بات چیت: محمّد ارسلان فیاض
ساحر لدھیانوی کا شعر ہے؎ ہزار برق گِرے، لاکھ آندھیاں اُٹھیں…وہ پھول کِھل کے رہیں گے، جو کِھلنے والے ہیں، تو اگر حوصلے بلند ہوں اور ہمّت جواں ، تو انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ ایسی ہی ایک حوصلہ مند شخصیت ،بلوچستان کے ضلع، قلّات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمّد اعظم بنگلزئی کی ہے۔وہ متوسّط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ایک طرف طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند تھے، تو دوسری جانب، تعلیمی اخراجات کے سلسلے میں اپنے والدین پر بوجھ بھی نہیں بننا چاہتے تھے۔ بولان میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا، تو اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اُسی کالج کے تعمیراتی کاموں میں بطور مزدور کام کرتے رہے۔ وہ آج اپنی اَن تھک محنت کے بل بُوتے پر ایک مایہ ناز سرجن، مصنّف اور شاعر ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔
بلوچستان کےقابلِ فخر سپوت، ڈاکٹر محمّد اعظم بنگلزئی سے بات چیت
س: اپنے خاندان، تعلیم وغیرہ سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: مَیں12 دسمبر1960 ء میں کلی شاہو زئی، کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ پرائمری اسکول شاہو زئی سے ابتدائی تعلیم کے بعد1976 ء میں سنڈیمن اسکول سے میٹرک، سائنس کالج سے 1978ء میں ایف ایس سی، جب کہ بولان میڈیکل کالج سے1986 ء میں ایم بی بی ایس کیا۔طالبِ علمی کے زمانے میں میری قمیص میں پیوند لگے ہوتے تھے اور اسکول کی وہ پیوند لگی قمیص آج بھی میرے پاس محفوظ ہے تاکہ وہ مجھے میرے ماضی کا احساس دِلانے کے ساتھ اُس سے جوڑے بھی رکھے۔ مَیں نے سِول اسپتال، کوئٹہ سے ہائوس جاب کی۔ایم ایس، ایف آئی سی ایس کیا اور الحمدللہ گولڈ میڈلسٹ رہا۔میرے والد، حاجی محمّد عالم ریلوے میں ملازم تھے۔ ہم8 بہن، بھائی ہیں۔(5 بھائی، تین بہنیں) جب کہ میرے 3 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ہم کوئٹہ کے پرانے رہنے والے ہیں، جب کہ ہمارا اصل تعلق ضلع قلّات سے ہے۔ ہم متوسّط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور مزاج بھی سادہ ہی ہے۔
س: آپ نے پوسٹ گریجویشن کہاں سے کی؟
ج: جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، کراچی سے جنرل، اینڈو اسکوپس اور لیپرو اسکوپک سرجری میں ماسٹرز کیا۔یہ اُن ہی دِنوں کی بات ہے کہ مَیں جناح اسپتال، کراچی میں رات کے وقت ایک خاتون کا آپریشن کر رہا تھا کہ اُسی دَوران کوئٹہ سے فون آیا کہ میری والدہ کو ایمرجینسی میں اسپتال لایا گیا ہے۔وہ معدے میں زخم کی مریضہ تھیں اور اتفاق سے مَیں جس خاتون کا آپریشن کر رہا تھا، اُسے بھی یہی مرض لاحق تھا۔
بہرحال، مَیں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمّے داری کے تحت آپریشن مکمل کیا اور جب جہاز کے ٹکٹ کے لیے قومی ایئر لائن(پی آئی اے) کے دفتر گیا، تو صبح کا ٹکٹ ملا۔ دوسری صبح کوئٹہ پہنچا، تو ایئرپورٹ پر ایک دوست لینے آیا ہوا تھا اور وہ مجھے اسپتال کی بجائے گھر لے گیا، جہاں جا کر معلوم ہوا کہ والدہ وفات پا چُکی ہیں۔اگرچہ مَیں فرض کی بجا آوری کے باعث والدہ کے آخری سانسوں کے وقت اُن کے پاس نہیں پہنچ سکا، لیکن مجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ مَیں اللہ کے فضل سے اِس دَوران ایک خاتون کی زندگی بچانے میں کام یاب رہا۔
