کل 21جون شہید بینظیر بھٹو کی سالگرہ کا دن ہے، مگر ہم اس خوشی کے دن بھی ان کی المناک موت کا غم اپنے دلوں میں لئے ایک زندہ لاش ہیں کیوں کہ ہمارے لئےوہ مینہ تھیں وہ بارش تھیں، وہ خوشبو تھیں، وہ ساغر تھیں، وہ بادل تھیں، وہ رانی تھیں وہ دل کی دھڑکن تھیں، مگر 27دسمبر کی کالی رات کوہم سے ہماری بیٹی، بہن اور ہمارا مستقبل چھین لیا گیا، دیکھا جائے تو شہید بینظیر بھٹو کا قتل ایک وحشیانہ جرم ہے ،جس جرم سے ایک ایسا معاشرہ کھل کر سامنے آیا جس میں اپنے ہیروں کی قدر کی طاقت نہیں۔ جس کے سامنے اس کے محبوب رہنما قتل کردیے جائیں اور وہ معاشرہ کچھ نہ کرسکے۔ شہید بینظیربھٹو نے 1977ءسے یعنی اپنی نوجوانی سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا. وہ ایک متحرک اور نوجوان چہرہ تھیں جو ہارورڈ اور آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنےتابناک مستقبل کی منتظر تھیں نہ جانے اس بینظیر بھٹو نے آکسفورڈمیں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی آنکھوں میں کیا کیاخواب سجائے ہوں گے۔ لیکن قسمت نے اسے کہیں سے کہیں لاکھڑا کیا۔ یقینی طور پر انہیں اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کے لئے خود میں طاقت اور صلاحیتیں نظر آتی تھیں، وہ کوئی عام دماغ نہ تھا، وہ قلندر صفت خاتون تھیں، جس کے دماغ میں بس ایک دھن سوار تھی کہ پاکستان کیسے ترقی کرے اور پاکستان کے محنت کش کو اس کابڑا مقام کیسے حاصل ہو۔ وہ صرف ایک لڑکی نہیں تھیں وہ سابق پاکستانی سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں جنہوں نے 1971ءسے 1973ء تک پاکستان کے صدر اور 1973ءسے 1977ءتک وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ایسے حالات میں وزیر اعظم رہے جب ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا، شہید بینظیربھٹو نے وہ حالات بھی دیکھے تھے لہذا انھیں اپنے والد کی ہمت اور جرات ورثے میں ملی تھی۔ اور یہ ہمت اور جرات ہی تھی کہ جس نے بینظیربھٹو میں ایک لازوال سیاسی دور اندیشی اور قیادت کی صلاحیت بھر دی، جس کی وجہ سے پاکستان کے لاکھوں لوگ ایک آمر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ اگر شہید بینظیربھٹو جیالوں کی قیادت نہ کر رہی ہوتیں تو یہ ممکن ہی نہ تھا ۔وہ نہ صرف اپنے پاکستانی ساتھیوں میں ، بلکہ امریکی اور برطانوی طلباء میں بھی اپنی سوچ میں ممتاز تھیں ,گریجویشن سے پہلے،شہید بی بی کو آکسفورڈ یونین کی قیادت کا شرف حاصل ہوا پھر وہ معاشرے کی سربراہی کرنے والی پہلی ایشین خاتون بن گئیں، شہید بی بی کی موت اسلامی دنیا کے لئے ایک حقیقی نقصان تھا ، انہوں نے لوگوں کو خواتین پر تشدد کرنے کی مذمت کرنے اور امتیازی سلوک اور خواتین کو کسی بھی طرح حقیر سمجھنے کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اپنے دور حکومت میں ایسے قوانین بنائے جس سے پاکستان جیسے معاشرے میں خواتین کو سیاسی طاقت کے ساتھ ساتھ معاشی طاقت بھی ملی۔ شہید بینظیربھٹو کی سیاسی تاریخ کے بارے میں بات کرنے کے لئے ایک طویل مضمون کی ضرورت ہوگی تاکہ ان کی کامیابیوں ، ناکامیوں ، مایوسیوں اور فتوحات کو بیان کیا جاسکے جس کے لئے ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں گے کیوں کہ وہ ایک دلکش انوکھا کردار تھیں، جس کی خوبیوں کو لکھنا یا تحریر کرنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں، وہ پختہ یقین رکھتی تھیں کہ پاکستان میں ترقی کی صلاحیت ہے اور انہیں کامل یقین تھا کہ پاکستان ایک نہ ایک دن بڑی معیشت بن کر ابھرے گا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہید بینظیر بھٹو صرف ایک فعال سیاسی شخصیت نہیں تھیں بلکہ وہ ایک بیوی اور ایک ماں بھی تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کی تربیت کی اور اپنی ذاتی زندگی کو اپنی سیاسی زندگی پر کبھی حاوی نہ ہونے دیا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب ماں تھیں،جنہوں نے بلاول بھٹو زرداری، بختاور بھٹو زرداری،آصفہ بھٹو زرداری کی ایسی تربیت کی ہے کہ آج بی بی شہید کے ناقدین بھی ان بچوں کی سیاسی اور سماجی صلاحیتوں پر شاباش دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ بہت سی خواتین کے دلوں کے قریب تھیں کیونکہ وہ ان کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر خاندانی زندگی ، پاکستان کے حالات ، نوجوانوں وغیرہ کے حوالے سے بات کرتی تھیں۔ شہید بینظیر بھٹو شہید ہوگئیں مگر آج جو خواتین سیاست میں ابھر رہی ہیں یہ شہید بینظیربھٹو کی شہادت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے، ورنہ ان سے پہلے مسلم ممالک میں ایک عورت کا اقتدار یا سیاست میں آنا نا ممکن تھا، آج دنیا بھر کی مسلم خواتین سیاست اور اپنے اپنے ملک میں ہر شعبہ زندگی میں کام کرتی نظر آرہی ہیں ، مسلم ممالک کی عورتوں کی اس کامیابی کا سہرا صرف اور صرف شہید بینظیر بھٹو کے سر جاتا ہے۔ دھرتی کی بیٹی تجھے سلام، شہید بی بی تجھے سلام۔