ایران کی دعوت پر ایران کے دورے پر ہوں اور اپنے مشاہدات کی اول قسط ہوٹل کے کمرے میں نیم دراز ہو کر سپرد قرطاس کر رہا ہوں ۔ لکھی پڑھی بات ہے کہ آپ اپنے هہمسائے تبدیل نہیں کر سکتے اور ان کے ساتھ ہی مل بیٹھ کر ترقی کی نئی راہیں تلاش کی جا سکتی ہیں ۔ وطن عزیز کیلئے بھی یہی فارمولہ حتمی ہے ۔ ایران میں پاکستان کے حوالے سے بہت سی امیدیں موجودہیں۔ایران ،انقلاب کے بعد سے مغربی دنیا کی مخالفت کا شکار رہا ہے اور وہ اس کا معترف ہے کہ ،ان حالات میں،پاکستان کی جانب سے کبھی ،اپنے برادر ملک کیلئے امریکی و مغربی دباؤ کے باوجود یاان ممالک کے ایما پر، کوئی مسئلہ نہیں پیدا کیا گیا ۔پاکستان نے اس حوالے سے ہمیشہ ایسے کسی بھی قسم کےدباؤ کو مسترد کردیا ماسوائے جنرل مشرف مرحوم کے دور کے ایک مخصوص واقعے کے، جو ایٹمی معاملات سے متعلق تھا کہ اس وقت پاکستان سے اتنی اعلیٰ سطح پر غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی گئی تھی،تاہم جب ان کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی جائے کہ اس دور میں تو ڈاکٹر قدیر مرحوم جیسی شخصیت کو دباؤ کے سبب مجرم قرار دے دیا گیا تھا اور پاکستان تک پر یہ الزام تسلیم کر لیا گیا تھا تو ایرانی اس بات کو سمجھ جاتے ہیں کہ اس دورکی غلطیاں آج کے دور میں صرف ماضی سے سبق سیکھنے کیلئے ہی استعمال ہونی چاہئیں ۔
ایران میں شہباز حکومت کے اس فیصلے کو بہت مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان بارٹر ٹریڈ کی جانب بڑھنے کیلئے اقدامات کر رہا ہے اور ایک دوسرے سے کرنسی کی بجائے اگر اشیا کی تجارت صحیح معنوں میں شروع ہو جائے تو دونوں ممالک کے عوام کو وہ بہت کچھ سستا دستیاب ہو سکتا ہے جو اِس وقت مہنگا میسر ہے اور مہنگائی کی موجودہ لہر نے تو اس کو اور زیادہ ضروری بنادیا ہے ۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں ابھی تک بہت زیادہ دلچسپی رکھتا ہے،اسکی خواہش ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس پر جلد از جلد کام مکمل کیا جائے جس سے ایرانی گیس کوبڑی مارکیٹ دستیاب ہو جائے جبکہ پاکستان کو بھی توانائی کے بحران سے نجات نصیب ہو گی۔ گوادر میں بجلی کے حالیہ اقدامات سے وہاں یہ تصور قائم کیا جا رہا ہے کہ اب گیس پائپ لائن پر بھی جلد پیش رفت ہوگی ۔ ایک دوسرے پر انحصار بڑھے گا تو معاملات کو دیکھنے کی نظر بھی تبدیل ہو جائے گی اور بہت سارے ایسے امور جو ہنوز حل طلب ہیں،حل کر لئے جائیں گے ۔ حل طلب امور میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کی سرحد کے ارد گرد جو دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں یا ہو جاتے ہیں اس کو دونوں ممالک اپنی اپنی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور بہت جگہ ایک دوسرے سے قطعی طور پر اختلاف رائے بھی رکھتے ہیں ۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ دہشت گردی کی صرف ایک جہت سے دونوں ممالک کو سابقہ نہیں پڑ رہا ۔پاکستان کو علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر اس کا سامنا ہے جبکہ ایران کوصرف علاقائی طور پر۔
پاکستان بلوچستان کے حالات کی وجہ سے پریشان ہے اور اس کی خواہش ہے کہ بلوچستان کے معاملات میں اس کو ایران کی جانب سے مکمل طور پر مدد حاصل ہو تا کہ وہ نہ صرف اپنے علاقے میں امن قائم رکھ سکے بلکہ اپنی معاشی ترقی کے اہم منصوبے سی پیک کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو بھی ختم کر سکے ۔ ایران کو بھی سیستان میں اسی نوعیت کا مسئلہ در پیش ہے، وہ بھی سیستان میں امن و امان کیلئے پاکستان سے مددکی امید رکھتا ہے ۔جہاں تک مذہبی انتہا پسندی سے جڑے امور کا تعلق ہے تو اس پر جب تک پاکستان، ایران اور سعودی عرب ایک میز پر نہیں بیٹھیں گے، اس وقت تک پاکستان میں یہ عفریت بار بار سر اٹھاتا رہے گا اور اس عفریت کو کوئی بھی، کبھی بھی پاکستان کی ترقی کی راہ میں لا کر کھڑا کرتا رہے گا ۔ یہاں بھی یہ محسوس ہوا اور اس سے قبل انہی صفحات پر میں کئی بار گزارش کر چکا ہوں کہ پاکستان اور ایران کو دہشت گردی سے جڑے معاملات پر کسی ’اگر مگر‘ کے بغیر کھل کر ایک دوسرے سے بات کرنی چاہئے اور ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کی طرف بڑھنا چاہئے ۔ میں یہ انتہائی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان اور ایران کےمابین اس مسئلہ پر وہ کمیونی کیشن لیول موجود نہیں جو کہ ہونا چاہئے اور نہ ہی ایک دوسرے کے سامنے اس طرح سے اس معاملہ پر دل کھول کر رکھا گیاہے کہ جیسے رکھ دینا چاہئے، اگر کمیونی کیشن لیول کو بہتر بنا لیا جائے تو پھر ایسے تمام امور پر بر وقت فیصلہ ممکن ہوگا جن پر ایک گومگو کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور پھر اس سے غلط فہمیاں پروان چڑھتی ہیں۔ دورہ ایران ابھی جاری ہے اور اس پر ابھی بہت سی گزارشات رقم کرنی ہیں، جو اگلے کالم میں کرونگا کہ ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی سے لیکر ایران امریکا تعلقات کی تلخی اور ان کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)