(گزشتہ سے پیوستہ)
چین میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے گفتگو بہت سارے ایسے فکر کے دریچوں کو وا کر رہی ہے کہ جس پر وطن عزیز کے ارباب حل و عقد کو گہرا غور و فکر کرنا چاہئے۔ کیونکہ چین اور خاص طور پر اس کی جانب سے ہمارے گردونواح میں اختیار کی گئی حکمت عملی کے اثرات پاکستان پر ضرور مرتب ہوں گے۔چین کی قائم کردہ ایس سی او کا وزرائے خارجہ کا اجلاس بھارت میں منعقد ہوا تھا اور اس کا سربراہی اجلاس بھی بھارت میں منعقد ہو گا ۔ وزرائےخارجہ کے اجلاس کے بعد مگر جو رویہ بھارتی حکام کی جانب سے اختیار کیا گیا تھا اس پر بھی چین میں بہت زیادہ تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ انڈیا نے اس حوالے سے اس حد تک سرد مہری کا مظاہرہ کیا کہ ایس سی او کے ہیڈ آفس میں ملازمت کرنے والے سینئر سفارتکاروں کو بھی ویزوں کے اجراءسے محروم رکھا۔ جب چین نے ویزوں کے جاری نہ کرنے کے اقدام پر بیجنگ میں قائم بھارتی سفارتخانے سے رابطہ کیا اور اس اقدام کی وجہ جاننا چاہی تو وہاں سے جواب ندارداور اب تک ندارد ہی ہے۔ ان اقدامات نےچین میں بھی سوالات اٹھا دیئے ہیں، معاملہ یہاں تک بگڑگیا ہے کہ چینی حکام اب اس شش و پنج میں ہیں کہ آیا ان بھارتی اقدامات کے بعد صدر شی کو ایس سی او کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے کی غرض سے بھارت کا دورہ کرنا چاہئے کہ نہیں ؟ ابھی اس حوالے سے بہر حال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ ویسے بھی ایس سی او میں ان حالات کی وجہ سےانہوں نے وسطی ایشیا کے معاملات کو ایس سی او سے جدا کر کے دیکھنا شروع کر دیا ہے ۔آج کل ہونے والی کانفرنس اس ضمن میں ایک بڑی پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مگر پاکستان کے معاملات ایس سی او سے اس حد تک نہیں جڑے ہوئے، جتنے سی پیک کی کامیابی سے وابستہ ہیں ۔ چین میں اس امر پر بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے کہ سی پیک کو شروع ہوئے برسوں گزر گئے مگر پاکستان میں اس کی معیشت پر، اس کے عوام پر اس کے مثبت اثرات نظر آنا شروع نہیں ہوئےاور یہ مکمل طور پر پاکستان کی ذمہ داری تھی اور ہے کہ وہ اپنی جانب سے سی پیک کی راہ میں ہر رکاوٹ کودورکرے تاکہ پاکستانی عوام اس کے ثمرات سے بہرہ مند ہو سکیں اور پاکستان کو اس کے ثمرات سے بہرہ مند کرنے کا مطلب چین میں یہ نہیں لیا جا رہا کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے یا ان دونوں ممالک کی کوئی کشمکش ہو بلکہ پاکستان بھارت یا کسی بھی دوسرے ملک کو ذہن میں لائے بغیر اپنے عوام کو اس کے ذریعے سے غربت کی دلدل سے باہر نکالے ۔ اب جب چینیوں سے سی پیک پر بات ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سی پیک کو نقصان پہنچانے کی غرض سے دہشت گردی بھی زیر بحث آتی ہے ۔ چین میں یہ تصور بہت مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان چینی شہریوں کی سلامتی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہی برت رہا ہےاور جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہم دونوں ممالک اس کی کامیابی سے استفادہ کریں گے تو اس کے دشمنوں سے لڑنا بھی مل کر ہوگا جو بین الاقوامی اور مقامی طاقتوں کا گٹھ جوڑ ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ آپ کو اس کا خود بھی ادراک ہونا چاہئے تھا کہ حالات اس رخ پر بھی جا سکتے ہیں اور بنیادی طور پر یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ہمیں اپنی سرزمین پر تحفظ مہیا کریں ۔ان کو کہا کہ جہاں بیرونی قوتیں متحرک ہیں وہیں پر کالعدم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کا بھی اس حوالے سے گٹھ جوڑ ہو چکا ہے ، تو ایک چینی نے کہا کہ اس گٹھ جوڑکے باوجود آپ کے سیاسی رہنما ان کالعدم تنظیموں کیلئے نرم گوشہ بلکہ ان کے ترجمان بنے افراد سے صرف مقامی سیاست کی وجہ سے ملاقات کر رہے ہیں اور میرے سامنے پنجاب میں کی گئی ایک ملاقات کی تصویر جو اکاؤنٹ سے جاری کی گئی تھی رکھ دی اورانہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں اور یقین بھی رکھتے ہیں کہ نواز شریف، شہباز شریف ،آصف زرداری دہشت گردی اور ایسے افراد کے حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتے ہیں مگر ان کے بعد کی قیادت کو بھی ان لوگوں سے ملنے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ اس سے تاثر خراب ہوتا ہے ۔ ایک دوسرا مسئلہ بھی وہاں پر پاکستان کے حوالے سے موضوع بحث ہے کہ پاکستان اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئےغیر موثر اقدامات کر رہا ہے اور مستقبل میں پاکستان اتنی بڑی آبادی کو کیسے کنٹرول کرے گا ؟ ایران اور سعودی عرب کے معاملات کو بہتر کروانے کو چینی اپنی بہت بڑی کامیابی گردانتے ہیں ،صدر شی کے تیسرے دورِصدارت میں جہاں ان کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ معاشی گروتھ میں رکاوٹ آ رہی ہے وہیں پر وہ چین کے عالمی تشخص، اہمیت کو منوانے کے چیلنج سے بھی نبرد آزما ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے ان دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان کامیاب سفارت کی ہے جو کہ ایک اہم بین الاقوامی واقعہ ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)