• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وہ لگاتار فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کو دیئے جانےوالے اپنےانٹرویوزمیں ایک طرف اُنہوں نے آرمی چیف کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے تو دوسری طرف اُنہوں نے مئی 9 کے سانحہ پر ایک نیا بیانیہ تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو False Flag Operation تھا ،جس کا مقصد اُنہیں فوجی عدالت کے ذریعے سزا دلوا کر جیل میں ڈالنا تھا۔ پہلے اُنہوں نے کہا یہ ایجنسیوں کا کام ہے، پھر کہا اُن کے ورکرز نے اُن کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کا منظر دیکھ کر یہ ردعمل دیا۔ جو تباہی اور گھنائونا کام 9 مئی کو ہوا تھا اُس کے بارے میں جاننے کے بعد بھی اُنہوں نے ایک بار یہ دھمکی دی تھی کہ اگر اُنہیں پھر گرفتار کیا گیا تو پھر ردعمل آئے گا۔ تحریک انصاف نے جناح ہاؤس حملہ میں شامل ایک شخص کو ایجنسیوں کا آدمی بناکر پیش کیا تھا، وہ بھی آج پکڑا گیا اور تحریک انصاف کا ہی ووٹر، سپورٹر نکلا۔ جو کچھ 9مئی کو ہوا اُس پر اُنہیں شرمندگی ہونی چاہئے تھی، اُس پر اُنہیں معافی مانگنی چاہئے تھی، اُس کی بغیر کسی لگی لپٹی کے سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے تھی لیکن یہاں تو کھیل ہی نیا کھیلا جا رہا ہے۔ اب تو حدہی ہو گئی ہے کہ امریکہ میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پاکستانی، جن کے پاس امریکی نیشنلٹی ہے، وہ عمران خان کی محبت میں پاکستان کے خلاف ہی سرگرم ہوگئے ہیں۔ ان افراد میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جو خود کو عمران خان کا امریکہ میں فوکل پرسن کہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کا امریکہ میں سابق صدر ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ امریکی کانگریس اراکین کے ذریعے پاکستان پر امریکہ کی طرف سے دباو ڈالنے کیلئے کوشش کی جا رہی ہے لیکن جو بات بہت سنگین ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ امریکہ میں ایک قانون سازی کروائی جائے جس کا مقصد امریکہ کی طرف سے پاکستان کی فوج کی کسی بھی قسم کی امداد کو انسانی حقوق کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ یہ نہیں معلوم کہ عمران خان کے کہنے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے یا پی ٹی آئی امریکہ یہ سب کچھ اپنی تئیں کر رہی ہے لیکن ابھی تک عمران خان یا تحریک انصاف کی طرف سے اس اقدام سے نہ تو لاتعلقی کا اظہار کیا گیاہے اور نہ ہی اس کی مذمت کی گئی ہے۔ جو کوئی بھی اس حرکت کے پیچھے ہے اُسے امریکہ کا ماضی یاد رکھنا چاہئے جس نے جمہوریت، انسانی حقوق، حقوق نسواں جیسے بہانےتراش کر عراق، لیبیا، افغانستان اورشام وغیرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ 2011-12میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جو میموگیٹ اسکینڈل سامنے آیا تھا اُس میں امریکی حکومت کی جانب سے پاک فوج پر دبائو ڈالنے کی بات کی گئی تھی۔ اُس میموگیٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ماتحت ایک کمیشن بنا جس نے یہ تصدیق کی کہ میمو ایک حقیقت تھی ،اُس میموگیٹ کے مقابلے میں اِس وقت امریکہ میں مقیم تحریک انصاف کے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔ وہ تو کھل کر پاکستان پر دباو ڈالنے اور فوجی امداد پر پابندیاں لگانے کی تجویز دے رہے ہیں اور ایک ایساماحول پیدا کر رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ تحریک انصاف تو امریکہ کی مداخلت کے خلاف تھی اور اسی لئےAbsolutely not کا نعرہ بھی بلند کیا تھالیکن اپنے سیاسی مفاد کیلئے اُسی امریکہ کواب پاکستان پر دباو ڈالنے، پاکستان کی امداد پر پابندیاں لگانے اور یہاں مداخلت کرنے کی کھلی دعوت دے رہی ہے! عمران خان تو کہتے تھے کہ پاکستانی فوج اُن سے زیادہ اہم ہے لیکن اب نہ پاکستان کا، نہ ہی پاکستانی فوج کا مفاد دیکھا جا رہا ہے۔ عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں والی پالیسی نہیں چلےگی۔ کوئی بھی پاکستانی رہنما چاہے وہ نواز شریف ہوں، آصف علی زرداری یا عمران خان ،پاکستان سے اہم نہیں۔ اور عمران خان کے ماضی کے بیانات کےمطابق پاک فوج پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہے اور اگر پاک فوج کمزور ہو جائے یا نہ ہو تو پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ کوئی عمران خان کو ماضی میں دیئے گئے ان کے یہ بیانات یاد دلائے اور احساس دلوائے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، جو کچھ تحریک انصاف نے 9 مئی کو کیا اور جو کچھ تحریک انصاف امریکہ میں کر رہی ہے،کیا وہ پاک فوج کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں۔؟ جو عمران خان کہتے تھے کہ فوج مجھ سے زیادہ اہم ہے، وہ عمران خان کہا ں کھو گئے ہیں۔؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین