کسی بھی قوم کی خارجہ پالیسی اس کے قومی مفادات کے تابع چلتی ہے، اس حقیقت حال پر قریباً پوری دنیا میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ قومی مفادات کے ساتھ ہی قومی امنگوں کا تذکرہ بھی ہو جاتا ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ امنگیں بھی مفادات کے ہی زیر اثر ہوتی ہیں، اگر کسی قوم کے حقیقی مفادات اور اس کی قومی امنگوں یا تمنائوں میں ٹکرائو کی صورت پیدا ہو جائے تو پھر ترجیح کسے حاصل ہو گی؟مفادات کو یا امنگوں کو ؟؟قومی مفاد سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس قوم کا IN THE LONG RUN حقیقی فائدہ کس اپروچ یا پالیسی کو اپنانے میں ہے ؟کیونکہ مفادات بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ہنگامی یا وقتی، دوسرے مستقل یا دائمی، اس کے بالمقابل قومی امنگوں یا تمنائوں سے مراد وہ جذبے یا خواہشات ہوتی ہیں جو کوئی بھی قوم اپنے مادی مفادات سے بھی اوپر اٹھ کر اپنے بڑے کا ز یا مشن کے طور پر پیش کرتی ہے، جس میں بارہا اسے اپنے مادی مفادات کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے، عزم و ہمت والے لوگ بالعموم وقتی مفادات کے زیر اثر سوچ رکھنے والوں کو شرم دلا رہے ہوتے ہیں کہ بڑے کاز یا مشن کی خاطر مفادات کی قربانی دینا سیکھو جو اقوام محض مفادات کی اسیر بن کر رہ جاتی ہیں وہ دنیا میں کبھی کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتیں ، عزیمت یا جدوجہد اسی کا نام ہے ۔افغانستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی یا تشدد کا خاتمہ کرتے ہوئے وہاں ایک آئینی و جمہوری حکومت قائم کرنے کی خواہش، امن، ترقی، خوشحالی اورتعلیم و شعور سے مالا مال اوصاف کی حامل افغان قوم کی تشکیل ایک ایسا مشن تھا جس کی تمنا وتوقع پوری مہذب دنیا بشمول امریکہ و یورپ سے کی جا رہی تھی جس کیلئے ابتداً انہوں نے بھرپور کاوش بھی کی اور اس میں ان ترقی یافتہ اقوام کا طویل مدتی مفاد بھی تھا لہٰذا وہ ایک طویل عرصے تک اپنے قومی وسائل یا مفادات بھی اس امنگ کی آگ میں جھونکتے رہے مگر جب انہوں نے بالخصوص امریکیوں نے یہ دیکھا کہ ہماری اکانومی کا نقصان کہیں زیادہ ہو رہا ہے جبکہ کاز یا مشن کا حصول اتنا زیادہ نہیں ہے اور اس کے بغیر بھی انہیں کوئی ایسا نقصان نہیں ہونے جا رہا تو انہوں نے دوحہ مذاکرات کے ذریعے اپنے مفادات کا جتنا تحفظ ممکن تھا اس کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اپنے قومی یا معاشی مفادات کا بچائو کرلیا ۔آج روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے پورا ترقی یافتہ یورپ ایک نوع کی پریشانی اور معاشی الجھن سے گزر رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس جنگ کا خاتمہ ہو جائے۔
آج کی باشعور جمہوری دنیا کا کوئی ایک ملک یا کوئی ایک فرد ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے وسائل اپنی ہیومن ڈویلپمنٹ یا سائنٹیفک ترقی سے ہٹا کر کسی نئی سرد یا گرم جنگ میں جھونکے ۔ اگرچہ مہذب دنیا میں یہ سوچ یا اپروچ بدرجہ اتم موجود ہے کہ ہمیں دنیا میں کسی بھی نوع کے تنازع کو بڑھانے سے نہ صرف یہ کہ گریز کرنا چاہئے بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس میں نہیں الجھنا چاہئے اس سے جہاں بڑھتے ہوئے انسانی شعور کی نشاندہی ہوتی ہے وہیں ترقی پذیر کمزور اقوام کیلئے سبق بھی ہے کہ وہ بھی قومی امنگوں یا تمنائوں کی جستجو میں مہم جوئی کی خواہشات پالنا ترک کر دیں ۔ہم پاکستانیوں میں ایسے بہت سے لوگ یا گروہ مل جائیں گے جو قومی امنگوں یا تمنائوں کے نام پر پوری دنیا میں چھا جانے کی خواہش اپنے من میں پالے ہوئے ہونگے پوری دنیا نہ سہی اپنے قریب ترین برادر ہمسایہ ملک بھارت پر چھا جانے کی حسرت تو بہت سے سینوں میں ایک چنگاری کی طرح سلگتی رہتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں کشمیر ہماری قومی امنگوں یا تمنائوں کا ترجمان ایشو ہے یا ہمارے قومی مفاد کا جزولاینفک ؟ درویش نے اس پر نصف صدی غور کیا اور بالآخر ربع صدی قبل اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارا قومی مفاد صدیوں کی یکجہتی ،پیار محبت اور دوستی میں پنہاں تھا ضرورت اسکو توڑنے کی بجائے جوڑنے اور بڑھاوا دینے کی تھی دیوار برلن کو منہدم کرنے اور یورپی یونین جیسے پلوں کو تعمیر کرنے کی تھی اگر ایسی صورتحال ہوتی تو آج ہم چائنہ جیسی طاقت ہوتے ۔دراصل ہمارا طویل المدتی قومی مفاد انڈیا دوستی میں ہے انڈیا ہماری نسبت معاشی، سیاسی ،تعلیمی اور تہذیبی حیثیت میں اتنی بلندی پر ہے کہ آج ہم اس کی مجبوری نہیں رہے ہیں جبکہ ہمارے طویل مدتی مفادات کا بدیہی تقاضا تھا کہ ہم انڈیا کی مجبوری بنتے، انڈیا کو ہماری زیادہ سے زیادہ ضرورت پڑتی وہ سنٹرل ایشیا تک پہنچنے کیلئے چاہ بہار کا رستہ اختیار کرنے کی بجائے واہگہ اور لاہور کا راستہ اختیار کرتا ہم ڈیڑھ ارب انسانوں پر مشتمل قوم کو سنٹرل ایشیا سے ملانے کا وسیلہ و ذریعہ بنتے تو آج ہمیں اس کے ثمرات ہر دو اطراف سے مل رہےہوتے اور آج ہم اقوام عالم کے سامنے کشکول تھامے کھڑے نظر نہ آتے۔