چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے آڈیو لیک کمیشن پر ردعمل دے دیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں عمران خان نے کہا کہ آڈیو لیک انکوائری کمیشن کے ضوابط میں کئی چیزیں دانستہ چھوڑی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن میں یہ نقطہ نہیں رکھا گیا کہ پی ایم آفس کی غیر آئینی جاسوسی میں کون ملوث ہے؟ یہ بھی نہیں پوچھا گیا کہ حاضر جج صاحبان کی غیر آئینی جاسوسی میں کون ملوث ہے؟
عمران خان نے مزید کہا کہ انکوائری کمیشن کو اس انویسٹی گیشن کا اختیار ہونا چاہیے کہ سرکردہ عوامی عہدیداروں سمیت شہریوں کے ٹیلیفون کون طاقت ور عناصر ریکارڈ کرتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سرکردہ عوامی عہدیداروں سمیت شہریوں کے ٹیلیفون ریکارڈ کرنا آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت حاصل پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فون کال ٹیمپرنگ، فون ٹیپنگ سے غیرقانونی حاصل ڈیٹا لیک کرنے والوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ وہ کون ہیں جو قانون سے بالا اور وزیراعظم کی کمان سے بھی باہر ہیں، وہ کون ہیں جنہیں استثنیٰ حاصل ہے اور وہ غیر قانونی طور پر جاسوسی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آڈیو انکوائری کمیشن کو ایسے عناصر کی شناخت کرنی چاہیے، قانون کی عمل داری والی جمہوریتوں میں ریاست کو زندگی کے بعض پہلوؤں میں گھسنا نہیں چاہیے۔