• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گزشتہ کچھ دنوں سے لندن میں ہوں اور یہاں پاکستان کی مختلف اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں ، جن میں پاکستان کی موجودہ صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ۔ میں نے محسوس کیا کہ لندن میں رہنے والے پاکستانیوں میں اپنے ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال کے بارے میں زبردست تشویش پائی جاتی ہے ۔ لندن اس وقت پاکستان کے حوالے سے مختلف افواہوں کی زد میں ہے ، جو زیادہ اچھی نہیں ہیں ۔ چونکہ یہاں رہنے والے لوگ حالات کو وسیع تر عالمی تناظر میں دیکھتے ہیں ، اسلئے وہ اپنے تجزیوں اور تبصروں میں ان بین الاقوامی عوامل کو بھی مدنظر رکھتے ہیں ، جنہیں ہم عمومی طور پر پاکستان میں نظر انداز کرتے ہیں۔

یہ ملاقاتیں مختلف ظہرانوں، عصرانوں اور عشائیوں پر ہوئیں، جن کا اہتمام ہمارے کچھ دوستوں نے کیا تھا ۔ ملاقاتوں کایہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ جن اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں ، ان کا پاکستان کی سیاست اور معیشت میں اہم کردار ہے ۔ ان شخصیات میں پاکستان کے نامور بینکار ، بزنس مین اور سرمایہ دار جہانگیر صدیقی اور پاکستان کے سابق صدر ، چیئرمین سینیٹ ، وفاقی وزیر ، سندھ کے گورنر اور وزیر اعلیٰ ، نیشنل بینک آف پاکستان اور مسلم کمرشل بینک کے سابق صدر اور کئی اہم مناصب پر فائز رہنے والے محمد میاں سومرو بھی شامل تھے ۔ ان کے علاوہ نواب حسن علی خان سے بھی ملاقات ہوئی ، جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کی سیاست اور معیشت پر ان کی بہت گہری نظر ہے ۔ سابق بیورو کریٹ ثاقب سومرو نے بھی کچھ خاص دوستوں کو اپنے ہاں جمع کیا ۔ یہ محفلیں چونکہ نجی نوعیت کی تھیں اور ان میں ہونے والی گفتگو کو کسی طرح بھی ریکارڈ پر لانا اخلاقی طور پر درست نہیں ہو گا ۔ یہ وہ تمام شخصیات ہیں ، جن کا اپنا وژن ہے اور ان کے تجزیوں میں بہت گہرائی ہے ۔ میں ان سے کوئی بات منسوب نہیں کر رہا۔ میں نے اپنے طور پر محسوس کیا کہ ان سب کو پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران پر بہت زیادہ تشویش ہے ۔ بدلتے عالمی حالات میں پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں بھی وہ تشویش میں مبتلا ہیں ۔ میں نے ان کی باتوں سے یہ بھی محسوس کیا کہ پاکستانی روپے کی قدر میں ہماری سوچ سے بھی زیادہ کمی ( Devaluation) ہو سکتی ہے ، جس سے پاکستان کا معاشی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے اور اس بحران کے پاکستان کی سیاست اور داخلی استحکام پر غیر متوقع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں ۔ جس طرح بعض عالمی طاقتوں کی نظریں بلوچستان پر ہیں ۔ اسکے بارے میں بھی ہمارے ہاں پاکستان میں بہت کم لوگوں کو علم ہے ۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں بلوچستان کے معاملات کو سنبھالنے کیلئےجن خطوط پر کام ہو رہا ہے ، ان میں معاملات کی سنگینی کا ادراک بہت کم ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ ملک کے طاقت کے مراکز کی طرف سے ملکی سیاسی معاملات میں زیادہ الجھاو ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندر ٹوٹ پھوٹ کے بعد آئندہ کے ممکنہ سیاسی منظر نامے میں بھی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کو جو مسائل درپیش ہیں ، ان سے نمٹنے کیلئے اس حکومت سے کوئی زیادہ امیدیںنہیں لگائی جا رہیں ۔ پی ٹی آئی میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہےوہ کچھ حد تک پی ٹی آئی کی قیادت کے غلط سیاسی فیصلوں کا منطقی نتیجہ ہے ۔ اگر پی ٹی آئی پہلے والی جماعت بھی رہتی اور آئندہ انتخابات میں بہتر پوزیشن حاصل بھی کرلیتی ، تب بھی وہ معاشی بحران سے نہیں نمٹ سکتی تھی ۔ آئندہ انتخابات میں اب جو بھی جیت کے آئے گا ، اس کی حکومت سے بھی اسی طرح کی مشکلات پر قابو پانے کی امید نہیں کی جا رہی ۔ پاکستان کے انتہائی اہم ، تجربہ کار اور پاکستانی سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہونیوالی شخصیات اور ذہین ترین لوگوں سے ملاقاتوں کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں کو اپنے اپنے دائروں اور مخصوص مفادات سے نکل کر وسیع تر تناظر میں سوچنے کی ضرورت ہے پاکستان بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے اور ان حالات سے نمٹنے کیلئے اس کی صلاحیت معاشی بحران نے بہت کمزور کر دی ہے اور دوسرا فیکٹر 75سال پرانی سیاسی کشمکش اور اس کشمکش کے ہر فریق کی روایتی سوچ ہے ۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ معاملات سب کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں یا کافی حد تک نکل چکے ہیں ۔ ہم بعض عالمی طاقتوں کی ڈیپ اسٹیٹ حکمت عملیوں میں جکڑے جا چکے ہیں اور یہ جکڑ بندی بہت پیچیدہ ہے۔

لندن میں رہنے والے عام پاکستانی بہت فکر مند ہیں لیکن وہ اپنے اور اپنے بچوں کا بہتر مستقبل پاکستان سے باہر دیکھتے ہیں ۔ اسکے باوجود وہ وطن سے دور رہ کر جو کچھ پاکستان کے بارے میں دیکھ رہے ہیں ، اس طرح پاکستان کے اندر لوگوں میں دیکھنے کی صلاحیت مفقود کر دی گئی ہے ۔ تقسیم در تقسیم کی وجہ سے پاکستان کے لوگوں کو گروہی سوچ کے دائروں میں محدود کر دیا گیا ہے لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں اور سیاسی قیادت کو یقیناً ان حالات کا ادراک ہو گا ۔ اب وقت ضائع کرنےکی گنجائش نہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ حالات کا تجزیہ کرنے کیلئےگرینڈ نیشنل ڈائیلاگ (عظیم تر قومی مکالمہ ) کیا جائے ۔ خاص طور پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ، سیاسی قیادت ، پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنیوالی شخصیات کو صورتحال کا ازسر نو تجزیہ کرنا چاہئے اور اس تجزیے کی بنیاد پر پاکستان کی نئی سیاسی، اقتصادی، داخلی خارجہ پالیسیاں ترتیب دی جائیں ۔ اس وقت روپے کی قدر میں جس بڑی کمی کا جو خطرہ موجود ہے اور موجودہ سیاسی عدم استحکام میں جسکے بہت منفی سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیںاس سے نمٹنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ عظیم تر قومی مکالمہ کا فوری اہتمام کیا جائے لیکن اس کیلئے سیاسی عمل یا انتخابی عمل کو ہرگز نہ روکا جائے ۔ میں لندن چھٹیاں منانے ، ذہنی سکون اور سیروتفریح کیلئے آیاہوں لیکن یہاں سے ہونے والا پاکستان کا نظارہ دل سے مایوسی کو نکلنے نہیں دے رہا۔

تازہ ترین