• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ایک شہید کے والد کا فون آیا آواز بہت اداس تھی میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے آج بہت دکھی ہوں۔ کیپٹن اسفند بخاری شہید کے والد فیاض بخاری مجھے اکثر کال کرتے ہیں، ہمیشہ ہی موضوع گفتگو ان کے شہید بیٹے کی بہادری کے قصے اور بچپن کی یادیں ہوتی ہیں جن پر وہ بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ کیپٹن اسفند بخاری نے بڈھ بیر میں جام شہادت نوش کیا تھا، حیرت کی بات یہ ہے کہ جس وقت دہشت گردوں نے آرمی کمپاونڈ پر حملہ کیا تو اس وقت کیپٹن اسفند ڈیوٹی پر نہیں تھے ، اگر وہ چاہتے تو اپنی جان بچاتے اور چپ کر کے اندر بیٹھے رہتے مگر اس نوجوان کی غیرت کو یہ گوارا نہ ہوا ، اس نے اپنی گن سنبھالی اور 14 دہشت گردوں کو اکیلے ہی چالیس سے پینتالیس منٹ تک آگے نہ بڑھنے دیا۔ اگرخدانخواستہ کیپٹن اسفند بخاری وہاں نہ ہوتے تو سینکڑوں لوگ اپنی جان سے جا سکتے تھے۔ اسفند نے جو آپریشن اکیلے شروع کیا وہ آرمی کے جوانوں اور آفیسرز نے آکر مکمل کیا،تمام 14 دہشت گرد مارے گئے اور بہادر نوجوان اسفند یار بخاری پاکستانیوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس بہادر بیٹے کے باپ کی بھرائی ہوئی آواز نے مجھے اضطراب میں مبتلا کر دیا ۔موجودہ ملکی حالات سے میں ان کی بے چینی کا اندازہ تو لگا سکتا تھا لیکن اس کو نہ عقل تسلیم کر رہی تھی نہ دل مان رہا تھا۔ میں نے بخاری صاحب سے اضطرابی کیفیت کی وجہ پوچھ ہی لی تو انہوں نے جو بتایا وہ سننے کے بعد پاّوں تلے زمین ہی نکل گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ9اور 10مئی کو کچھ شر پسند عناصر نے اپنے محسن کی یادگار کی بےحرمتی کی، سرخ رنگ سے کیپٹن اسفند یار بخاری شہید کے بورڈ پر کراس کے نشان لگا دیئے۔ شہید کی تصویر زمین پر پھینک کر روندتےرہے، اس سے بھی جی نہ بھرا تو یادگار کو آگ لگا دی۔میں کور کمانڈر ہاوس لاہور، جی ایچ کیو راولپنڈی، میانوالی میں ائیر فورس کا طیارہ اور دیگر شہروں میں آرمی تنصیبات پر مشتعل ہجوم کے حملوں کی خبروں سے پہلے ہی دل گرفتہ تھا اوپر سے کیپٹن اسفند شہید کی یادگار کی بے حرمتی کی خبر اس کے باپ کے منہ سے سن کرکڑھنے لگا۔گزشتہ 12 یا 13 سال سے پاکستان کی سیاست میں جو کھچڑی پک رہی تھی اللہ کرے اس کا عروج بس یہیں تک ہو تو شاید برداشت ہو جائے وگرنہ اس سے بڑھ کر کچھ ہوا تو خدانخواستہ’ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘والی بات ہی نہ ہو جائے۔ سیاست کے اندر سیاست، الزام در الزام ، جھوٹ کے انبار ، گند سے بھری سچی اور جھوٹی ویڈیوز، میرا لیڈر سچا تیرا لیڈر جھوٹا اور تو اور جسکو ایک بار سچامان لیا تو اسکے آگے نا ملک کی پروا نہ قوم کی ۔ پاکستانی عوام ایسے تو نہ تھے انکو ایسا بنایا گیا ہے۔ میں گز شتہ 20 سال سے ٹی وی چینلز میں پروگرام پروڈیوس کر رہا ہوں اور 12 سال سے

