• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریبا ایک دہائی سے ہمارے معاشرے کے عام افراد کے بھی رویّوں میں سختیاں نمایاں طور پر نظر آنے لگی ہیں۔ چور کو پکڑا تو بغیر کسی تحقیق کے اس پر تشدّد کرکے یا جلاکر مارڈالا،کسی پر کسی نے غلط یا صحیح الزام لگاکر خود ہی اس کی زندگی کا فیصلہ کرڈالا، کوئی ہجوم اٹھا اور کہیں بھی جا گُھسا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے سماجی اور سیاسی رویّوں میں انتہا پسندی کی مثالیں نئی نہیں ہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ پہلے وہ مثالیں بہت کم ملتی تھیں، تاہم اب تو آئے روز نِت نئے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔

پھر یہ کہ اب وہ طبقے اور شعبے بھی اِن کی لپیٹ میں آچکے ہیں جو پہلے ایسے رویّوں کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ اب ہمارا معاشرہ جن رویّوں کا اظہار کررہا ہے اس میں غصّہ ، نفرت،بے بسی ،احساسِ کمتری و برتری اور نفسیاتی مسائل گڈ مڈنظر آتے ہیں۔ ان کی وجوہات بہت سی ہیں،طرح طرح کے سماجی اور نفسیاتی دباؤ،خراب معاشی حالات ، امن و امن کی خراب صورت حال، سیاسی عدم استحکام ، حال کی طرح مستقبل بھی اچھا نظر نہ آنا وغیرہ۔

ہمارا معاشرہ اور کیتھارسس کی ضرورت

نفسیاتی امراض کا علاج کرنے والے مدتوں سے کیتھارسِس کے طریقِ علاج کو نفسیاتی الجھنوں، غصّے، ہیجان، یہاں تک کہ شدید ذہنی مرض کے لیے زود اثر قرار دیتے اور آج بھی معالجین اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کوئی مکمل طریقہ علاج تو نہیں، لیکن ہر علاج کا کہیں نہ کہیں جزو ضرور ہوتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کیتھارسس کا مطلب بھڑاس نکالنا ہے۔ انسان روز مرہ کے معمولات میں پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتا ہے، اکثر اسے ناکردہ گناہ کی پاداش میں سزا ہو جاتی ہے، بے وجہ ڈانٹ پڑتی ہے، ذلّت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام باتیں اس کی شخصیت پر دو طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔

کم زور قوّتِ ارادی والا فرد شدید پژمردگی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر اُس میں حد درجہ غصہ اور جذباتی ہیجان ہو تواُس کی حالت جنونی شخص جیسی ہو جاتی ہےجو بلاوجہ توڑ پھوڑ کرتا پھرتا ہے اور ہر ایسی شئے کو جس پر اُس کا بس چلے، برباد کردیتا ہے۔ کم زور کو گالیاں دے گا، تھپڑ مارے گا اور بلاوجہ زدو کوب کرے گا۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ جس ظلم اور زیادتی کا شکار ہوتا ہے، اُس کے خلاف آواز اُٹھانے اور اپنے اندر اُبلتے ہوئےجذبات کو زبان پر لانے کا اُسے موقع نہیں ملتا، یہاں تک کہ یہی جذبات ایک دن آتش فشاں بن کر اُبل پڑتے ہیں۔

یہی آتش فشاں انسانوں میں دو متضاد رویّے پیدا کرتا ہے، ایک خودکشی (Suicide) کا رجحان اور دوسرا قتل (Homicide) کرنے کا۔ خودکشی کرنے والا بھی اپنی ذات کی حد تک اعتماد کی آخری منزل پر ہوتا ہے ۔ اُسے یقین ہو جاتا ہے کہ اب اس دنیا میں کوئی اُس کی بات نہیں سنے گا؛ چناں چہ اب یہاں زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ موت کو گلے لگانا انتہائی مشکل کام ہے، لیکن وہ اپنی نفسیات کے زیر اثر یہ کام کر گزرتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی جان لینا، قتل کرنا اور بار بار قتل کرنا بھی اعتماد کی آخری منزل ہے۔ ایسا شخص بھی اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ اُس کے غصّے کی آگ اسی وقت ٹھنڈی ہوگی اور اسے چین اُسی وقت نصیب ہوگا جب وہ کسی کی گردن اُڑادے گا، کسی کا گھر اُجاڑدے یا پھر کسی کی عمارت، گھر یا کاروبار کو تباہ کردے گا۔

