یونان کی سمندری حدود میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کے ساتھ ہی سیکڑوں افراد کے سہانے خواب بھی سمندر بُرد ہوگئے۔ جانے کِس کِس نے کیا کیا خواب بُنے ہوں گےاور اس سفر میں کیسی کیسی اذیتیں برداشت کی ہوں گی۔ اب حکومت سے لے کر عام آدمی تک اس سانحے کا سوگ منارہا ہے جس میں اب تک کی اطلاع کے مطابق ایک سو چار پاکستانیوں کے جان سے ہاتھ دھونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔
پہلے سب سوئے ہوئے تھے
اب انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹس دھڑا دھڑ پکڑے جارہے ہیں اورحکّام گہری نیند سے بے دار ہوگئے ہیں، لیکن جب یہی لوگ دھڑلّے سے ملک بھر میں اپنا نیٹ ورک کام یابی سے چلارہے تھے توکوئی ان سے پوچھنے والا نہیں تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ حالاں کہ انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں برسوں سے ملک میں انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رحجان کے بارے میں خبردار کرتی آرہی ہیں، لیکن چند یوم قبل تک کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی تھی۔
انسانی اسمگلرز سیاسی اور مالی اثر و رسوخ کی وجہ سے کھلم کھلالوگوں کی جانوں سے کھیلتے چلے آرہے ہیں۔ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اور بد عنوانی ان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ ایسے لوگوں کابا آسانی شکارکررہے ہیں جو ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور مفلسی کے شکنجے سے بچنے کے لیے اپنی جان اور مال داؤپر لگانے کو تیار ہیں۔
بد تر اقتصادی حالات اور ذرایع معاش بہت کم رہ جانے کی وجہ سے چند برسوں سے بہت سے ہم وطن بیرونِ ملک ہجرت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب دن بھر محنت، مشقّت کرنے کے باوجودوہ اپنا اور اہلِ خانہ کا پیٹ نہیں بھرسکتے تو کیوں نہ کہیں اور جاکر قسمت آزمائیں۔
ایسے میں انہیں انسانی اسمگلرز یورپ اور امریکا پہنچانے کے خواب دکھاتے ہیں اور وہاں پُر تعیّش زندگی گزارنے کا جھانسہ دیتے ہیں۔ ان کے جھانسے میں آکر ہمارے سادہ لوح افراد مال کے ساتھ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں جاگنا اور زندگی بہتر بنانے کی آرزو لیے غیر قانونی طورپر دیارِ غیر جانے کی کوشش کرنے والوں کی جانوں کا ماتم کرنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر کچھ کرنا ہوگا۔
ترکِ وطن کی تاریخ پرانی
حقیقت یہ ہے کہ مختلف وجوہ کے تحت ترکِ وطن کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہر خطّے اور ہر زبان میں اس بارے میں قصّے، کہانیاں اور اشعار موجود ہیں۔ پہلے نقل و حمل کے ذرایع محدود اور سُست تھے، لہٰذا یہ عمل سُست روی کے ساتھ ہوتا تھا، لیکن سائنس کی ترقی نے ترکِ وطن کے تیز رفتار عمل کے لیے راہیں کھول دی ہیں۔ اسی سائنسی ترقی کی وجہ سے معاشرے میں بہت سے ایسے مسائل نے جنم لیا ہے اور ایسے مواقع پیدا ہوئے ہیں کہ لوگ بڑی تعداد میں ترک وطن کرنے لگے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے گلوبل کمیشن آن انٹرنیشنل مائیگریشن کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ دنیا بھر میں تارکینِ وطن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ایک جانب یہ مسئلہ پے چیدہ ہوتا جارہا ہے اور دوسری جانب اس عمل سے بہت سے سودمند امکانات بھی جنم لے رہے ہیں۔
اس صورت حال کا جائزہ لینے اور اس ضمن میں اقدامات کرنے کی غرض سے دسمبر2003ء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی ہدایت پر گلوبل کمیشن آن انٹرنیشنل مائیگریشن قائم کیا گیا تھا۔ انیس ممالک سے عالمی سطح کا تجربہ رکھنے والے مختلف شعبوں کے اعلیٰ سطح کے ماہرین کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ ممالک اور مسئلے سے متعلق کرداروں کے درمیان اس معاملے پر مباحث کو فروغ دیں، تارکین کے ضمن میں موجود پالیسیز میں موجود خلا کا جائزہ لیں اور ترک وطن اور دیگر عالمی مسائل کے درمیان باہمی تعلق کا تجزیہ کریں اور مناسب تجاویز کے ساتھ رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، حکومتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو پیش کریں۔ چناں چہ ایسا ہی کیا گیا اور کمیشن کی رپورٹ افادۂ عام کے لیے جاری کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال 18 دسمبر کو تارکین وطن کا عالمی یوم بھی منایا جاتا ہے۔
فلسفے بدل گئے
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف وجوہ کی بناء پر لوگوں نے ترک وطن کیا۔ ڈیڑھ دو سو برس قبل تک اس کی بنیادی وجوہ جنگیں، تنازعات اور قحط وغیرہ تھیں۔ لیکن عالم گیریت کے عمل نے دنیا کے بہت سے فلسفے تبدیل کردیے ہیں۔ آج مختلف خِطّوں کی ریاستیں، معاشرے، معیشتیں اور ثقافتیں تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں اور اُن کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز نے سرمائے، سامان، خدمات،اطلاعات اور خیالات کی ایک سے دوسری جگہ سرعت سے منتقلی ممکن بنادی ہے۔