س: دَورانِ تعلیم کِن مشکلات کا سامنا رہا؟
ج: سب سے زیادہ مشکل تو معاشی حوالے سے رہی کہ مَیں اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرنا چاہتا تھا۔جب بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کر رہا تھا، تو میس وغیرہ کا خرچہ خود اُٹھانے کی ٹھانی۔ اُس دَوران نئے بولان میڈیکل کالج اور بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال کا تعمیراتی کام جاری تھا، تو ایک دن مَیں وہاں کے ٹھیکے دار کے پاس گیا اور اُن سے کوئی کام دینے کی درخواست کی، جس پر اُنھوں نے میری خواہش کے مطابق شام کی شفٹ میں کام دے دیا۔ اِس طرح مَیں نے وہاں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کا آغاز کردیا۔جب والد کو اِس کا پتا چلا، تو اُنھوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا، مگر مَیں اُن پر بوجھ بننے کی بجائے مزدوری کرتا رہا۔
یوں دن کو کالج میں پڑھتا اور شام کو مزدوری کرنے پہنچ جاتا۔مجھے 30 روپے دیہاڑی ملتی تھی اور یہ اُن دنوں تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک اچھی خاصی رقم تھی۔ایک دن ریت اور سیمنٹ کے مکسچر سے بَھری ٹرالی اوپر لے جا رہا تھا کہ وہ ہاتھ سے پھسل کر نیچے گر گئی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہوئی کہ اُس وقت ٹھیکے دار بھی وہاں موجود تھا، جو ٹرالی گرتے اور سیمنٹ ضائع ہوتے دیکھ کر شدید غصّے میں آ گیا اور مجھے وہاں سے فوراً چلے جانے کا کہا۔مَیں نے اُسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ نادانستہ طور پر غلطی ہوگی، آیندہ احتیاط کروں اور دوبارہ ایسی شکایت کا موقع نہیں ملے گا، لیکن اُس نے میری ایک نہ سُنی اور میرے ہاتھ میں15 روپے تھما کر وہاں سے نکال دیا۔یوں روزگار کا ایک سلسلہ ختم ہوگیا۔
س: پھر اخراجات کا کیا بنا؟
ج: جب ٹھیکے دار نے مزدوری سے نکال دیا، تو مجھے ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھنے کا موقع ملا، جس کا پیکیج120 روپے پر مشتمل تھا۔پھر ریڈیو کے ساتھ پی ٹی وی والوں نے بھی ترجمہ اور خبریں پڑھنے کے لیے بُلا لیا، یوں اخراجات پورے ہوتے رہے۔ اِس طرح میرا میڈیا سے بھی کچھ تعلق رہا ۔ایک اور بات بتاتا چلوں کہ جب ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ سے مستونگ کا سفر کیا کرتا تھا، تو ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سفر روزنامہ، جنگ پڑھتے گزارتا اور اب بھی باقاعدگی سے اِس اخبار کا مطالعہ کرتا ہوں۔
س: میڈیکل پریکٹس کے دَوران کوئی دل چسپ واقعہ پیش آیا؟
ج: ایک بار بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال کی او پی ڈی میں ڈیوٹی پر تھا کہ وہی ٹھیکے دار، جس نے مجھے مزدوری سے فارغ کردیا تھا، ہاتھ میں پرچی تھامے اپنے بیٹے کے ساتھ میرے پاس آیا۔ اگرچہ وہ بوڑھا ہوچُکا تھا، لیکن مَیں نے اُسے پہچان لیا، البتہ وہ مجھے نہ پہچان سکا۔ مَیں نے اُسے نام لے کر اپنے پاس بلایا، تو وہ بہت حیران ہوا اور اُس نے مجھ سے پوچھا کہ تم مجھے کیسے جانتے ہو۔جب مَیں نے مزدوری کرنے کا واقعہ سُنایا، تو وہ کام سے نکالنے کی بات پر رو پڑا۔
س: کِن شہروں میں فرائض سرانجام دے چُکے ہیں؟
ج: مَیں کوئٹہ کے علاوہ خضدار، مستونگ اور قلّات میں ملازمت کرتا رہا ہوں۔
س: شعراء میں کون پسند ہے؟
ج: علّامہ محمّد اقبال، اسد اللہ خان غالب اور احمد فراز میرے پسندیدہ شاعر ہیں کہ اُن کی شاعری میں مقصدیت اور پیغام ہوتا ہے۔
س: خود بھی شاعری کرتے ہیں ؟