یہ دونوں رویّے بنیادی طور پر ایک ہی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ ایسے شخص کو اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے، اپنا دُکھ، درد بیان کرنے کے لیے کوئی شخص، کوئی محفل یا کوئی معالج میسّر نہیں ہوتا۔ اسی لیےماہرینِ نفسیات سب سے پہلے اس غصّے، ہیجان اور اضطراب کوباہر نکالنے کے لیے کیتھارسس کے عمل کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ عمل بالکل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے بہتے پانی کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہوجس کی وجہ سے وہاں پانی جمع ہونے لگا ہو۔یہ رکاوٹ ہٹادینے کا عمل کیتھارسس ہوتا ہے، تا کہ پانی مزید جمع نہ ہو، ورنہ وہ کناروں سے بہہ نکلے گا۔ 

ماہرینِ نفسیات مریض کے ذہن سے ایسا بوجھ فوراً ہلکا کرتے ہیں جس نے اُس کا جینا عـذاب کیا ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں مریض بڑی حد تک پُرسکون ہو جاتا ہے اور معالج کی بات سننے لگتا ہے۔ ایسا ہی نفسیاتی رجحان اور رویّہ قوموں، قبیلوں اور گروہوں کا بھی ہوتا ہے۔ انسانوں کے ذاتی دکھ، کرب اور المیے مل کر کسی گروہ، قبیلے اور قوم کا مزاج ترتیب دیتے ہیں۔ یہ مزاج مختلف مواقعے پر مختلف اشکال میں اپنا اظہار کرتا ہے۔

نیوروسس

ہم آج کل جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ڈپریشن ، خوف،اضمحلال اور بے بسی کا علامات کا مُرقّع ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ ذہنی بیماری ہوتی ہے جسے کبھیNeurosis کہا جاتا تھا۔ تاہم کچھ عرصے سے اسے اینگزائٹی یا خوف واضطراب، ذہنی خلل یا بے چینی کا نام دیا جانے لگا ہے۔ اس بارے میں تحقیق بتاتی ہے کہ ذہنی خلل بہت سی مختلف کیفیات میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو نگلنے میں بہت مشکل ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے گلے میں گلٹی نما کوئی چیز ہے۔ بعض افراد ہمیشہ اُداسی اور پژمُردگی کی کیفیت میں رہتے ہیں، حالاں کہ ان کے پاس اُداسی کی کوئی وجہ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی حقیقی صدمے کا شکار ہوتے ہیں۔ 

تب بھی وہ ہراساں رہتے ہیں اور ایسی فکر و پریشانیوں میں گہرے رہتے ہیں جن کا کوئی وجود یا وجہ نہیں ہوتی۔ خوف اور اندیشے کی یہ کیفیت ایک ذہنی بیماری ہے۔ اس کے شکار مریضوں کو بس یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ اُن کے ساتھ کوئی غیر معمولی بات ہے تاہم وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ دراصل ان کا ایک دماغی خلل ہے۔ اُن میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ مسلسل محسوس ہونے والی ذہنی ایذا یا الجھن پر خود قابو پا سکیں۔

ماہرین کے مطابق دور حاضر میں شاید ہی کوئی دوسرا مرض اتنی تیزی سے پھیل رہا ہوجتنا کہ ذہنی خلل یا نقص۔ مزید یہ کہ دماغی نقص اُن چار اہم ترین وجوہات میں شامل ہے، جن کے سبب لوگ بہت سے کاموں کے لیے غیر موزوں یا نا اہل قرار دے دیے جاتے ہیں، نیز قبل از وقت ریٹائرہونے والے تین افراد میں سے کم از کم ایک فرد ذہنی خلل کا شکار ہوتا ہے اور یہی اس کی ریٹائرمنٹ کی وجہ بنتی ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ Neurosisکے عارضے کی عمومی یاکُلّی وجوہات نہیں ہوتیں، تاہم بچپن کے کسی ناخوش گوار واقعے یا تجربے کے نقوش یا کوئی صدمہ جولاشعور میں کہیں چھپا ہوتاہے اور جن نفسیاتی زخموں کو بعض افراد بھلا نہیں پاتے، وہ آہستہ آہستہ ذہنی خلل اور گونا گوں دماغی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

