وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 6 پوسٹ بجٹ پریس کانفرس کر چکا ہوں آج ساتویں ہے، ہم نے یہ بجٹ روایت سے ہٹ کر بنایا ہے، ٹیکس بڑھانے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہو گا۔
اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں بجٹ معاملات پر دو کمیٹیاں بنائیں گے، ایک بزنس کمیٹی ہوگی اور دوسری ٹیکنیکل کمیٹی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ کے بعد تجاویز کو ڈیل کرنے کے لیے کمیٹی بنائی جا رہی ہے، ایف بی آر کی کلیکشن 12163 ارب ہے، پرائیویٹ پبلک سیکٹر کو لے کر چلنے سے ملک کا پہیہ چلے گا۔
وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ ایس ڈی پی میں ہیلتھ، ایجوکیشن، سوشل سیکٹر، ٹرانسپورٹ کے لیے بجٹ رکھا گیا ہے، صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 1559 ارب روپے ہے اور وفاق کا 1150 ارب کا ترقیاتی بجٹ ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پی ایس ڈی پی پر شفاف طریقے سے عمل کیا تو نظام بہتر ہو جائے گا، پچھلی حکومت نے پبلک قرضے بڑھا دیے، قرضوں کی مد میں اس بجٹ میں بھی بڑی رقم جائے گی، بجٹ کے اہداف حاصل کریں گے، گروتھ ہو گی تو ملک کا پہیہ صحیح چلے گا، آئندہ مالی سال ترقی کی شرح کو 3.5 فیصد رکھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افراط زر کا ہدف 21 فیصد ہے، جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا تناسب 8.7 فیصد ہے، زراعت پر خصوصی توجہ دی ہے، زرعی شعبہ سب سے زیادہ فائدہ دیتا ہے، پوری کوشش کریں گے ملک کو دوبارہ ترقی پر ڈالنا ہے اور واپس گروتھ کی طرف جانا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ پر درست طور پر عمل ہو تو شرح نمو کا ہدف حاصل کر لیں گے، عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا خیال ہے کہ شرح نمو 4 فیصد ہو سکتی ہے، قرضوں پر سود کی ادائیگی سب سے بڑا بوجھ ہے، چار سال میں قرض بھی دگنا ہو گیا اور شرح سود بھی 21 فیصد ہو گئی، شرح نمو بہتر ہو گی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، پاکستان ایٹمی قوت ہے اب معاشی قوت بھی بننا ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ سب سے جلد زراعت میں سرمایہ کاری کا فائدہ ہوتا ہے، میرے نزدیک معاشی استحکام ہو چکا، اب ہم نے شرح نمو بڑھانے کی طرف جانا ہے، زرعی قرضے کے لیے 2250 ارب روپے رکھے ہیں، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے، بیجوں کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر دی ہے، ملک میں زرعی انقلاب لائیں گے، ایس ایم ایز کے لیے وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اسکیم تیار کی جا رہی ہے، بزنس، زراعت کے قرضوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے، آئی ٹی سیکٹر کے لیے خصوصی اکنامک زونز جلد مکمل کریں گے، زراعت کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات سے فوڈ سیکیورٹی بڑھے گی، ایگرو زرعی ایس ایم ایز کو سستے قرض فراہم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سولر کو سستا کرنے کے اقدامات کیے ہیں، آٹا، گھی ،دالوں پر سبسڈی کے لیے 35 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے، آٹا، گھی اور دالوں پر سبسڈی کی سہولت یوٹیلیٹی اسٹورز پر ہو گی، پاکستان میں یوریا کھاد کی قیمت عالمی مارکیٹ سے کم ہے، ملک میں یوریا کی مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو سستے قرض فراہم کریں گے، ایس ایم ایز کے لیے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی شروع کریں گے، ترسیلات زر بڑھانے کے لیے نئے اقدامات کریں گے۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے دودھ پر ٹیکس لگانےکی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دودھ پر 9 فیصد ٹیکس لگانے کی بات درست نہیں، ملک میں 90 فیصد کھلا دودھ بکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رات حیرانگی ہوئی خبر دیکھ کر کہ دودھ پر سیلز ٹیکس لگ گیا ہے، صرف تجاویز تھیں کہ ڈبے کے دودھ پر ٹیکس لگایا جائے، کلیئر کرنا چاہوں گا دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگا۔