اسی طرح عالمی اقتصادیات کا دائرہ تیزی سے وسیع ہورہا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے لیے بہتر زندگی گزارنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ تاہم، دوسری جانب عالمی سطح پر یہ بھی تسلیم کیا جارہا ہے کہ عالم گیریت کے دنیا بھر میں اثرات یک ساں طریقے سے مرتب نہیں ہو رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں لوگوں کے معیارات زندگی میں اور انسانی جانوں کے تحفظ کی سطح میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے فرق نے ترکِ وطن کے عمل کا دائرہ وسیع اور اس کے لیے مواقع میں اضافہ کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارۂ برائے آبادی کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں 2005ء تک تارکین وطن کی تعداد بیس کروڑ تک جا پہنچی تھی جو 1980ء کے مقابلے میں دگنی تھی۔
آج تارکین وطن دنیا کے ہر خطّے میں موجود ہیں۔ لیکن ترکِ وطن کا کبھی بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تارکین وطن کی مشکلات ختم یا کم ہوگئی ہیں۔ کیوں کہ ترکِ وطن خواہ کسی بھی وجہ سے کیا جائے، بہت سے نفسیاتی، جسمانی، جذباتی، روحانی، سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ چناں چہ خواہش، جبر یا ضرورت کے تحت گھر بار، علاقہ اور وطن چھوڑ کر کہیں اور جانے والوں کے لیے زندگی کچھ زیادہ آسان نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں بعض افراد کو مادی آسودگی نصیب ہوجاتی ہو، لیکن روحانی آسودگی حاصل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر یہ امکان دوسری جانب برقرار رہتا ہے کہ مادّی آسودگی بھی ہر تارکِ وطن کے حصّے میں نہ آئے۔
پُرآسائش زندگی کی خواہش
پرانے زمانے کے لوگ پُرکھوں کے وطن کی مٹی اور اپنی جائے پیدائش کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کے لیے اپنے فوت شدہ بزرگوں کی ہڈیاں چھوڑ کر کسی اور علاقے یا دیس میں جابسنا بہت مشکل امر ہوتا تھا، لیکن زمانے کی گردش نے بہت سی روایات ختم کرکے نئی روایات کو جنم دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مادّہ پرستی قرار دی جاتی ہے۔ آج کا انسان مادّی ترقی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اس کا فلسفہ یہ ہے کہ پُرکھوں کی ہڈیاں اور ان کی روایات سے جُڑے رہ کر اس کا پیٹ نہیں بھر سکتا اور وہ پُرآسائش زندگی نہیں گزار سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ترکِ وطن کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان سے ترکِ وطن کرکے کہیں اور جانے والوں ہی کو لے لیں۔ کئی برس قبل کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تقریباً بتیس لاکھ پاکستانی قانونی طور سے اور پینتیس ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ لیکن آزاد ذرائع یہ تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کوئی بھی انسان، حتیٰ کہ جانور بھی اپنا آشیانہ آسانی سے نہیں چھوڑتا، لیکن اسے کیا کہیے کہ بعض اوقات روشن مستقبل کی اُمّید یا مجبوریاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ لوگ ترکِ وطن پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ترک وطن کا پہلا نشانہ رشتے دار اور دوست احباب بنتے ہیں کیوں کہ اس عمل کے نتیجے میں ان سے بچھڑنے کے جاں گسل لمحات آجاتے ہیں، مگر یہ خواہشات اور مجبوریاں ہیں، جو دنیا کی کل آبادی کے تین فی صد حصّے یا پندرہ کروڑ افراد کو ان کے وطنِ مالوف سے دور کسی اور ملک میں رہنے پر مجبورکیے ہوئے ہیں۔
محنت کشوں کی عالمی تنظیم آئی ایل او کے مطابق ان میں سے آٹھ کروڑ افراد نے صرف روزگار کے لیے اپنا وطن ترک کیا ہے اور وہ مائیگرینٹ ورکرز ہیں۔ ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق 1997ء میں افریقا میں دو کروڑ، شمالی امریکا میں ایک کروڑ ستّر لاکھ، وسطی اور جنوبی امریکا میں ایک کروڑ بیس لاکھ، ایشیا میں ستّر لاکھ، خلیج وسطیٰ میں نوے لاکھ اور یورپ میں تین کروڑ مائیگرینٹ ورکرز مصروف عمل تھے۔ دوسری جانب آئی ایل او کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک میں لوگوں کو شہریت دینے کے عمل کو روز بہ روز پے چیدہ اور مشکل بنائے جانے کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانوں کی اسمگلنگ کا عمل بڑھتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں آئے روز بہت سے افراد اور خاندان مختلف مشکلات اور صدمات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی انسانی اسمگلنگ