شک ، وہم اور خوف کی نفسیات

شک ، وہم اور خوف کی خطرناک انسانی نفسیات کے نتیجے میں انسان کبھی جذبۂ رقابت تو کبھی حسد کا شکار ہوجاتاہے۔منفی فکرکے سبب انسان کی طبیعت قنوطیت ومایوسی توکبھی خوف اوروہم جیسے نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتی ہے۔ماہر نفسیات نے اس طرح کے شدید احساسات (Complexes) کو ذہنی یانفسیاتی بیماریوں سے تعبیر کیا ہے۔ 

اس طر ح کے کمپلیکسز میں مبتلا افراد کی شخصیت معاشرے میں بری طرح متأثر ہوکر رہ جاتی ہے۔ کوئی انہیں مغرور کہتا ہے تو کوئی خبطی۔ بہ ہرحال ان کے رویّے کے سبب معاشرے میں ان کے متعلق جورائے قائم ہوتی ہے وہ ان کی شخصیت کو مجروح کردیتی ہے جس کا ان کو احساس تک نہیں ہوتا۔

اس طرح کے نفسیاتی مریضوں کے ساتھ بڑی مشکل یہ ہے کہ انہیں اپنے مرض کا احساس تک نہیں ہوتا۔ نفسیاتی مریض اپنی منفی سوچ اورفکر کے سبب، جواُن کے ذہن میں سرایت کرچکی ہوتی ہے ،غیر معمولی عادتوں کا شکار ہوکر خود کو ہمیشہ حق بہ جانب سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے ذہنی مریضوں کو ماہر نفسیات نے او ۔سی ۔ڈی یعنی (Obsessive Compulsive disorder) سے تعبیر کیا ہے۔

اس میں مریض کسی شئے یا عمل کے بارے میں بار بار سوچتا ہے یا کسی عمل کو بار بار دہراتا ہے ۔جو افراد اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے ذہن میں جو خیال آتا ہے وہ اُس پر فوراً عمل کرنے لگتے ہیں ،لیکن انہیں خود اپنے اس غیر معمولی رویّےکا احساس نہیں ہوتا۔ عام زبا ن میں اس عمل کو خبط جبرانی کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے نفسیاتی مریض کبھی کبھی مختلف قسم کے وہم اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہوکر خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ان کی عادتیں یک سر بدل جاتی ہیں، مثلاً کوئی شخص بار بار ہاتھ دھوکر بھی مطمئن نہیں ہوتا، اسے کہیں نہ کہیں اس بات کا احساس وگمان رہتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں نجاست لگی رہ گئی ہے اور اس کا ہاتھ صاف نہیں ہوا ہے۔ اس لیے وہ اپنے وہم کے سبب ہاتھ کو بار بار دھونے کی عادت بنالیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اس عادت کے سبب بہت سے نقصانات بھی کر بیٹھتا ہے۔ درحقیقت ایسے نفسیات کے حامل افراد کہیں نہ کہیں اپنی خود اعتمادی کھودیتے ہیں جو انہیں یہ عمل کرنے پر بار بار مجبور کرتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی انجانہ خوف بھی انہیں ستاتا ہے جس کے سبب وہ ایسا کرتے ہیں۔ ان کے اس نفسیاتی رویّے کا تعلق ان کی اس ذہنی اُپج سے ہوتا ہے جوان کے ذہن میں پہلے سے سرایت کرچکی ہوتی ہے۔