ان کا کہنا ہے کہ فاٹا کے حوالے سے کئی سوالات تھے، وزیرِ اعظم کے پشاور کے دورے میں اس پر تفصیلی بات چیت ہوئی تھی۔
اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ انڈسٹری میں ونڈ فال منافع ہوتا ہے تو اس پر ٹیکس عائد کیا ہے، سپر ٹیکس بھی سوچ سمجھ کر لایا گیا، آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ بجلی سبسڈی پر اتفاق ہو گیا ہے، خوردنی تیل کی درآمد پر سیلز ٹیکس ختم نہیں کیا گیا، قومی بچت اسکیم یکم جولائی سے لاگو ہو گی، ہمارے نئے ٹیکس اقدامات صرف 200 ارب روپے کے ہیں، 9200 ارب روپے کا ٹیکس ہدف حساب کتاب سے رکھا ہے، 200 ارب روپے کے ٹیکس میں 175 ارب ڈائریکٹ ٹیکسز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر ٹیکس 5 فیصد کر دیا گیا ہے، 1 لاکھ ڈالر تک لانے کی ایمنسٹی اسکیم نہیں دی، اسی اسکیم کو 5 سال پرانی سطح پر لے کر آئے ہیں، کچھ لوگوں نے کہا ہم نے زیادہ سبسڈی دے دی ہے۔
وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ پلان بی پر پبلک میں بات نہیں ہو سکتی، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے پلان بی ہوتا ہے، ڈیفالٹ کی رٹ لگانے والے خود ذمے دار ہیں، ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس کرنے پر کام کر رہے ہیں، جولائی میں پہلے ایئر پورٹ کی آؤٹ سورسنگ کا اشتہار دینے کا ارادہ ہے، ڈسکوز کی نجکاری پر کام کر رہے ہیں، ایڈہاک ریلیف تنخواہ پر دیا گیا اس کا اطلاق الاؤنس پر نہیں ہوتا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی کے سیکٹر میں فوری اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، کم سے کم اجرت پر عمل نہ کرنے والے اداروں کی شکایات حکومت کو بھجیں، بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقے کے تحفظات دور کریں گے، تحفظات دور کرنے کے لیے ایف بی آر کی 2 کمیٹیاں بنارہے ہیں، بجلی کا ٹیرف اوسط بنیاد پر ہونا چاہیے، کم سے کم اجرت کی شکایات موصول ہوئیں تو کارروائی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یورپین یونین جی ایس پی پلس میں توسیع دے گا، پاکستان کی آبادی کی شرح الارمنگ ہے، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائے گی، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مردم شماری کے نمبرز کچھ زیادہ رپورٹ ہوئے، حکومت اس پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ ملک میں غذائی قلت میں کمی کے لیے حکومت اقدامات کرے گی، بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنا ہوں گے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ آبادی کی شرح 3.6 فیصد پہنچنے پر شدید تحفظات ہیں، آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی اجلاس ہو رہے ہیں، ہم علماء سے مل کر آبادی کے مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنا ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ دفاعی بجٹ ایک حقیقت پسندانہ بجٹ ہے، دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 1.7 فیصد ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ کارپوریشن کے ملازمین کی پنشن کی ذمے داری وفاقی حکومت کی نہیں، جنرل الیکشن میں ایک سال توسیع کی کا کوئی بیان حکومت نے نہیں دیا، قرض کی وقت پر ادائیگی کی جائے گی۔
وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ آپ ٹھیکیدار لائیں جو 12 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کر دے، ہم ایف بی آر کی جگہ ان کو ٹیکس جمع کرنے کا ٹھیکہ دے دیں گے، آپ ایسا ٹھیکیدار دیں ہم ایک سال کے لیے ایف بی آر کو چھٹی پر بھیج دیں گے۔