یہ راستہ کہیں تو جا کر ختم ہوگا، منزل ملے، نہ ملے ان کٹھن راہوں پر کہیں رُک کر اتنا تو سوچا جا سکتا ہے کہ اسپیڈ درکار ہے یا ولاسٹی؟ کسی خاص سمت میں خاص وقت میں پہنچنے کی کاوش بھی منزل کے حصول کی مسرت اور تسلی سے کم تجربہ نہیں ہوتا۔ المیہ یہ ہے کہ انقلاب برپا کرنے کے نام پر جب جب جہاں جہاں ہنگامہ برپا ہوا وہاں وہاں راہوں سے بھٹک گئے یا منزل سے دور نکل گئے !
چلئے تنقید کو مارئیے گولی، تھوڑی دیر سوچ کے دریچے تو کھولے جاسکتے ہیں ؛ اسحاق ڈار برطانیہ سے صرف مفتاح اسماعیل کو گھر کا راستہ دکھانے کیلئے تو نہیں آئے تھے، ڈار ذی وقار کا مقصد تو ہچکولے کھاتی معیشت کو کنارے لگانا تھا نہ کہ قوم کو دیوار کے ساتھ لگانا ، آئی ایم ایف اور اسحاق ڈار کی ’’پریم کہانی‘‘ بھی روایتی ہنسی سے شروع ہوکر آنسوؤں پر ختم ہوتی دکھائی دی۔ رہی بات مفتاح اسماعیل کی کہ ان کی رسوائی نامی وزارت سے جان چھوٹنے پر جہاں انہیں گھی کے چراغ جلا کر لُڈیاں ڈالنی تھیں، اور نیا کام ڈھونڈنا چاہئے تھا وہاں وہ بین ڈالنے بیٹھ گئے، خود سمجھ جاتے کہ ’’ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے‘‘ تو سیاسی زندگی آسان ہو جاتی مگر وہ چل نکلے اسحاق ڈار کے خلاف ڈگڈگی بجانے، وہ بھٹکے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، بہرحال دونوں ہی آئی ایم ایف کیلئے ناقابلِ اعتبار ٹھہرے! رانا ثناءاللہ کا کام وزارت ملنے سے قبل ہی آصف علی زرداری نے ایسا شروع کرا دیا کہ وزارت ملنے کے بعد انہیں اپنا کام شروع ہی کرنے کی فرصت نہ ملی۔
پچھلے دنوں ایک وفاقی وزیر نے بتایا کہ کچھ وزراء اور قیادت کی موجودگی میں جب رانا ثنا اللہ کی کارکردگی پر آصف علی زرداری نے سوال اٹھایا تو جواب ملا یہ آپ ہی کی چوائس تھے، اس کا جو جواب زرداری نے دیا وہ آج سپردِ قلم کا ارادہ نہیں ، پھر سہی۔ وہ قلم دان جو اعظم نذیر تارڑ کے سپرد ہے جانے یہ کیوں لگتا ہے کہ احاطہ سپریم کورٹ میں جاکر وہ علی ظفر کے دست مبارک میں چلا جاتا ہے۔ راقم نے عمر بھر پروفیسر احسن اقبال کی دیانت داری کی ’’قسمیں‘‘ اتنی کھائی ہیں کہ ان کی سال بھر کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے بھی شرم آتی ہے۔ لیکن پچھلے دنوں ایک قلندر کی بات پانی پانی کر گئی کہ کوئی احسن انداز میں وزیر موصوف کو سمجھائے کہ محض اس بات کے تکبر پر اقبال بلند نہیں رہ سکتا یا اگلا وقت نہیں گزارا جاسکتا کہ جب نیب نے انہیں پکڑا تھا تو وہ بےگناہ تھے ہی نہیں بےگناہی ثابت بھی ہوئی۔ اگر اسی بات کو فارمولا بیرا میٹر بنانا ہے تو آصف علی زرداری کو تو تاحیات صدر پاکستان ہونا چاہئے۔ بس احسن اقبال اس تھوڑے لکھے کو زیادہ جان لیں تو احسان ہوگا ورنہ 9مئی کے بعد ہونے والے انصاف سے لیڈر زیادہ ہو جائیں گے اور عوام کم ۔ یہ نائن مئی بھی کچھ کیلئے نائن الیون ہی بن گیا ، خیر، پی ڈی ایم کے کچھ وزراء کی بات سمیٹتے ہوئے آخری سوال بڑا معصوم سا ہے کہ وفاق میں وزارت تعلیم کا نازک اور حساس ساقلم رانا تنویر حسین کی ’’مضبوط گرفت‘‘ میں جناب وزیراعظم نے دیا ہے یا برطانیہ سے جناب میاں محمد نواز شریف کی خواہش پوری کی گئی ہے؟ بہرحال اس تقرری میں مریم نواز کی منشا کا عنصر نہیں ملتا!
جان کی امان پاتے ہوئے،محسوس یہ ہو رہا ہے دلِ ناداں پی ٹی آئی والوں کی بار ہا صلواتیں سننے کے بعد نون لیگ کا مزا چکھنے کے درپے ہے لیکن اتنا ضرور عرض ہےکہ عمران خان کی ٹیم کو حکم بجا لانے میں کسی نیب کا خوف ہوتا تھا نہ عدالتوں کا ، فری اسٹائل کی ایسی لَت لگی پھر سوچا کچھ نہیں ،سو آج فائلوں پر فائلیں کھل رہی ہیں ایسا ہی کچھ فعل پی ڈی ایم کے کرتا دھرتا سر انجام دینے کے موڈ میں ہیں پس خبردار رہیں تو اچھا ہے۔ مقبولیت کے زعم کا نتیجہ کیا ہوتا ہے یہ خان سے پوچھئے اور اقتدار کا نشہ کیا کیا گل کھلاتا ہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی والوں سے زیادہ یہ کون جانتا ہے۔ وہ بیتے دن یاد تو ہوں گےکہ الیکشن 1997 کے بعد پیپلز پارٹی کے ایم این ایز کی کل تعداد 18تھی حالانکہ بےنظیر حیات تھیں اور مقبول ترین بھی، اور اس سے قبل الیکشن میں فاتح بھی اور وزیراعظم بھی! ایسے ہی الیکشن 2002 کے بعد مسلم لیگ نواز کے پاس ممبران قومی اسمبلی کی تعداد صرف 19 تھی اور میاں نوازشریف مقبول قائد جبکہ جاوید ہاشمی پارلیمنٹ میں لیڈر تھے۔ واضح رہے ایک الیکشن قبل میاں نواز شریف کے پاس لینڈ سلائیڈ وکٹری تھی۔
خان منفرد ٹھہرا کے ایک سالارِ اعظم کے بےجا لاڈ نے فراز بنا دیا اور ایک عادلِ اعظم کا غیر معمولی لاڈ اس قدر مضر سیاست کہ الٹا نشیب تک پہنچا دیا۔ نواز شریف کی لَک لائن کے کون نہ صدقے جائے تاہم پیپلزپارٹی کی جیت کو کبھی شہادتوں اور کبھی عداوتوں کا وہ سامنا رہا کہ رہے نام اللہ کا۔ یہاں ایک سوال ہمیشہ تاریخ کے لب پر مچلتا رہے گا کہ کس نے کیا سیکھا ؟ نہ سیکھنے کا خمیازہ یہاں تک بھگتنا پڑتا ہے کہ 2002 میں امین فہیم وزیراعظم بنتے بنتے اپوزیشن لیڈر بھی نہ بن سکے اور جنرل پرویز مشرف نے مولانا فضل الرحمٰن کو قائد حزب اختلاف چن لیا، اب کی مقتدر محبتوں کے عالم میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آئندہ اپوزیشن کی جماعت کون سی ہوگی، کیا عمران خان اپوزیشن لیڈر بھی نہیں ہوگا تو کیا ہوگا، کہاں ہوگا؟ ویسے بھی وزارتِ عظمیٰ کے علاوہ خان کی پارلیمنٹ میں صفر دلچسپی کی توقع ہے۔
بہرحال ، المیہ تب تک رہے گا جب تک مؤرخ اور سیاسیات کا طالب بے نظیر بھٹو ، میاں نواز شریف اور عمران خان کے ’’دکھوں‘‘ کو جمہوریت کی کسوٹی پر الگ الگ نہیں پرکھے گا، تب تک کوئی ولاسٹی ممکن ہے نہ منزل کا حصول، سیاست اور جمہوریت دیکھا دیکھی کا سفر نہیں ہوتی جاناں!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)