ہنسنے، مسکرانے سے ذہنی الجھنوں میں کمی

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ہنسنا، مسکرانا جسم اور روح دونوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح خاص قسم کی جسمانی حرکت انسان کو نفسیاتی طور پر اچھا یا بُرا محسوس ہونےکا موجب بنتی ہے۔ ماہرین کے مطابق جسم اور روح ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی حالت ناساز ہو تو دوسرا ٹھیک نہیں رہ سکتا۔

جھکے ہوئے شانے، طبعیت کی ناسازی یا خراب مُوڈ کی علامت ہوتے ہیں۔ اسی طرح ذہنی یا نفسیاتی الجھنیں اکثر معدے کی خرابی کا سبب بنتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں کوئی چیز یا کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی ہے اور ہم اُس کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے تو، ہمارے جسم کا کوئی نا کوئی حصہ اس کا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً یا تو معدے کا درد یا نزلے کی سی کیفیت نظر آنے لگتی ہے۔ اسی طرح شدید خوف کی کیفیت میں اکثر لوگوں کو سانس کی تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق جب بھی ہم کوئی عمل شروع کرتے ہیں تواس کا اثر ہمارے جسم اور مزاج پر پڑتا ہے۔ جب ہم کسی عمل کا ارادہ کرتے ہے تو ہمارا جسم ذہن کوایک خاص ہارمون بھیجتا ہے، جو جسمانی حرکت میں تیزی پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح درد بھی انسانی جسم یا کسی عضو کی متحرک یا ساکن حالت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کا اندازہ اُس کے چہرے پر پائے جانے والے تاثر سے ہوتا ہے۔

جرمنی کی Deister Weser Clinic کے ماہر نفسیات اور ڈائریکٹر ڈیٹر پوئٹس کہتے ہیں کہ یہ ایک نہایت آسان تجربہ ہے۔ آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور بھرپور طریقے سے مسکرائیں۔ بلکہ بہتر ہوگا کہ آپ مُنہ کھول کر ہنسیں تاکہ آپ کے دانت نظر آئیں۔ چند لمحوں میں آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا موڈ اچھا ہو گیا ہے اور آپ کی طبعیت پر اس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ مسکرانا یا ہنسنا جسم اور روح دونوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح خاص قسم کی جسمانی حرکت انسان کو نفسیاتی طور پر اچھا یا بُرا محسوس ہونےکا موجب بنتی ہے۔ مثلاً شانے جھکائے اور سر کو نیچے کیے ہوئے رہنا، ذہنی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ اس سے احساس خود اعتمادی میں کمی آتی ہے۔ ایک جرمن خاتون ماہرِ نفسیات، ڈورس وولف نےاس بارے میں ایک کتاب تصنیف کی ہے، اُس کا انگریزی ترجمہUnderstand Feelings conquer Problemsکے عنوان سے شایع ہوا ہے۔

اس کتاب میں ڈورس وولف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جسم اور روح ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ توازن قایم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ انسان اپنے موڈ یا طبعیت کو بہتر بنانے کے لیے اور اچھا محسوس کرنے کے لیے اندازِ نشست و برخاست سے لے کر چلنے پھرنے کے انداز تک کی مدد لے سکتا ہے۔

ایک اور جرمن ماہرِ نفسیات، میشائیل شلبرگ کا کہنا ہے کہ طویل المیعاد روحانی یا ذہنی خوشی اور تروتازگی کے احساس کے لیے سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جسم کی کوئی نا کوئی سرگرمی جاری رکھی جائے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق ذہنی دباؤ کے شکار مریضوں کے علاج میں طبیبوں کو ادویات سے زیادہ جسمانی سرگرمیوں اور ورزش وغیرہ کا استعمال کرنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چہل قدمی تیراکی، سائیکل سواری اور دیگر جسمانی حرکات بہت سے ذہنی امراض کا بہترین علاج ثابت ہوتی ہے۔

لیکن ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ملک میں ماہرینِ نفسیات کی شدید کمی ہے، نفسیاتی علاج کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے مساوی ہے،ہنسنے ،مسکرانےکے مواقعے بہت کم رہ گئے ہیں، خراب اقتصادی حالات اور شدید منہگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ ایسے میں لوگ ذہنی مریض نہ یں بنیں گے تو کیا کریں گے؟