سپریم کورٹ کے جسٹس جناب سردار طارق مسعود کھوسہ کی جانب سے پانامہ کیس کے حوالے سے جو ریمارکس سامنے آئے ہیں ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ پاناما کیس میں جو زیادتی ہوئی سپریم کورٹ میں عنقریب اس کا ازالہ ہوگا۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاناما میں 436افراد کے نام تھے لیکن صرف ایک ہی خاندان کو الگ کرکے کیس چلایا گیا ، پاناما کیس کچھ اور ہی معاملہ تھا ، سپریم کورٹ کے جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ وہ کچھ کہنا نہیں چاہتے لیکن ایسا کیا ہوا کہ ایک خاندان کے سوا تمام کیسز الگ کردیئے گئے ؟جسٹس طارق مسعود کھوسہ نے جماعت اسلامی کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کا مقصد صرف ایک ہی خاندان کا کیس چلانا تھا ؟ بلاشبہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کیونکہ سپریم کورٹ کاکام انصاف فراہم کرنا ہے اور کبھی فیصلوں میں غلطی ہو بھی گئی ہو تو ان پر نظر ثانی کرکے غلط فیصلوں کی تصحیح کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کے تین دفعہ کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تو پاناما کیس میں پاکستان کی تاریخ کی منفرد ترین سزادی گئی ، سزا بھی ایسی کہ وہ اپنے صاحبزادے کی کمپنی سے تنخواہ لے سکتے تھے لیکن انھوں نے لی نہیں ، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھیں تاحیات نااہل بھی کیا گیااور پارٹی کی صدارت سے بھی فارغ کردیا گیا اور ان سے سزا کے خلاف اپیل کا حق بھی لے لیا گیا ۔نواز شریف اُس وقت ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ تھے ،ایک اشارے پر عوام کو سڑکوں پر لاسکتے تھے اور بھی بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن انھوں نے سیاست کیلئے ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی ،وہ پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا لیکن ریاست سمیت کسی نے ان کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ، وہ کینسر میں مبتلا اپنی اہلیہ کو علاج کیلئےبرطانیہ لےگئے لیکن انھیں بستر مرگ پر موجود اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور کیا گیا، پہلے انھیں جیل میں ڈالا گیا لیکن جب وہاں بھی ان کی آوازکو نہ دبایا جاسکا تو ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کو بھی والد کے ساتھ جیل میں قید کردیا گیا ،حد تو یہ کی گئی کہ انھیں ان کی برطانیہ میں بستر مرگ پرموجود اہلیہ سے فون پر بات کرنے کی بھی اجازت نہ دی گئی ،حتی ٰ کہ اس وقت کے وزیر اعظم کو یہ رپورٹیں بھی جاتی رہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز جیل میں کیا کھاتے ہیں ، کس سے ملتے ہیں اوراسی دوران میاں نواز شریف کی اہلیہ وفات پاگئیں ان کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت بھی مشکل سے ملی ،صرف ان دو قائدین کے ساتھ ہی نہیں بلکہ عمران خان کی حکومت میں میاں شہباز شریف ، حمزہ شہباز ،شاہد خاقان عباسی ،احسن اقبال ،خواجہ آصف ، خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سمیت پوری ن لیگی قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا، ،موجودہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کا نہ صرف گھر نیلا م کردیا گیا ان کے اثاثے تک منجمد کردیئے گئے ،عمران خان اسحق ڈار کی گرفتاری کے اتنے خواہشمند تھے کہ انٹر پول کے ذریعے اسحق ڈار کو گرفتار کراکے پاکستان لانے کی کوششوں میں مصروف رہے ، عرفان صدیقی جیسے سینئر صحافی کو مضحکہ خیز الزام میں نہ صرف جیل میں ڈالا بلکہ سزائے موت کے قیدیوں کے ساتھ رکھا ، ان کی تذلیل کیلئےقلم والے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا، جب عمران خان کی جانب سے ن لیگ کو کچلنے کی مہم چلائی جارہی تھی تو مرحوم سینیٹر مشاہد اللہ خان پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکرکہا کرتے تھے کہ عمران خان جو ظلم تم کررہے ہو اس سے باز آجائو کیونکہ ہم تو تمہارا یہ ظلم برداشت کرلیں گے لیکن تم اور تمہارے یہ ارکان چند دن بھی برداشت نہیں کرپائیں گے ،بہرحال وقت گزر چکا ہے ، ن لیگ کی قیاد ت میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہے تحریک انصاف کے تمام اہم رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں ، عدلیہ میں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا احساس پیدا ہوچکا ہے ،امید ہے اسکا ازالہ بھی جلد ہوگا اور میاں نواز شریف کو بھی سیاست کیلئے پلیئنگ فیلڈ ملے گا اور پاکستان میں جمہوریت اور انصاف کا جو پودا کمزو ر ہوچکا تھا وہ پھر سے مضبوط ہوگا اور پاکستان پہلے سے بہتر اور تیز رفتاری سے ترقی کا سفر طے کرے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)