• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام 1875میں سرسید احمد خان کے گورنر جنرل کونسل کے اجلاس میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کو یقینی بنانے کیلئے جداگانہ انتخاب کی تجویز مسلم لیگ کا قیام 1906ء اور 1909ء میں انڈین ایکٹ میں جداگانہ انتخاب کا مطالبہ منوانے تک ہندوستانی سیاست کی کھلی کتاب میں باآسانی پڑھاگیا کہ برصغیر کے نئے حکومتی سیاسی نظام میں کسی طور مسلمان ہندوئوں کی اکثریت کے باوجود اپنے سیاسی حقوق کو غصب یا کم نہیں ہونے دیں گے اس مطالبے کو فرنگی راج سے منوا کر دو قومی نظریے کی بنیاد پر نا صرف یہ کہ مسلمانوں کی علیحدہ نشستوں کا مطالبہ تسلیم کر لیاگیا بلکہ اس کے بینی فشری سکھ، عیسائی اور اینگلوانڈینز بھی بنے اور آزادی کے بعد بھارت میں اچھوت (دلت) بھی۔ اس عظیم کامیابی کے بعد ہندومسلم اتحاد کے بلبلے معاہدہ لکھنوی 1916سے لے کر نہرو رپورٹ 1928اور جناح کے 14جوابی نکات 1929نے روز روشن کی طرح عیاں کر دیا کہ ہندو اکثریت مسلمانوں کو زیر نہیں کر سکتی اور اس کی ہر چال اور مزاحمت مسلم لیگ کیلئے سیاسی ارتقا کا نیا مرحلہ بنتی جا رہی ہے حتیٰ کہ اقبال نے 1930کے خطبہ الہ آباد میں علیحدہ وطن کا خواب دیکھا کہ مسلمانان ہند کو ایک انہونا ایجنڈا دے دیا جو کانگریس کیلئے بڑا خطرہ لیکن مسلمانوں کا انہونا ایجنڈا سمجھا گیا۔

خود فرنگی راج اس بارےمیں خبردار اور چوکس ہو گیا۔اگلے مرحلے میں قدرت کی غیر معمولی مدد کا سلسلہ شروع ہو گیا ،جنگ عظیم دوئم میں کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک مخصوص درجے پر مطمئن رکھنا فرنگی کی بڑی سیاسی ضرورت بن گیا اس کا سیاسی فائدہ مسلم لیگ نے تو بہت اور مسلمانوں کی دوسری تنظیموں نے بھی ایک حد میں اٹھایا۔ قرارداد لاہور جس پر ہندو خبردار ہو کر چیخ پڑے کہ یہ قرارداد لاہور نہیں بلکہ ’’قرار داد پاکستان‘‘ہے ہندو پریس کا یہ واویلا کانگریس کیلئےبیک فائر ہو گیا بلند ترین درجے کے علمی، سیاسی اور آئینی مزاج قافلہ تحریک کو قائداعظم کی باکمال قیادت میں اعلانِ آزادی و قیام پاکستان 1947کی منزل پر پہنچا دیا ،پاکستان جو اپنی تحریک کے درمیانی مرحلے میں ہی ناگزیر ہوتا نظر آ رہا تھا بن گیا، بڑی ان ہونی ہو گئی ۔

قارئین کرام ! ایسے ہی نہیں علم، دانش،سچی صحافت، دل سے تراشی شاعری ،اقبال کی دور بینی، موثر ترین ابلاغی معاونت اور حضرت قائد اعظم کی بے مثال سیاسی قیادت پر ہی بات ختم نہیں ہوئی، اس کے بعد ہجرت اور اس میں پیش کی گئی جانوں، مال و اسباب عزت و عفت کی قربانیوں اور خون کے بہتے دریائوں سے گزرتے قیام پاکستان کا سفر طے ہوا ،کتنی پاکیزگی ، کتنی قربانیوں، بے مثال کتنے بڑے وصال و انتقال سےہمارے بزرگوں نے یہ پاک سرزمین بطور مملکت خداداد حاصل کی ۔

