• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ 9مئی 2023ءسے جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان کا ’’سیاسی سرمایہ‘‘ ہی لٹ کر رہ گیا، وہاں وہ اس حد تک سیاسی طور پر تنہا ہو کر رہ گئے ہیں کہ ان کے سالہا سال کے ساتھی جیسے ان کو ’’جانتے پہچانتے ہی نہیں‘‘ کوئی سیاست سے تائب ہو رہا ہے اور کوئی کپتان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے تیار بیٹھا ہے میں نے اپنی 54سالہ صحافتی زندگی میں اس قدر ’’بزدل نہیں دیکھے جتنے پی ٹی آئی میں دیکھنے میں آئے۔ کچھ نے مزاحمت ضرور کی ہے لیکن وہ چھپے پھرتے ہیں اور کچھ زیر زمین چلے گئے ہیں اور ’’طاقت ور‘‘ لوگوں سے رابطہ میں ہیں۔ پی ٹی آئی چھوڑ کر جانیوالوں کے اعلانات میں کوئی خبریت نہیں رہی بلکہ خبر یہ ہے کون اب تک عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے؟ سر دست کچھ سر پھرے موجود ہیں جو ابھی تک عمران خان کا دم بھر ہیں یہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جنہیں ان کے کئے کی سزا ملنی ہے، ان کیلئے ’’معافی‘‘ کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں، انہوں نے عمران خان کے ساتھ ہی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اور کا رکن جو فوجی تنصیبات پر حملوں میں مطلوب ہیں ان کی مار دھاڑ پر مبنی فوٹیج ان کے خلاف چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے۔ اب بیشتر ’’سورما‘‘ زیر زمین چلے گئے ہیں، پولیس ان کی گرفتاریوں کیلئےچھاپے مار رہی ہے لیکن وہ گرفتار نہیں ہو پا رہے۔ ملک میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے۔ پی ٹی آئی کے 10، 12ہزار کارکنوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا ہےابھی تک مطلو ب رہنمائوں کو بوجوہ گرفتار نہیں جا سکا، اگر کسی بڑے لیڈر کو گرفتار کیا جاتا ہے تو ناقص پراسیکیوشن کی وجہ سے رہائی مل جاتی ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے عمران خان کا ’’کورٹ مارشل‘‘ کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن ابھی تک کسی بڑے لیڈر پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا بظاہر عمران خان اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا اگر دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پہلے سے زیادہ سخت ردعمل آئےگا۔ ایک طرف عدلیہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کی ضمانتیں لے کر ریلیف فراہم کر رہی ہےتو دوسری جانب انتظامیہ نئے کیسز بنا کر گرفتاریاں کر رہی ہے، اس وقت پی ٹی آئی پر کڑا وقت ہے۔ عمران خان کے ووٹ بینک کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ9مئی 2023کے بعد پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کس قدر متاثر ہوا ہے، فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے لیکن پی ٹی آئی کو چند دنوں میں چھوڑ کر جانے والوں کی وجہ سے ’’الیکٹیبلز ‘‘ کی کمی ہو گئی ہے، اگر ان کیلئے متبادل پلیٹ فارم مہیا کر دیا گیا تو وہ اس پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنا پسند کریں گے جس پر ان کو کامیابی کی ضمانت فراہم کی جائے گی۔ جب تک عمران خان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک ان کی پارٹی کے کچھ رہنما تمام تر مصائب برداشت کرتے ہوئے عمران کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے لیکن جوں ہی عمران خان کو نا اہل قرار دے کر پی ٹی آئی پر پابندی لگا دی گئی توان کی امید ختم ہو جائے گی، تاہم اس کے باوجود پی ٹی آئی کسی نہ کسی شکل میں قائم رہنے کا امکان ہے۔ عمران خان جن لوگوں کےدلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں ان کے دلوں سے فوری طور ان کو نکالنا مشکل ہو گا۔ ہاں، عمران خان اپنے دیرینہ احباب کی بے وفائی سے دلبرداشتہ ہو کر سیاست سے’’تائب‘‘ ہو جائیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، عمران کی جماعت کی 9مئی 2023ء کی ایک غلطی نے اُسے آسمان سے زمین پر دے مارا ہے۔ عمران خان نے اپنی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر شاہ محمود قریشی کو جانشین بنایا تھا شاہ محمود قریشی سے اڈیالہ جیل میں پی ٹی آئی کے کچھ ’’منحرفین ‘‘ نے ملاقات کی تھی، اس ملاقات کے بعد کوئی بات منظر عام پر نہیں آئی، ملاقات کرنیوالوں نے شاہ محمود قریشی کے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کے بارے میں کوئی بات نہیں کی البتہ جب شاہ محمود قریشی نے رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار نہ کرنے پر صحافیوں سے گفتگو میں بڑے طمطراق سے کہا کہ ’’میں نے انصاف کا جھنڈا پکڑ رکھا ہے، عمران خان سے ملاقات کے بعد آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں بات کروں گا‘‘ لیکن ان کی زمان پارک میں عمران خان سے ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ملاقات ناکام رہی، سیاسی تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ جن قوتوں نے شاہ محمود قریشی سے ملاقاتوں کی اجازت دی، انہوں نےان کے ذریعے عمران تک ’’مائنس ون‘‘ فارمولہ پہنچایا، جسے فی الحال عمران خان نے اسی طرح مسترد کر دیا جس طرح 2017ء میں نہ صرف نواز شریف کو سیاست سے آئوٹ کیا گیا بلکہ عمر بھر کیلئے نااہل بھی قرار دے دیا گیا۔ نواز شریف نےبھی ’’مائنس ون‘‘ فارمولہ قبول نہ کیا تھا، ملک میں ان کی جماعت موجود تھی لہٰذا انہیں لوگوں کے دلوں سے نہ نکا لاجا سکا، اب ایسی ہی صورت حال عمران کو درپیش ہے جو ان کی سیاسی غلطیوں سے پیدا ہوئی ہے عمران کے ساتھ عمر بھر رہنے کی قسمیں کھانے والوں نے اس طرح ان کا ساتھ چھوڑا ہے جیسے پت جھڑ میں درخت کے پتے جھڑ تے ہیں، راتوں رات سیاسی وفا داریاں تبدیل کرنے والے پرندے ’’کنگز پارٹی‘‘ استحکام پاکستان بنانے کیلئےجہانگیر ترین کے ڈیرے پر پناہ گزین ہو گئے۔ ایسا دکھائی دیتا ہےکہ آئندہ پانچ ماہ بعد عام انتخابات ہو جائیں گے، پی ٹی آئی کے ووٹ بینک پر چاروں طرف سے ’’ڈاکہ‘‘ ڈالنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے، اس بات کا قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں پی ٹی آئی دو تین دھڑوں میں منقسم ہو جائے گی، اس دوران سیاسی جماعتیں، اس کے حصے بخرے ہونے پر جو مال غنیمت ملے گا، اسے لوٹ کر لے جانے کی کوشش کریں گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین