جنرل پرویز مشرف نے ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ سنگین جرم یعنی آئین شکنی کا ارتکاب کیا۔ رہی سیاسی اور انتظامی حماقتیں تو ان میں تو وہ کب کے سینچری مکمل کرچکے ہیں ۔ یہ سلسلہ کارگل سے شروع ہوتا ہے اور مسلم لیگ (ق) یا ایم ایم اے کو بنانے سے ہوتا ہوا ان کی وطن واپسی کی حماقت تک جاپہنچتا ہے۔ وہ زندہ رہے تو نہ جانے اور کیا گل کھلائیں گے ۔ یوں آئیڈیلزم کو بنیاد بنا کر اگر خالص آئینی اور قانونی حوالوں سے دیکھا جائے تو وہ سنگین سزا کے مستحق ہیں لیکن اگر ایسا عملاً ممکن نہ ہو اور اس کے نتیجے میں نظام اور ملک کو شدید نقصان بلکہ حادثات کا خطرہ ہو توپھر کیا صرف چند انائوں کی تسکین کے لئے ان کے خلاف مقدمہ کا یہ ڈرامہ جاری رکھنا چاہئے ؟۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والا معاملہ جب بھی ہوگا تو اس کا نتیجہ خطرناک نکلے گا۔ اگر واقعی پاکستان میں سیاسی قیادت بلند اخلاقی معیارات کی حامل بن چکی ہے ‘ اگر تو واقعی پاکستان میں دیگر ادارے اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ وہ فوج کی ہمسری کرسکیں ‘ اگر تو واقعی عدلیہ اور میڈیا کا کردارمثالی بن چکا ہے یا پھر اگر واقعی میاں نواز شریف صاحب بے خطر کودپڑا آتش نمرود میں عشق کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر ممولے کو شہباز سے لڑانے کا عزم کرچکے ہیں تو پھر یابسم اللہ ۔ بارہ اکتوبر 1999ء سے آغاز کردیجئے۔ پھر بارہ اکتوبر کی بنیاد پر اس اقدام میں شریک تمام جرنیلوں‘ اس کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں اور جسٹس افتخار چوہدری سمیت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے اور اس اقدام کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی آئین شکنی کے مقدمات چلائے جائیں ۔ جس ملک میں مقدمہ اس چیف جسٹس کی ہدایت پر چلایا جارہا ہوجنھوں نے خود بارہ اکتوبر کی آئین شکنی کو جائز قرار دے کر پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا ہو۔ مطالبہ کرنے والی تحریک انصاف یا پھر پیپلز پارٹی ہوں جنھوں نے بارہ اکتوبر کے اقدام کو ویلکم کیا تھا۔ نعرہ زن اے این پی ہو جن کے لیڈر اجمل خٹک کو پرویز مشرف کے ماتھے میں روشنی کی کرن نظر آئی تھی ۔ شور ان مذہبی جماعتوں نے مچائے رکھا ہو جو پرویز مشرف کے منصوبے کے تحت ایم ایم اے کا حصہ بنیں اور جنھوں نے سترویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان کے ناجائز اقدامات کو آئین کا حصہ بنا ڈالا جبکہ ملک کا وزیراعظم وہ شخص ہے جنہیں سیاست کا راستہ جنرل جیلانی نے دکھایا ہو بلکہ عدالتوں سے سزا پانے کے بعد سعودی عرب کی مداخلت سے بیرون ملک جاچکا ہو اور جنھوں نے تحریری طور پر دس سال تک سیاست اور ملک سے باہر رہنے کا وعدہ کیا ہو‘ اس ملک میں ایک سابق آرمی چیف پھانسی چڑھ جائیں گے ۔ یہ سوچ حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟ بموں کی برآمدگی سے لے کر اے ایف آئی سی میں پرویز مشرف کے گرد عسکری اداروں کے حصار کے بعد بھی کیا کسی شک کی گنجائش ہے کہ فوج ساتھ نہیں ہے ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ تین سابق لیفٹیننٹ جنرلوں کو بدعنوانی کے کیسز میں بلایا گیا لیکن آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز سے ہرطرف خاموشی چھاگئی ۔ پھر آخر فوج اپنے سابق سربراہ کے معاملے پر کیسے لاتعلق رہے گی ؟ مدعا ہر گز یہ نہیں کہ فوج کے اس ردعمل کو میں درست سمجھتا ہوں بلکہ صرف زمینی حقائق کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ۔
گزشتہ روز ایک محفل میں فوج کے سابق پانچ جرنیل صاحبان ‘ جن میں بعض ذاتی طور پر پرویز مشرف کے شدید مخالف بھی ہیں ‘ شریک تھے ۔ چھ سات سیاسی رہنما بھی وہاں تشریف فرماتھے ۔ کسی نے پرویز مشرف کے معاملے پر فوج کی سوچ کے بارے میں استفسار کیا تو سب جرنیل صاحبان کا اتفاق تھا کہ فوج میں شدید بے چینی ہے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ فوجی حلقوں میں بھی یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ صرف پرویز مشرف کو کیوں ذلیل کیا جارہا ہے اور باقی سیاسی اور غیرسیاسی شریک کاروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جارہی ؟۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پرویز مشرف کیس کی آڑ میں میڈیا پر جس انداز میں فوج کے بارے میں بحث ہورہی ہے ‘ اس کی وجہ سے بھی فوج کی صفوں میں شدید بے چینی ہے کیونکہ اس بحث اور تنقید کی زد میں وہ فوجی یا اس کا کمانڈر بھی آرہا ہے جو سیاچن سے لے کر وزیرستان تک قربانی دے رہا ہے ۔ سب اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ سلسلہ نہ رکا تو وہی کچھ ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے اور اب کے بار ایسا ہوا تو بہت تباہ کن اور خونی ہوگا۔ پرویز مشرف کے لئے پریشان ایک ریٹائرڈ فوجی کو آئین اور قانون کی طرف متوجہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا سابق منصف اعلیٰ کا بیٹا مجرم نہیں تھا لیکن تمام جج اور وکیل ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔ پھر ہم اپنے سابق چیف کے ساتھ کھڑے کیوں نہ ہوں۔ یہ سب حقائق اپنی جگہ لیکن اگر مجھے یقین ہوتا کہ پرویز مشرف کو واقعی سزا مل جائے گی اور یہ سزا مستقبل کے لئے فوجی مداخلت کا راستہ روک لے گی تو میں بھی اس پنگےبازی کی حمایت کرتا ۔ لیکن ہم سب کو معلوم ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ‘ ایک عرب ملک سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال سے وہ عزت و احترام کے ساتھ وہاں روانہ ہوجائیں گے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ اس وقت وہ میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان ہیں جنھیں اسی پرویز مشرف کے چنگل سے اور موت کے منہ سے یہی حکمران نکال کر لے گئے تھے ۔ اب یہی حکمران کیا پرویز مشرف کو نہیں بچائیں گے اور کیا میاں نوازشریف ان کے اس احسان کا بدلہ نہیں چکائیں گے ؟۔ جب منطقی انجام یہی ہونا ہے تو پھر قوم کو اس فضول بخار میں مبتلا کرنے کی کیا تک ہے ؟
کیا بہتر نہ ہوتا کہ حکومت اپنی توجہ گڈگورننس کی طرف مبذول کرتی اور ڈیلیوری کے ذریعے قوم کو اپنا ہمنوا بنا کر مستقبل میں فوجی مداخلت کا راستہ روکتی اور آخر میں ایک واقعہ جو لطیفے سے کم نہیں ‘ ۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں معیشت سے متعلق اسحٰق ڈار صاحب کی بریفنگ میں ہمیں بلایا گیا تھا۔ ایک طرف وفاقی کابینہ بیٹھی تھی اور دوسری طرف ہم بیٹھے تھے ۔ کسی نے وزیراعظم کی طرف سوال داغ دیا کہ ’’بلے‘‘ کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے گا۔ وہ مسکرادئے اور چپ ہوگئے ۔ میں حامد میر صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا۔ سامنے وزراء کی فہرست پر نظر دوڑائی تو ان میں نمایاں امیر مقام نظر آرہے تھے ۔ پھر جنرل عبدالقادر بلوچ پر نظر پڑی۔ ان کے ساتھ تین نومبر کی ایمرجنسی کے وقت کے وزیرقانون زاہد حامد صاحب بیٹھے تھے ۔ دوسری طرف مشرف دور کی کابینہ کے وزیر ریاض پیرزادہ نوازشریف کی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے تشریف فرما تھے۔ وزراء کی قطار کے ایک سرے پر امتیاز شیخ اور دوسرے سرے پر پیرپگاڑا صاحب کے بھائی تشریف فرماتھے ۔ میں نے حامد میر صاحب سے کہا کہ میاں صاحب سے کہہ دو کہ اپنی کابینہ کے ان اراکین کی کمیٹی بنا کر انہیں بلے کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ذمہ داری دے دیں کیونکہ یہ سب پرویز مشرف کے ساتھ کام کرچکے ہیں اور ان کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ذاتی زندگی میں تو بڑے حقیقت پسند ہوتے ہیں اور جب کوئی ہمارے ذاتی کردار کے حوالے سے سوال اٹھاتا ہے تو ہم مجبوریوں ‘ مصلحتوں اور حکمتوں کا درس دیتے ہیں لیکن قومی معاملات میں ہم آئیڈیلسٹ بن جاتے ہیں ۔ ہم راتوں رات پاکستان کو برطانیہ بنانے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں ۔
مگس کو باغ میں جانے نہیں دیجئو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا