سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام سے روک دیا۔ کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے کمیشن کی کارروائی پر حکمِ امتناع دے دیا۔
آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ حکومت عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، کمیشن میں ججز کی نامزدگی سے متعلق چیف جسٹس کی مشاورت لازمی عمل ہے۔
سپریم کورٹ کا حکم نامہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔
عدالت نے آڈیو لیکس کمیشن کے تحریری حکم اور کارروائی پر بھی حکم امتناع جاری کر دیا۔
آڈیو لیکس انکوائری کمیشن سے متعلق آج کی سماعت کا حکمنامہ 8 صفحات پر مشتمل ہے۔
سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو مزید کام سے روک دیا، عدالت نے کہا کہ حکومت عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
عدالت عظمیٰ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کا 19 مئی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے تحریری حکم میں کہا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن معاملے پر اگلی سماعت 31 مئی کو ہوگی۔
عدالت کا کہنا ہے کہ کمیشن میں ججز کی نامزدگی سے متعلق چیف جسٹس کی مشاورت لازمی عمل ہے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ وفاقیت کے اصول کے تحت دو ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی نامزدگی کیلئے بھی چیف جسٹس سے مشورہ ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ججز کو نامزد کرنے سے ججوں پر شبہات پیدا ہوئے۔
حکم نامہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، درخواست گزار عمران خان کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا۔
حکم نامہ کے مطابق سپریم کورٹ نے عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین کو تفصیل سے سنا۔
شعیب شاہین کا موقف تھا کہ کمیشن کا نوٹیفکیشن آئین میں اختیارات کی تقسیم کے اصول کے منافی ہے۔
سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
وفاقی حکومت نے چیف جسٹس پاکستان سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا تھا۔
تین رکنی کمیشن میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی شامل تھے۔
کمیشن کی تشکیل میں چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت نہ کرنے پر وزیرِ قانون کا موقف تھا کہ آڈیو لیکس چیف جسٹس پاکستان کی ذات کے گرد گھومتی ہیں، اس لیے کمیشن بنانے کےلیے چیف جسٹس پاکستان کی رائے نہیں لی گئی۔