ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر مستقبل قریب میں وسطی ایشیائی ممالک کی گیس یورپ اور چین منتقل کرنے کا راہداری مرکز بننے جارہا ہے۔ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے بدھ کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے جو گفتگو کی وہ ایک طرف اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال کےباعث حکومت کو ایل این جی خریداری کے ٹینڈر کی بولی نہ مل سکی اور جب تک زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی ہے، ہر بڈنگ پر ایسے مسائل پیش آسکتے ہیں ۔ دوسری جانب مذکورہ گفتگو سے ان کاوشوں کی نشاندہی ہوتی ہے جو موجودہ مشکل صورتحال سے نکلنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے موجودہ قرض پروگرام کی مدت 30جون کو ختم ہونے والی ہے اور معدودے چند دنوں کے لئے آئی ایم ایف عہدیداروں سے اس کی بحالی کے ضمن میں براہ راست اور امریکہ و برطانیہ سمیت متعدد ممالک کی وساطت سے رابطوں کی سفارتکاری سمیت کئی اعتبار سے اہمیت ہے مگر ’’پلان بی‘‘ کی اشد ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ اس پلان کے بارے میں وضاحت اگرچہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ ہی کرسکتے ہیں مگر بعض ایسی پیش رفتیں سامنے آرہی ہیں جن سے معاشی بحران سے نکلنے کی سنجیدہ کوششوں کا تاثر نمایاں ہے۔ منگل کے روز معاشی بحالی کے جس قومی پلان کا اجراء کیا گیا اس کے تحت متعدد کلیدی شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت بروئےکار لائی اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔ وزیرمملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کی اسلام آباد میں بدھ کے روز صحافیوں کی گئی گفتگو یہ واضح کررہی ہے کہ روس یوکرین جنگ کے باعث عالمی ماحول میں جو تبدیلی آئی اسکے تناظر میں حکومت اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ یورپی ممالک اور اور چین کو وسطی ایشیائی ریاستوں سے گیس کی محفوظ فراہمی پاکستان بالخصوص گوادر کے راستے ہو۔ وسطی ایشیائی ممالک قازقستان ، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان دنیا کے انرجی کیپٹل ہیں مگر ان کے پاس سمندر نہیں اس لئے ان کے وسائل ایک لحاظ سے مقید ہیں اور دنیا تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ اسلام آباد وسطی ایشیا ، یورپی اقوام ، ترکیہ اور چین حتیٰ کہ امریکہ سے اس باب میں رابطے کر چکا ہےکہ قدرتی گیس اور مانع قدرتی گیس (ایل این جی) کی منتقلی کے لئے پاکستان کو راہداری حب بنایا جائے کیونکہ یہ راستہ ان ملکوں کے لئے سستا اورچھوٹے شراکت دار کی حیثیت سے پاکستان کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ اس باب میں آذربائیجان اور ترکمانستان کی قیادتوں سے حال ہی میں بات کی گئی ہے۔ وزیر مملکت کے بیان کے بموجب پائپ لائن کے ذریعے وسطی ایشیا کی گیس پاکستان آسکتی ہے اور جن ممالک کو ایل این جی چاہئے وہ یہاں اپنی ضرورت کے مطابق ایل این جی ٹرمنل بناکر یہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے گیس لے جاسکتے ہیں۔ اس طریق کار سے یورپ اور دیگر ممالک کے لئے انرجی سیکورٹی کا ایک نیا انقلابی باب شروع ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ قدرتی گیس کی ضروریات دنیا بھر میں بڑھتی جارہی ہیں جبکہ روس یوکرین جنگ کے باعث ان ضروریات کا پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ گیس اور ایل این جی کی ضرورت مذکورہ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی بڑھتی رہے گی جس کے پیش نظر قطر سمیت گیس فراہم کرنے والے ممالک کو اپنی پیداوار بڑھانا ہوگی۔ متحدہ عرب امارات بھی نئے لکویڈیشن ٹرین تعمیر کررہا ہے۔ پاکستان کے راستے گیس کی منتقلی کے انتظامات سے گیس کی پیداوار کے حامل اور صارف ملکوں دونوں کو فائدہ ہوگا اور انرجی حب کے طور پر پاکستان کی معیشت بھی خوشحالی کے راستے پر گامزن نظر آئے گی۔ اس باب میں بین الاقوامی رابطے مزید موثر بنانے کے ساتھ ایسا اہتمام ضروری ہے کہ عام انتخابات کے بعد سیاست کا منظر نامہ جو بھی ہو، اس میں مذکورہ انتظام کی طرف قدم بڑھتے نظر آئیں۔