آج پاکستان میں معیشت کی بدحالی کا ذمہ دار اسحاق ڈار کو سمجھا جارہا ہے۔مفتاح اسماعیل سمیت مسلم لیگ ن کے ناقد ین کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار بروقت فیصلے کرتے تو شاید معیشت اس زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی۔اسحاق ڈار کے فیصلوں پر تنقید کرنے والوں کی رائے ہے کہ مسٹر ڈار کو چھ مہینے پہلے ہی آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہئیں تھے۔جب کہ اسحاق ڈار پر تنقید کرنے والے اس بات پر حیران ہیں کہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر اسحاق ڈار نے اربوں ڈالر بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کیسے کردیں؟ موڈیز،بلومبرگ ،آئی ایم ایف جس پاکستان کو جنوری 2023ءمیں ڈیفالٹ کرارہے تھے،اس پاکستان نے تو آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر اپنا بجٹ بھی پیش کردیا ہے۔کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ ڈرپوک آدمی ہیں،نیب اور انتقامی کارروائیوں کا سامنے کرنے سے گھبراتے ہیں۔لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔
اسحاق ڈار کا شمار پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے قابل ترین معاشی ماہرین میں ہوتا ہے۔دنیا بھر میں ایسے ٹیکنو کریٹس کی قدر کی جاتی اور نیب یا فوجداری کارروائی تو دور کی بات ،ایسے بڑے دماغ کو سول عدالت کا نوٹس بھی نہیں بھیجا جاتا۔ریاست ایسے بڑے دماغوں سے کام لیتی ہے نہ کہ انہیں انتقامی کارروائیوں اور متنازع کیسز میں پھنساتی اور الجھاتی ہے۔
نیب نے جب اسحاق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کی انکوائری شروع کی تو اس کیلئے چند معلومات حیران کن تھیں۔مشرف آمریت میں اسحاق ڈاردبئی حکومت کے معاشی ایڈوائزر کے طور پر کام کرتے رہے۔اسحاق ڈار کو دبئی حکومت نے آفیشل طور پر جو تنخواہیں جاری کیں۔ان کا جب اسحاق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے الزام سے تقابلی جائزہ لیا گیا تو سامنے آیا کہ اسحاق ڈار کی چار سال کی تنخواہ الزام شدہ اثاثوں سےزیادہ تھی۔ نیب کو دبئی حکومت سے ان تنخواہوں کی سیلری سلپ کی تصدیق کے بعد انکوائری کو بند کرنا پڑا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار کی اپنی کوئی قابلیت نہیں بلکہ میاں نوازشریف کے سمدھی ہونا ہی ان کا اصل تعارف ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ میاں نوازشریف سے رشتہ داری کے بعد اسحاق ڈار کو پاکستان کی سیاست میں اعلیٰ مقام ملا۔مگر حقائق جان کر جینا چاہئے اور حقیقت یہ ہے کہ اسحاق ڈار اپنی قابلیت کے بل بوتے پر لیبیا کے حکمران معمر قذافی کے بھی معاشی ایڈوائزر رہے اور یہ اس وقت کی بات ہے کہ شاید جب پاکستان میں کینڈی اور بسکٹ بنانے کی فیکٹریاں بھی نہیں لگی تھیں۔اسحاق ڈار جیسے لوگ اگر حکومت میں نہ ہوں تو دنیا کے بہترین معاشی ادارے انہیں کروڑوں روپے مہینے تنخواہ پر صرف اس لئے رکھ لیتے ہیں کہ ایک بڑا دماغ ہمارے مقابلے کے کسی ادارے میں جاکر کام کرنا شروع نہ کردے اور یوں گھر بیٹھے تنخواہ بھجواتے رہتے ہیں اور مہینے میں ایک مرتبہ کسی اہم ایشو پر مشورہ لے لیتے ہیں یا پھرخصوصی جہاز کے ذریعے بورڈ میٹنگ میں بلاکر رائے لے لیتے ہیں۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے بڑے ادارے اسحاق ڈار جیسے لوگوں کو اپنے پینل پر رکھتے ہیں۔
1999ءمیں بل کلنٹن کے ساتھ اسحاق ڈار کی بحث کے مشاہد حسین سید گواہ ہیں۔جب میاں نوازشریف نے مشاہد حسین سید کو کہا کہ میڈیا کو ہماری بل کلنٹن کے ساتھ ہونے والی میٹنگ پر بریف کردیں تو مشاہد حسین سید نے مسکراتے ہوئے میڈیا کو صرف اتنا کہا کہ بل کلنٹن نے اسحاق ڈار کی سی وی مانگ لی ہے۔لیکن من حیث القوم ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے قابل لوگوں کی قدر نہیں کرتے،ہم پروپیگنڈا اور گالی دینے والے کو پسند کرتے ہیں۔
آج اگر پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچا ہے تو اس کا کریڈٹ صرف ایک شخص کو جاتا ہے اور اس کا نام اسحاق ڈار ہے۔آج آئی ایم ایف آپ سے بات کرنا چاہتا ہے مگر اندر ہی اندر شرمندہ ہے کہ تمام بیرونی دنیا کو ہم بتارہے تھے کہ پاکستان کا ڈیفالٹ ہونا بس چند دنوں کی بات ہے اور آج آٹھ ماہ سے زائد ہوگئے ہیں ایسا نہیں ہوا۔آج اسحاق ڈار نے جس طرح کے انتظامات کئے ہیں ،اب پاکستان کا ڈیفالٹ ہونا ایک خواب ہی رہے گا،لیکن اس کیلئے اشد ضروری ہے کہ اسحاق ڈار کو موثر اور جاندار پالیسیاں بنانے کیلئے مزید ایک سال کا وقت دیا جائے۔ تاکہ ان کی منصوبہ بندی اور پالیسیوں میں تسلسل قائم رہ سکے اور آئندہ انتخابات کے بعد بھی پانچ سال وزیر خزانہ رہ کر ہی اسحاق ڈار پاکستان کی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر ڈال سکتے ہیں۔قومی سلامتی کے اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو یاد رکھنا چاہئے کہ آج پاکستان کی معیشت کو اسحاق ڈار نے ایک منتخب سیاسی حکومت کی سپورٹ سے تھاما ہوا ہے۔اگر معیشت کی یہ رسی اسحاق ڈار کے ہاتھ سے چھوٹی یا کسی نے ان کے ہاتھ سے اس رسی کوزبردستی چھڑوایاتو پھر اس رسی کا سرا کسی کے ہاتھ نہیں آئے گا اور پھر اس رسی کی کھینچ معیشت نہیں بلکہ سب کچھ بہا کر لے جائیگی۔اسلئے ضروری ہے کہ میڈیا، عدالتیں،دفاعی ادارے،سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ معیشت کھڑی کرنے کے سفر میں پوری دیانتداری کے ساتھ اسحاق ڈار کو سپورٹ کریں ۔ ان شااللّٰہ! اس سپورٹ سے جلد معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)