جنم میں بھی عمران خان ہی بننے پر اکسائے گی۔ لیکن اس ضمن میں ہماری خواہش کچھ اور ہے، وہ کیا ہے یہ ابھی کچھ دیر میں عرض کرتا ہوں۔ فی الحال ایک نظر خان صاحب کے موجودہ جنم پر ڈالے لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس مقام پر عمران خان نے اپنی جماعت کو لا کھڑا کیا ہے کیا یہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے؟ ایک بات تو طے ہے کہ پی ٹی آئی کچھ عرصہ بعد بہ طور سیاسی جماعت سنبھل بھی گئی تو شاید کبھی بھی اس طرح ’’پیا من راج‘ ‘نہ کر سکے۔ نو مئی کی آگ میں جہاں اور بہت سی عمارتیں جلیں، پی ٹی آئی کے خوابوں کے محل بھی جل کر راکھ ہو گئے۔ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ سیاسی جماعتیں مشکل وقت کاٹ کر دوبارہ ویسی ہی توانا ہو جاتی ہیں۔ تاریخ کا سبق کچھ اور ہے، پی پی پی پر جب یہ قہر ٹوٹا اُس کے بعد آج تک وہ پنجاب میں قدم نہیں جما سکی، اور میاں نواز شریف اس وقت بھی جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔بہرحال، اطلاع یہی ہے کہ ادارے نے عشق سے توبہ کر لی ہے، عساکر میں یہ احساس شدت سے پایا جاتا ہے کہ پروجیکٹ عمران صریحاً ایک غلطی تھی جس کو سدھارنے کی ہر ممکن سعی کی جائے گی۔ ویسے تو نو مئی کو جو کچھ آنکھ نے دیکھا وہ بھی پی ٹی آئی اور افواج پاکستان کے درمیان مدتوں گہری خلیج قائم رکھنے کے لئے کافی تھا، مگر دراصل معاملہ اس سے کہیں زیادہ خوف ناک تھا، پی ٹی آئی اور اس کے ہینڈلرز نے فوج کی وحدت پر ضرب لگانے کی کوشش کی تھی، نہ صرف ادارے میں تقسیم کا زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا بلکہ ٹوٹی پھوٹی کوشش بھی کی گئی۔ یہ کوئی خفیہ بات نہیں ہے، اگر آپ عمران خان کی چیف مخالف سیاست کا جائزہ لیں تو صاف سمجھ آتا ہے کہ ادارے کی تقسیم عمران خان کی آخری امید تھی۔ ہوا مگر اس کے الٹ۔ نو مئی فوج کو اور بھی یک سُو کر گئی۔
اب اگلا سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ کیا عمران خان اپنے اس جنم میں الیکشن کا منہ دیکھ پائیں گے؟ سچی بات یہ ہے کہ انتخابات کا انعقاد کچھ دھندلکے میں ہے۔ ہمارے گمان میں انتخابات کی کچھ ان کہی شرائط ہیں۔ مثلاً اگلا الیکشن میاں نواز شریف کے بغیر نہیں ہو گا، اگلا الیکشن عمران خان کے خلاف کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائے بنا نہیں ہو گا، اور یہ دونوں کام غالباً موجودہ چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے نہ ہو پائیں گے۔الیکشن کب ہوں گے اس کا جواب آپ کو مل گیا ہو گا۔ایک اور سوال بھی جواب طلب ہے، کیاقاضی فائز عیسیٰ کمیشن اپنا کام کر پائے گا؟اس کا سادہ سا جواب ہے ’جی نہیں‘۔ یہ کمیشن کام کرے گا تو کئی جج پکڑے جائیں گے، ثاقب نثار بھی پکڑے جائیں گے، اور اگر ثاقب نثار پکڑے گئے تو گروہِ عاشقاں پکڑا جائے گا۔ویسے آپ کا کیا خیال ہے ثاقب نثار صاحب کو اگلے جنم میں کیا بننا چاہئے؟ ہماری رائے میں ان کے اعمال دیکھتے ہوئے انہیں سزا کے طور پر دوبارہ ثاقب نثار ہی بننا چاہئے۔
اور جہاں تک تعلق ہے عمران خان کا تو ہم پورے اخلاص سے سمجھتے ہیں کہ انہیں اگلے جنم میں باچا خان کے روپ میں آنا چاہئے تاکہ خان صاحب کو کم از کم یہ تو پتا لگ جائے کہ سچ مچ کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بننے کے لئے کتنی دہائیاں جیل میں گزارنا پڑتی ہیں، اور یا پھر شہباز شریف کے روپ میں لوٹنا چاہئے تاکہ خان صاحب ہمیشہ ہمیشہ کے لئےاسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائے دیں00923004647998)