• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی سال کی طرح اس وقت بھی بیساکھیوں پر چل رہی ہے۔ اس’’ ڈرپ اکانومی‘‘ کے اسباب اب کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ تجارتی سودوں اور خریداری کیلئے آج بھی پاکستان کو بیرون ممالک کی کرنسی خصوصاً ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے۔ ڈالرز کی کم دستیابی کی وجہ سے زرمبادلہ کمانے والی ملک کی سب بڑی برآمدی صنعت ٹیکسٹائل میں بھی مشکلات اور بحرانوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ خام مال کی درآمد تک کیلئے بروقت ڈالرز نہ ملنے کے باعث پچھلے ایک سال میں ٹیکسٹائل کا شعبہ ’’اکنامک آئی سی یو‘‘سے باہر نہیں نکل پا رہا بلکہ صورتحال مزید تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ جب تک وطن عزیز میں’’بیلنس آف پیمنٹ‘‘ میں بہتری لانےکیلئے ٹھوس حکومتی پالیسی نہیں لائی جاتی، تب تک ہم اس معاشی افراتفری سے دوچار رہیں گے۔ حکومتی سطح پر کھلے دل کیساتھ موجودہ یا سابقہ غلط پالیسیوں سے کنارا کرنا ہوگا اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر قابل عمل اقدامات کا آغاز کرنا ہوگا۔ پاکستان میں بڑی صنعتوں کے ساتھ ساتھ کاٹیج انڈسٹری کے فروغ کی سعی کرنا ہوگی۔ کاٹیج انڈسٹری کو گھر گھر پھیلانے سے خواتین کو آمدنی کے ذرائع ملیں گے۔ پاکستان اس لحاظ سے بیک وقت خوش قسمت اور بدقسمت ملک ہے کہ یہاں مجموعی آبادی کا 60 فیصد یوتھ پر مشتمل ہے اگر ہم نے اب بھی نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا نہ کئے تو آبادی کا یہ بڑا حصہ ہمارے لئے خوش قسمتی کے دائرے سے نکل کر مشکلات کھڑی کردے گا۔ جو جرائم میں اضافے یا بے راہ روی کی صورت میں سامنے آئیں گی۔ آج ضرورت ہے کہ نوجوانوں کا مستقبل محفوظ بنایا جائے جس کیلئے تعلیمی شعبہ کے ساتھ ساتھ اسکل ڈویلپمنٹ بہت ضروری ہے۔ یوتھ کو ہنرمند بناکر ہم ان کیلئے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا کرسکتے ہیں۔ کاٹیج انڈسٹری اور ہنرمند افرادی قوت ملک کی معاشی حالت کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوگی۔ جس سے پاکستان کے برآمدی شعبہ پر بھی دباؤ کم ہوگا۔ ہم پاکستان کیلئے معاشی مسائل کے اسباب پر نظر دوڑائیں تو ایک واضح صورت حال ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہمیں درآمدات اور برآمدات کے توازن کو بہتر کرنے کیلئے ملکی مفادات کے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا برآمدی شعبہ اور اوورسیز پاکستانی زرمبادلہ کے حصول کے مثبت ذرائع ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ دوتین دہائیوں سے مالیاتی اداروں کے قرض سے حاصل ہونے والے ڈالرز کو ہی درآمدات کی ادائیگی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ آج بھی ہماری درآمدات برآمدات سے دوگنا ہیں۔ تیل ، گیس ، خوردنی تیل ، دالوں اور ادویات کیلئے ہمیں زرمبادلہ کی بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ اسی صورت حال نے ملک کی مجموعی برآمدات میں 65 فیصد شیئر ہولڈر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بجائے رینگنے پر مجبور کررکھا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت سبھی صنعتی شعبوں، زراعت اور لائیو اسٹاک کیلئے مہنگی بجلی اور گیس، تیل کی ریکارڈ قیمت، روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی کے باعث خام مال کی ہوشربا قیمتیں پروڈکشن کاسٹ دوسرے ممالک کے مقابلےمیں مسابقتی ناہمواری کا باعث ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ درآمدی بل میں کمی لائی جائے ۔ تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے ہائیڈل منصوبے بڑھائے جائیں۔ دالوں اور ادویات سمیت کئی اشیاء کی پیداوار میں مقامی طور پر خودکفیل ہوا جائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ صرف سستی بجلی ہی ملک کی معاشی صورتحال کو سنبھالنے میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کو اسٹرٹیجک پارٹنر بننے کی صورت میں کئی ایک مالی فوائد اور امدادی سہولتیں حاصل ہوتی رہی ہیں مگر بدلتے ہوئے عالمی معاشی تناظر میں اب ان امکانی فوائد کی گنجائش بھی مشکل ترین ہوگی جس سے یہی گنجائش اور امکان رہ جاتا ہے کہ ہم اپنی معاشی پالیسیوں پر انحصار کریں جس کیلئے حکومت کو سنجیدگی کیساتھ ملک میں سیاسی افراتفری ، لاقانونیت، عدم تحفظ اور ڈنگ ٹپاؤ فارمولوں سے جان چھڑانا ہوگی اور ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جس سے ہم مستقل بنیادوں پر معاشی بحران سے کم سے کم وقت میں باہر نکل کر استحکام کے دور میں داخل ہوسکیں ۔

تازہ ترین