• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2013ء غیر معمولی تبدیلیوں کا سال ثابت ہوا، بالخصوص عالمی حوالے سے۔ پاکستان کے لئے یہ سال کئی تلخ و شیریں واقعات کا سال تھا جو رخصت ہو گیا اور اب 2014ء شروع ہو چکا ہے۔2013ء میں امریکہ کا معاشی بحران، مصر میں مرسی حکومت کا خاتمہ، شمالی کوریا، شام اور ایران کے حوالے سے امریکہ کے کردار میں ڈرامائی تبدیلی، بنگلہ دیش اور برما میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی، نیلسن منڈیلا، ہوگیوشاویز کی اموات، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد کی منظوری اور پاکستان میں ملت اسلامیہ کے عظیم رہنما قاضی حسین احمدؒ کی وفات کے واقعات اہم رہے۔ قاضی حسین احمد ایک دینی و سیاسی رہنما کے طور پر عالم اسلام میں ایک ممتاز اور معتبر شناخت رکھتے تھے۔ان کی وفات پر پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا اشکبار و سوگوار نظر آئی۔ پاکستان اور عالمی سطح پر اہل علم و دانش نے انہیں ملک و ملت کے حوالے سے عظیم خدمات پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔
2013ء کا سال پاکستان کے لئے بعض حوالوں سے’’بھاری‘‘ اور کئی مشکلات میں اضافے کا باعث بنا۔ پاکستان کی داخلی اور خارجی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ دکھائی دی۔ قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان میں چونکہ امن کا قیام افغانستان کی داخلی صورتحال سے مشروط ہے تاہم پاکستانی عوام نے صبر و ضبط کے ساتھ تمام مصائب و تکالیف کو برداشت کیا۔ سال 2014ء میں امریکی و نیٹو فورسز کا افغانستان سے انخلاء مکمل ہونے تک پاکستان میں امن کا قیام ممکن نظر نہیں آرہا۔نیا سال پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو بڑی حکمت و تدبیر کے ساتھ گزارنا ہو گا اور ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی کہ افغانستان سے امریکہ رخصت ہو جائے اور وہاں ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں آئے جو پاکستان دوست ہو۔ ہماری شمال مغربی سرحد جتنی پرُامن ہو گی اتن اہی پاکستان محفوظ ہو گا۔پاکستان کو موجودہ منظرنامےمیں زیادہ باخبر، ہوشیار اور چوکنا ہونا ہو گا کیونکہ بھارت کسی بھی لمحے امریکہ کے ساتھ سازباز کر کے سارے کھیل کو خراب کرسکتا ہے۔بھارت کی یہ خواہش ہو گی کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر ہی الجھا رہے اور اسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی طرف توجہ دینے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ پاکستان کی قیادت کا رواں سال میں یہ کڑا امتحان ہوگا کہ وہ کس خوش اسلوبی سے ان تمام معاملات کو نمٹاتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا کو فروغ دیا جائے۔
حکومت تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور اجتماعی شعور کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت سے جان چھڑائی جائے۔ قائد اعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قراردیا تھا۔بھارت سے دوستی کی خواہش خوش آئند بات ہوسکتی ہے لیکن ہمارے لئے اپنی شہ رگ یعنی کشمیر ’’ واگزار‘‘ کرانا بھی ضروری ہے۔ بھارت جب تک مقبوضہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط برقرار رکھے ہوئے اس وقت تک اس کے ساتھ تعلقات میں کیسے بہتری ممکن ہے؟ ماضی کے 66 سالوں کا سبق بھی یہی ہے کہ بھارت نے کبھی ہمارے ساتھ وفا نہیں کی ہے؟
پاکستان کو عالمی برادری پر زور دینا چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرائے۔ رواں سال پاکستانی قیادت کو مسئلہ کشمیر کو سرفہرست رکھنا چاہئے۔ بھارت کو اب ہر گز یہ موقع نہیں دیناچاہئے کہ وہ افغانستان میں امریکی گٹھ جوڑ کے ساتھ اپنی ریشہ دوانیوں کو جاری رکھے اور پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرتا رہے۔ پُرامن اور امریکی و بھارتی اثرونفوز سے پاک افغانستان ہمارے لئے ازحد ضروری ہے۔ امریکہ اپنی تمام تر رعونیت کے باوجود مظلوم اور نہتے افغانوں کو زیر نہیں کر سکا۔ امریکیوں کویہ بات سمجھ آچکی ہے کہ ہر سال افغانستان کی جنگ میـں اربوں ڈالر خرچ کرکے انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوا بلکہ امریکہ ایک ایسی ’’کھائی‘‘ میں گر چکا ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشت دیوالیہ ہوچکی ہے۔ اسے بدترین معاشی بحران سے نکلنے میں کئی سال لگیں گے۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جنگ امریکہ کی آخری جارحیت ثابت ہورہی ہے اور اب وہ اپنے تاریخی زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شمالی کوریا،شام اور ایران کے حوالے سے امریکہ کے رویّے میں ڈرامائی تبدیلی سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وقت اور حالات کے مطابق امریکی مفاد کے تحت اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرتا رہتا ہے۔