آج ہمارے لاکھوں نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں۔ آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی منہگائی، خوراک کا بڑھتا ہوا عدم تحفظ اورروزگار کے ذرایع کی شدید کمی نے انہیں غیر قانونی طورپر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبورکردیا ہے۔ ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں باندھ دیتے ہیں یا بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اپریل 2022سے اب تک آٹھ لاکھ سے زاید پاکستانی ملازمتوں کے لیے بیرون ملک جاچکے ہیں۔
متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت ،اسمگلرزکے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اوراقتصادی صورت حال کا کام یابی سے فایدہ اٹھانے کی وجہ سے چند برسوں میں انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، مرد، خواتین، بچے اور خواجہ سرا بھی انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ پہلے ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں، انسانی اسمگلنگ کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعدادچھ تھی، لیکن2022میں یہ تعداد بڑھ کر 217تک پہنچ گئی تھی جوکہ حیرت انگیز اضافہ ہے۔
ایف آئی اے کی ریڈ بُک کے مطابق بیش تر انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کا تعلق گجرات اور گوجرانوالہ سے ہے۔بعض انسانی اسمگلر سیالکوٹ، راول پنڈی، منڈی بہاء الدین اور آزاد جموں وکشمیر سے ہیں۔ یہ ایجنٹ لوگوں کو تھوڑی رقم میں دوسرے ممالک بھیجنے کا جھانسا دیتے ہیں اور ان سے پیسے لے کر انہیں کسی دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سرگرم عمل انسانی اسمگلرز اس غیر قانونی کاروبار سے تقریباً 15 کروڑ ڈالرزتک سالانہ کماتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی صورت حال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ میں غیر قانونی ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی شرح گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے لیے ایک ذریعے، راہداری اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں چاربرسوںمیں ملک بھر سے انسانی اسمگلنگ کے80ہزار سے زاید واقعات سامنے آئے ہیں اور متاثرین میں بیش تر خواتین اور بچّے ہیں۔
یہاں سے انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیہ اورکئی ممالک سے منسلک اس کی طویل سرحدیں بھی ہیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد نوسو کلومیٹر طویل ہے، جہاں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کی سرگرمیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، کیوں کہ صرف تافتان کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان امیگریشن کا مرکز ہے اور وہ بھی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔ پاکستان میں بلوچستان سے ایران پھر ترکی اور پھر وہاں سے یونان، یہ ایک روایتی راستہ رہا ہے اور جب اسمگل کیے جانے والے افراد مطلوبہ ملک (بہ شمول یورپی ممالک)پہنچ جاتے ہیں تو وہاں موجود ایجنٹس انہیں اُن کی مرضی کی منزلوں پر بھیج دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ بلوچستان کی سرحد پر ایران میں مند بیلو کا علاقہ انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال ہے۔ ایران سے سالانہ تقریباً 15 ہزار اورعمان سے لگ بھگ سات، آٹھ ہزار پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کر کے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے، تاہم انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی سالانہ مجموعی تعداد کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمار جمع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
پاکستان اس غیر قانونی عمل سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے، یہاں سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے، بلکہ اس سرزمین کو گزرگاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بنگلا دیش، سری لنکا،برما اوربھارت سے خواتین، بچوں اور مردوں کو غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک، ترکی، ایران اور یورپ میں اونٹوں کی دوڑ، جسم فروشی اور جبری مشقت کے لیے ہوائی، سمندری اور زمینی راستوں سے اسمگل کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے باشندوں کو بھی مغربی اور خلیجی ممالک کی طرف اسمگل کرنے کے لیے پاکستان کو راہ داری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر صرف چمن اور طورخم کے مقام پر دو امیگریشن پوسٹس ہیں۔
غیر قانونی طور پر ممالک کی سرحدیں عبور کرنے کے دوران راستے میں ویران اور پہاڑی راستوں پر بھوک پیاس، چوٹ لگنےاور کشتیاں اُلٹنے سے اموات ہونا معمول ہیں اور کئی افراد تو سرحد عبور کرتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر اُن کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ غربت، تنگ دستی اور بے روزگاری سے تنگ سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے والوں کے لیے یہ سفر زندگی اور موت کا سفر بن جاتا ہے۔