ج: جی ہاں، شاعری سے بہت لگاؤ ہے اور میرے دو شعری مجموعے شایع ہو چُکے ہیں۔ ایک براہوی زبان میں ہے، جس کا نام’’ ویدن‘‘ ہے، جب کہ دوسرا شعری مجموعہ’’آرزؤں کی برفیلی دھوپ‘‘ کے نام سے اردو میں ہے۔ میرے خیال میں کتاب دوستی سب سے بڑا سرمایہ ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ انسان کو کتاب سے تعلق کبھی نہیں توڑنا چاہیے۔
س: موسیقی سے بھی شغف ہے؟
ج: ہر زندہ دل انسان موسیقی پسند کرتا ہے۔ مجھے پرانے گانے اور غزلیں پسند ہیں۔
س: میڈیکل پریکٹس کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں؟
ج: مجھے شکار، ہائیکنگ اور سیّاحت کا بے حد شوق ہے۔شکار کے لیے بولان، چلتن، ژوب جاتا ہوں، جہاں اکثر چکور، سیسی یا خرگوش ہاتھ لگ جاتے ہیں، جب کہ ہائیکنگ کے لیے بولان کرخسہ جاتا رہتا ہوں۔ویسے تقریباً پورا پاکستان ہی گھوم چُکا ہوں۔
س: بلوچستان میں صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، آپ کے خیال میں اِس کی کیا وجوہ ہیں؟
ج: یہ کہنا کہ شعبۂ صحت زبوں حالی کا شکار ہے،درست نہیں،البتہ لیکن سب اچھا بھی نہیں ہے۔ اگر صرف انتظامی امور بہتر کردیئے جائیں اور چیک اینڈ بیلنس سسٹم بہتر ہو جائے، تو سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریز کی حالت بہتر ہوسکتی ہے،یعنی مسئلہ صرف دیکھ بھال کا ہے اور اس کے نہ ہونے کا خمیازہ مریضوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔صوبے میں باصلاحیت اور تجربہ کار ڈاکٹرز کی کمی نہیں، لیکن اُن کی صلاحیتیوں سے بھرپور استفادے کی ضرورت ہے۔
س: طالبِ علمی دَور کا کوئی ایسا واقعہ جو آج بھی ذہن میں تازہ ہو؟
ج: ہمارے ایم بی بی ایس کے زبانی امتحان کے لیے کراچی سے سینئر پروفیسرز آئے ہوئے تھے، تو اِس موقعے پر میرے استاد نے اُن سے کہا کہ’’ یہ بچّہ اِس کالج کی نئی عمارت کی تعمیر میں بطور مزدور بھی کام کرچکا ہے‘‘ جس پر وہ حیران ہوئے اور مجھے شاباش دیتے ہوئے کہا کہ’’جائیں، آپ کا امتحان ہوگیا۔‘‘
اِس پر مَیں نے کہا کہ’’ نہیں سر، آپ مجھ سے سوالات پوچھیں، مَیں امتحان دینا چاہتا ہوں۔‘‘ یوں اُنھوں نے میرے اصرار پر کئی سوالات پوچھے، جن کے مَیں نے بہترین جواب دئیے، جس پر اُنہوں نے کھڑے ہوکر مجھے سراہا۔ یہ وہ لمحہ تھا، جو آج بھی یاد آتا ہے، تو فخر محسوس کرتا ہے۔
س: کھانے میں کیا پسند ہے؟
ج: مَیں سادہ کھانا پسند کرتا ہوں۔ کوئی خاص چیز پسند نہیں، سبزیاں، دالیں، گوشت سب ہی کھا لیتا ہوں۔ البتہ اپنا شکار کیا گیا جانور زیادہ رغبت سے کھاتا ہوں۔ ویسے ہمیں اپنی خوراک سادہ ہی رکھنی چاہیے، کیوں کہ طبّی لحاظ سے بھی سادہ خوراک استعمال کرنے والے لمبی زندگی پاتے ہیں۔
س: بلوچستان میں صحت کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کِن اقدامات کی ضرورت ہے؟
ج: اسپتالوں میں جدید مشینز تو موجود ہیں، لیکن اُن کے استعمال کے لیے تربیت یافتہ عملہ بھی ازحد ضروری ہے۔پھر یہ کہ جدید آلات کا فقدان بھی ہے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے تو حکومت صحت کے شعبے کو اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کرے۔ ضلعے کی سطح پر سرکاری اسپتالوں کی حالت بہتر کرنے کی کوئی قابلِ عمل حکمتِ عملی طے کی جائے۔ نیز، صوبے میں اسپیشلائزڈ اسپتالوں کی تعمیر بھی ناگزیر ہے، جیسے امراضِ قلب، گُردوں، کینسر، اسکن، گائنی اور امراضِ چشم وغیرہ کے لیے اسپتال تعمیر کیے جائیں، جہاں عوام کو ایک چھت کے نیچے اس مرض کا مکمل علاج میسّر ہو۔