مصر میں مرسی کی جمہوری حکومت کاتختہ الٹنے کے بعد امریکہ کااب اگلا ہدف ترکی بن چکا ہے۔ اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جمہوریت امریکہ اور مغربی ممالک کے نزدیک ایک دھوکہ اور فریب کے سواکچھ نہیں۔ دنیا بھر میں جمہوریت کے حوالے سے ان کے دہرے معیارات ہیں۔ترکی میں بھی اسلام پسندوں کی جمہوری حکومت امریکہ اور یورپی ممالک کو قابل قبول نہیں۔ وزیراعظم رجب طیب اردوان کے دورہ پاکستان کے دوران امریکہ اور اسرائیل کی منظم سازش کے تحت ترکی میں سیاسی ہلچل مچائی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترک حکومت کس طرح امریکی و اسرائیلی مذموم عزائم کو ناکام بناتی ہے؟شمالی کوریا اور شام سے امریکہ یوٹرن لے چکا ہے اور ایران کے ساتھ اس کی دشمنی، دوستی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔اس تناظر میں پاکستانی قیادت کو جنوبی ایشیاء میں امریکہ کے عزائم کے حوالے سے محتاط رہنا ہوگا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ خطے میں بھارت کی بالادستی چاہتا ہے۔ 2014ء میں امریکی و نیٹو فورسز کے افغانستان کے انخلاء کے بعد امریکہ کا گیم پلان یہ ہے کہ وہ ایران کے تعاون کے ساتھ شمالی اتحاد اور طالبان کے ٹکرائو کے عمل کو جاری رکھے گا۔بھارت اور امریکہ دونوں نہیں چاہتے کہ طالبان دوبارہ افغانستان میں برسراقتدار آئیں۔
سابقہ مشرقی پاکستان ’’بنگلہ دیش‘‘ میں بھی ہونے والے حالیہ واقعات امریکی اور بھارتی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہیں۔امریکہ اور بھارت درپردہ اس سارے شیطانی عمل کی حمایت کررہے ہیں۔عبد القادر ملّا کی پھانسی نے بنگلہ دیش میں دو قومی نظریہ ازسرنو زندہ کردیا ہے۔عبدالقادر ملّا کی پھانسی کے بعد ابھی یہ سلسلہ یہاں نہیں رکابلکہ امریکی و بھارتی شہ پر ابھی متحدہ پاکستان کے حامی کئی سیاسی رہنمائوں کو حسینہ واجد حکومت سزائیں دینے کے لئے تیار کھڑی ہے۔
ان واقعات کے پس پردہ کیا ہے؟ واقفان حال کا یہ کہنا ہے کہ یہ ساری سازش پاکستان آرمی کو بدنام کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔بھارت یہ گھنائونا کھیل اس لئے رچا رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن میں ’’پاکستانی فوج‘‘ کو عالمی سطح پر بدنام کر کے اسے بھی ’’کٹہرے‘‘ میں کھڑا کیا جائے۔ عبدالقادر ملّا نے نظریہ پاکستان کے تحفظ کی خاطر اپنی جان،جان آفرین کے سپرد کردی ہے۔ عبدالقادر ملّا کی پھانسی کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قراردینا متحدہ پاکستان کے وفاداروں اور ملک وملت سے محبت کرنے والوں کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہے۔ ہماری قومی اسمبلی سے اس حوالے سے خالی خولی ایک قرارداد کی منظوری ناکافی ہے۔ حکومت پاکستان کو بنگلہ دیش حکومت سے اس معاملہ میں سخت احتجاج کرنا چاہئے حسینہ واجد عبدالقادر ملاّ کو پھانسی دیکر دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی صریح خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔اگر بنگلہ دیشی حکومت اب بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتی تو حکومت پاکستان کو اس حساس اور اہم معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانا چاہئے۔ خدانخواستہ یہی معاملہ اگر کل کلاں بلوچستان، کراچی یاپھر ملک میں کہیں اور پیش آجائے تو پھر ملک کے لئے کون اٹھے گا؟
کون اپنی جان پاکستان کے لئے قربان کرے گا اور کون پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ وطن کی حفاظت کیلئے کھڑا ہوگا؟امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کی’’ شیطانی تثلیث‘‘ نے عالمی امن کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ اس ’’تثلیث‘‘ کو توڑ کر ہی پاکستان اورعالم اسلام کامیابی کی منازل طے کرسکتا ہے۔
تازہ ترین