اس کا نام پاکستان ہی ہونا چاہئے تھا شہدائے تحریک و قیام اور دفاع پاکستان کے ثمرات و برکات اتنے ہوئے کہ ہماری 7عشروں (5سال قائد کے انتقال،ابتدائی آلام کا الائونس مل سکتا ہے ) کی اجتماعی بداعمالیوں، گمراہی اور ’’خود کردہ را اعلاجے نیست ‘‘کے مترادف ڈیزاسٹرز کے باوجود پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا ،نہ بھولا جائے اس میں مایہ ناز پاکستانی سائنس دان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قومی اتحاد بڑا اور برابر کا سول ملٹری کوآپریشن بڑا محرک ثابت ہوا۔لیکن:

قارئین کرام! وائے بدنصیبی آج پاکستان پاک سرزمین نہیں ہے یہ کڑوا سچ ہے، اتنا ہی کڑوا جتنا آج کا بگڑا پاکستان۔ پاک سرزمین ،اقبال کے خواب اور قومی ترانے والی بنتی قوم کے عزم وعمل اور بیش بہا قربانیوں کا حاصل شدہ پاکستان کہاں گیا؟ پاور کوریڈورز میں پلی سازشوں، افسر شاہی ، جاگیر دارانہ ،گٹھ جوڑ ،ڈیزاسٹر ،عدالتی فیصلے ، لیاقت علی خان کی شہادت کا پس منظر لئے یقیناً اس کا بگاڑ، آئین سازی میں تاخیر پھر متفقہ آئین 1956کے تحت پہلےعلانیہ انتخابی شیڈول کوسبوتاژ کرکے نفاذِ مارشل لا کی راہ نکالنے اس مہم جوئی کی تکمیل 10سالہ مائنس عوام ترقیاتی عمل کے بعد پھر عیاش مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور اقتدار کی ہوس سے ٹوٹ کر بچا پاکستان تو ہم 50سال قبل ہضم کر چکے تھے اور جو سبق پڑھتے نیا بنایا اس سے بھی وفا نہ کی آئین سے نکاح کرتے ہی سول فسطائیت سے منہ کالا کرنے لگے جتنی ترقی ورقی ہوئی تھی ریورس ہونے لگی ایوبی مارشل لاکا استحکام قومی المیوں سے ہوتا ملک شکنی پر ختم ہوا۔

قارئین کرام ! بجا کہ آج کے آئین نو میں پاکستان کی موجود حالت زار سے انحراف کرکے سارا اکتفا ہی تاریخ پر کیا گیا درست کہ ادارتی صفحے کا بنیادی تو رائے سازی اور رائے عامہ کی تشکیل میں تجزیوں سے رہنمائی فراہم کرنا ہی ہے، اب بے آئینی سے جو ملک کا حال ہے اس میں یہ مقصد حاصل کرنا محال ہے ویسے بھی ہر شہری تجزیہ نگار ہے تباہ کن مہنگائی اور جیسے تیسے آئینی و سیاسی عمل کو سبوتاژ کرکے جو کھلواڑ کیا گیا اور ہو رہا ہے اس میں کونسی رائے اور کیسے تجزیے ۔صبح بے نور سے انکاری اور انتخابی مہمات میں نظام کو گلاسڑا قرار دینے والے وزیراعظم اگر اسی بوسیدہ نظام کو بحال کر دیں تو ان کا قوم پر احسان عظیم ہوگا لیکن ان کے تو چمک دمک والے بڑی سے بڑی خلاف آئین رائےپورے اعتماد اور تحکمانہ انداز میں دینے پر قادر، وزیراعظم کے ماہر آئین ومعاون خصوصی نے رائے دی ہے کہ ’’الیکشن نہیں ہوتے تو نگران حکومتیں 100سال تک بھی قائم رہ سکتی ہیں ‘‘ جسے یقین نہیں کہ پاک سرزمین پاک نہیں رہی اور بےآئین بھی ہو گئی وہ یوٹیوب کیلئے اور عدالت عظمیٰ پر مولانا صاحب کے ڈنڈابردار باوردی لشکر کی لشکر کشی کی فوٹیج دیکھے اور ڈرے سہمے ججز پر تبرا سنے،چلیں چھوڑیں کیا رائے اور کیا تجزیے، جلا سکو تو شمع آئین جلائو گھپ اندھیرا ہے۔

تازہ ترین