پڑھا بھی رہا ہوں ۔ اگر پاکستان کے عوام پروپیگنڈا کے طریقے اور میڈیا کی تھیوریز پڑھ لیں تو بہتر انداز سے سمجھ سکیں گے کہ کیسے انکو کنٹرول کیا جا رہا ہے اور ٹول کے طور پر سوشل میڈیا اور فرد سے فرد تک افواہوں اورجھوٹ کا سہارہ لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو سوچنا کیا ہے اور یہ بھی طاقت ور طبقوں اور ملک دشمنوں نے اپنے ہاتھ میںلے لیا ہے۔ جھوٹ اتنا زیادہ اور اونچا بولو کہ وہ سچ لگنے لگے سے بات آگے نکل چکی ہے۔ کلٹیویشن تھیوری اپنا کام کر چکی ہے۔ فصل پک کر کٹ چکی ہے اور جراثیم اگلی نسل میں منتقل ہو چکا ہے۔ ہم پرپہلے ہی ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی ہے۔

ایک لمحے کو ذرا سوچیں کہ اگر 9مئی کو پاکستان کےعوام اور فوج آمنے سامنے آ جاتے اور وہاں گولی چل جاتی تو ہمارے دشمن یو این او کو مجبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے کہ پاکستان میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ یواین فورسز پاکستان میں اتار دی جاتیں تو کیا ہوتا۔؟ ہمارےایٹمی پروگرام کا کیا ہوتا ؟ گزشتہ حکومت جسکو اقامہ پر ختم کیا گیا ،اسی حکومت میں دہشت گردوں کو شکست دی گئی ۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا، پورے ملک کو موٹروے کے ذریعے ملایا گیا۔ سی پیک جیسا منصوبہ جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لئےبھی گیم چینجر ہے ،کامیابی سے چل رہا تھا لیکن افسوس عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومت کو ایک آرڈر کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔

غیبی طاقتوں نے جن جن لوگوں کا ساتھ دیا وہ سب کے سب پاکستان کے خلاف کھڑے ہو گئے طالبان سے لیکر تحریک طالبان تک۔ ایک اسلامی تنظیم جب فیض آباد پر حملہ آور ہوئی تو انہیں بجائے گرفتار کرنے کے پیسے دے کر واپس بھیجا گیا اور پھر وہی تنظیم پاکستان اور فوج مخالف تحریک کا باعث اور اب ایک سیاسی جماعت بن گئی ہےآخر ہماری کوئی قومی پالیسی بھی ہے یا ایک دو لوگ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کرفیصلہ کرتے ہیں کہ اس ملک میں کس کو سیاہ و سفید کا مالک بنانا ہے؟

ایک میڈیا پروفیشنل اور استاد ہونے کے ناطے میں پاکستانیوں سے کہنا چاہوں گا کہ اپنی عقل کا استعمال کریں۔ پروپیگنڈا اور جھوٹ پر مبنی دکھایا جانے والا سچ بہت دلفریب ہے لیکن جب تک آپ مکمل ریسرچ نہ کر لیں کسی کی بات پر یقین نہ کریں۔ پاکستان کے تمام سیاست دان بھی اچھے ہیں اور عسکری ادارے بھی اور ان سب سے بڑھ کر ہمارا پیارا وطن پاکستان ہے۔ کسی کی محبت اور نفرت میں کسی سے دشمنی نہ کریں۔ یہ کونسا سیاسی شعور ہے کہ بیٹا باپ سے بدتمیزی کرے ، بیوی شوہر سے جھگڑے اور ہمسائے ایک دوسرے سے نالاں ہوں؟ جب ایک خاص لیڈر کو بتایا جائے کہ معاشرہ تقسیم در تقسیم ہو رہا ہے تو وہ بجائے فکر کرنے کہ ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہے کہ یہی تو سیاسی شعور ہے، آپ خود ہی سمجھ لیں کہ اسکا سیاسی ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے۔ کسی پارٹی یا فرد واحد کی وابستگی سے بالا تر ہو کر اپنے قریبی تعلقات اور پاکستان کو ترجیح دیں۔ سیاسی وابستگی کو صرف ووٹ دینے کی حد تک رکھیں اور اس کا استعمال صرف اور صرف الیکشن والے دن کریں۔ جو بھی الیکشن جیت کر اقتدار سنبھالے اس کو پاکستان کا سربراہ سمجھ کر 5سال سپورٹ کریں۔ ان شااللہ مملکت خدادا پاکستان قیامت تک قائم و دائم رہے گی اور اس کو برباد کرنے کا خواب دیکھنے والے خود برباد ہو جائیں گے۔ پاکستان زندہ باد

تازہ ترین