پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں جب بھی کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا گیا،کچھ عرصہ بعد وہ جماعت اسی تیزی کے ساتھ دوبارہ ابھر کر سامنے آئی۔کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو دس سالہ طویل ضیا آمریت ختم نہ کرسکی۔اسی طرح ایم کیو ایم کے خلاف تاریخی کراچی آپریشن سب کے سامنے تھا،مگر نو سالہ مشرف دور میں ایم کیو ایم پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی اور کراچی میں اس کاپھر سے طوطی بولتا تھا۔مشرف دور میں مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگادیا گیا۔لاہور جیسے شہر میں مسلم لیگ ن کا جھنڈا اٹھانے پر پابندی تھی۔مگرپھر قدرت نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نواز شریف کو آرمی چیف طیارہ سازش کیس میںعمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ،2013میں اسی نوازشریف نے نئے آرمی چیف کا تقرر کیا۔رومن کہاوت ہے کہ سیاستدان کی سیاست کبھی نہیں مرتی جب تک سیاستداںخود اپنی سیاست کو دفن کرنے کا فیصلہ نہ کرلے۔کیونکہ سیاستدان ایک تیراک کی مانند ہوتا ہے،جو پانی کی تہہ کو چھو کر پھرواپس آجاتا ہے۔سیاستدان کی واپسی کا سفر لمبا ضرور ہوسکتا ہے مگر اس کی واپسی فطری عمل ہے۔ سیاستدان اور ایک عام آدمی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ سیاستدان چیزوں کو نظر انداز کردیتا ہے اور انتقام کو دل میں نہیں رکھتا۔جیسا کہ نیلسن منڈیلا جب طویل قید کے بعد ساؤتھ افریقہ کے صدر بنے تو وہ ایک ریستوران میں کھانا کھانے گئے۔منڈیلا جس میز پر کھانا کھارہے تھے، اسکے سامنے ایک اور شخص کھانا کھارہا تھا۔نیلسن منڈیلا نے اپنے سیکورٹی اسٹاف سے کہا کہ اس سے کہو کہ میرے ساتھ ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھائے۔کھانا کھاتے ہوئے مسلسل اس شخص کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔جب وہ کھانا کھا کر چلا گیا تو نیلسن منڈیلا کے اسٹاف نے کہا کہ سر لگتا ہے یہ بیمار تھا،کیونکہ کھانا کھاتے ہوئے اسکے ہاتھ مسلسل کانپ رہے تھے۔ منڈیلا نے جواب دیا کہ یہ جیل میںہیڈ تھا اور مجھ پر بدترین تشدد کرتا تھا۔جب یہ مجھ پر تشدد کرکے تھک جاتا تھا تو میں نڈھال ہوکر اس سے پانی مانگتا تھا تو یہ جواباً مجھ پر پیشاب گرادیتا تھا۔وہ اس لئے خوف سے کانپ رہا تھا کہ کہیں میں اسے سزا نا دوں یا پھر ماردوں۔اس واقعے کو یہاں پر بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سیاستدان چونکہ بڑے مقصد کے ساتھ سیاست کررہا ہوتا ہے ،اس لئے وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو ہمیشہ نظر انداز کردیتا ہے۔اپنے والد کی پھانسی اور عدالتی قتل کے بعد بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں مگر اس وقت کی راولپنڈی انتظامیہ اور اڈیالہ جیل کے کسی فردسے انتقام نہیں لیا۔بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ضیاالحق کے بیٹےنے پاکستان میں بھرپور سیاست کی۔نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے،مگر لانڈھی جیل کے کسی اہلکار یا اس وقت کے پولیس افسران کو نشان عبرت نہیں بنایابلکہ منصب سنبھالتے ہی تمام ماضی بھول گئے۔
آصف زرداری نے جیل میں قید کے دوران بدترین تشدد کا سامنا کیا ۔ آصف زرداری پانچ سال تک پاکستان کے طاقتور ترین صدر رہے مگر کسی سے بدلہ لینے کا نہیں سوچا۔شہباز شریف اپنی نیب تحویل کے دوران ایک ایک فرد کو جانتے ہونگے،عین ممکن ہے اس وقت کی کوٹ لکھپت جیل انتظامیہ کا سلوک کچھ اچھا نہ ہو مگر وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نےسب کچھ بھلا دیا اور آگے چلنے کا فیصلہ کیا۔یہ سب مثالیںان سیاستدانوں کی ہیں جنہوں نے بدترین تشدد برداشت کیا مگر کبھی دل میں انتقام کی آگ نہیں جلائی۔اسی لئے ان سب سیاستدانوں کو جتنی باربھی اقتدار سے بے دخل کیا گیا یہ اتنی ہی تیزی سے واپس اقتدار میں آئے۔
تاہم پاکستان میں 2018ءسے لیکر 2022ء تک ایک نئی مثال قائم کی گئی۔ایک ایسا شخص ملک کا وزیراعظم بنا ،جس پر ماضی میں کبھی کوئی زیادتی یا ریاستی جبر نہیں ہوا تھا۔مگر جب وہ وزیراعظم بنا تو انتقام کی آگ میں بھرا ہوا تھا۔اس نے اپنے ہر محسن سے انتقام لیا۔جہانگیر ترین سے لے کر علیم خان تک اور نوازشریف،شہباز شریف سے لے کر آصف زرداری تک، اس نے کسی جج تک کونہ چھوڑا۔ حالانکہ جس جس بندے کو بھی عمران خان نے اپنے انتقام کا نشانہ بنایا۔ماضی قریب یا ماضی بعید میں اس نے ان پر کوئی نہ کوئی احسان ضرور کیا تھا۔
آج تحریک انصاف کے خلاف ہونے والے ایکشن پر مثال دی جاتی ہے کہ ریاستی جبرکبھی کسی سیاسی جماعت کو ختم نہیں کرسکا۔یہ بات درست ہے مگر یہ مثال صرف سیاستدان اور سیاسی جماعت پر پوری اترتی ہے۔تحریک انصاف نے جو کچھ 9مئی کو کیا ،یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی تربیت نہیں ہوسکتی۔کوئی سیاستدان اپنے ورکرز کو دہشت گرد نہیں بناتا۔ الطاف حسین کو کراچی آپریشن ختم نہیں کرسکا تھا لیکن ریاست اور پاکستان کی سالمیت پر حملے نے الطاف حسین کی سیاست ختم کردی۔آج بھی عمران خان اپنے واپسی کیلئے جس طرح کے سرپرائزز پر غور کر رہے ہیں، سیاستدان کایہ طریقہ نہیں ہوتاوہ اس طرح کی منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ سیاستدان تو برداشت کرتا ہے اور تسلسل کے ساتھ قانونی جنگ لڑتا ہے۔ باقی عمران خان کا پاکستان کی سیاست میں کیا مستقبل ہوگا، اس کا فیصلہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہوگا۔کیونکہ جیل سے ان کی واپسی ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گی۔