طویل عرصے تک ناک رگڑوانے کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کی جانب سے قرض دینے کی درخواست قبول تو کرلی ہے،مگر مطالبات کی طویل فہرست بھی ہمیں تھمادی ہے۔ یاد رہے کہ نئے مالی سال کا بجٹ بھی اسی ادارے کی جانب سے فراہم کردہ ’’راہ نما ہدایات‘‘ کی روشنی میں تیارکیا گیا ہےجس کے نتیجے میں ہوش ربا منہگائی میں مزید اضافہ ہونے کے وسیع امکانات نے جنم لیا ہے۔ محصولات کی مدات اور شرحیں بڑھادی گئی ہیں اور کئی اقسام کی زرِ تلافی ختم کردی گئی ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ ملک کے عوام کمر پر منہگائی کا مزید بوجھ پڑے گا جو پہلے ہی منہگائی کی وجہ سے دہری ہوچکی ہے۔
ایسے میں عوام بہ جا طور پر یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ سیاست داں اپنی نااہلی ،نالائقی اور باہمی چپقلش کی سزا کب تک عوام کو دیتے رہیں گے۔ ان کا شکوہ غلط نہیں۔ لیکن یہ محض دوچار برس کا قصّہ نہیں، بلکہ اس خرابی کی داستان بہت طویل ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ بیان درست محسوس ہوتا ہے کہ معیشت کو اصلاحات کی اشد ضرورت ہےجو مستحکم سیاسی ماحول میں کی جاسکتی ہیں، کیوں کہ اقتصادی ترقی کا اندرونی طور پر سیاسی استحکام سے تعلق ہے۔ یہیں سے چارٹر آف اکانومی ہی ہماری سیاسی جماعتوں کے لیے اپنے لوگوں کی خوش حالی کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ، ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھاکہ سیلاب سے متعلق ریلیف اور بحالی، عالمی سپلائی چین میں رکاوٹوں اور جیواسٹریٹجک تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسلسل چیلنجز کے پیش نظر بجٹ 2023-24 بنانا خاص طور پر ایک مشکل کام تھا۔ عمران نیازی کی طرف سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے معیشت کو نقصان پہنچایا اور غیر یقینی صورت حال پیدا کی، کیوں کہ ملک ایک سال سے زیادہ عرصے تک اُبلتا رہا۔
ان کا کہنا تھاکہ بجٹ 2023-24 معیشت کی طویل مدتی بیماریوں کو ٹھیک کرنے کے عمل کے آغاز کی نمائندگی کرتا ہے۔ مخلوط حکومت نے ان صحیح شعبوں کو ترجیح دی ہے جو اقتصادی ترقی کو تیز کرنے، سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور معیشت کو خود کفیل بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ منہگائی کے اثرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، حکومت نے سرکاری شعبے کے ملازمین اور پنشنرز کو تنخواہوں میں بالترتیب 35 اور 17.5 فی صدتک اضافے کی صورت میں ریلیف فراہم کیا ہے، اور کم از کم اجرت بڑھا کر 32 ہزار روپے کر دی ۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ زیادہ متوازن بجٹ جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جائے، موجودہ رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا۔
اس سے قبل سات جون کو اقتصادی سروے میں کہا گیا تھا کہ سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کی اقتصادی نمو کی شرح 0.3 فی صد تک ریکارڈ ہوئی ہے اور مارچ سے جولائی تک منہگائی کی شرح میں 29 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رواں مالی سال جی ڈی پی کا حجم 84 ہزار 600 ارب روپےسے زاید ریکارڈ کیا گیا۔ اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ سال زراعت کی شرح نمو 4.40 فی صدریکارڈ ہوئی تھی۔ رواں سال زرعی شعبے کی شرح نمو 1.55 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
خوشی کا موقع یا رونے کا مقام
آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے بارے میں آزاد اقتصادی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ قرض کے جال میں پھنسے رہنے سے پاکستان کو طویل مدتی پائے دار نمو حاصل کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ یہ ہمارے لیے صرف نوماہ کا مختصر سا ریلیف ہے جس میں ہمیں سنجیدہ اقدامات اٹھاکر سخت اقتصادی فیصلے کرنا ہوں گے اور معیشت کی بحالی کے لیے ٹھوس اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔یہ کوئی خوشی منانے کا موقع نہیں۔ یاد رے کہ زوال پذیر زرمبادلہ کے ذخائر اوراقتصادی عدم استحکام کے ساتھ پاکستان نے 2019 میں چھ ارب ڈالرز کے تین سالہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو اپنے محاصل کی وصولی کو جی ڈی پی کے تناسب سے بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف، خاص طور پر ٹیکس کی وصولی کے لیے، آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والی اقتصادی اصلاحات کے نفاذ کے لیے کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد معیشت کو مستحکم اور مالی خسارے کو کم کرنا ہے۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق 'آئی ایم ایف پروگرام کا فائدہ اتنا ہی ہے کہ دوسری بین الاقوامی فنانشل باڈیز پاکستان میں شاید سرمایہ کاری کریں۔ ان کی شرط ہے کہ جی ڈپی ٹو انڈیکس ریشو کو بڑھائیں وہ ہم بڑھا نہیں سکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر چل سکتا ہے، مگر ہمیں اس کی ضرورت بھی ہے تاکہ ہماری ساکھ بین الاقوامی فنانشل مارکیٹ میں بنی رہے۔
ماہرین کے مطابق 'دراصل ہمارے بیورو کریٹس اور سیاسی اشرافیہ کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ وہ خود کچھ پیدا نہ کریں اور دوسروں سے لیں۔ اب تو انہیں یہ عادت بھی پڑ گئی ہے کہ انہیں خود اقتصادی پالیسی نہیں بنانی پڑ رہی بلکہ آئی ایم ایف ہی انہیں پالیسیز بناکر دیے جارہا ہے۔ اگر ہمارے اقتصادی استحکام کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئیں ہدایات اچھی ہیں تو ہمیں اپنے طور پر انہیں نافذ کرنا چاہیے۔ 'ٹیکس کے نظام اور عوامی خزانے میں طویل التوا اور بہت تاخیر سے اصلاحات کرنے کے لیے ہمیں پیسوں کی کیا ضرورت ہے؟ توانائی کے بحران سے لے کر اضافی خرچوں میں کمی تک، کیا ہمیں آئی ایم ایف کے فنڈز کی ضرورت ہے؟وقت آگیا ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے ہماری اقتصادی صورت حال بہتر ہو اور تمام ایسے سرکاری ادارے جو نقصان میں جارہے ہیں اور معیشت پر بوجھ ہیں ان سے بھی چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے۔ ایک بار جب ہم یہ کام کرلیں گے تو ہم خوش حالی کی راہ پر گام زن ہوجائیں گے۔ ہمیں پھر آئی ایم ایف یا دیگر قرض دہندگان کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن کیا ہم 'ہم ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں جن کا سامنا ہوسکتا ہے۔
سیاسی عدم استحکام کی قیمت
سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی غیر یقینی کی صورت حال سنگین ہوئی اوراس کے نتیجے میں دیرپا اقتصادی بے یقینی نے جنم لیا۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی جغرافیائی سیاسی صورت حال میں کئی پے چیدگیاں پیدا ہوئیں۔ اندرونی اور بیرونی عوامل کا امتزاج کلنگ مشین کی طرحکام کرتا رہا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے، تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد درآمدی بل بڑھے، بانڈ کی پیداوار میں اضافہ ہوا، ترسیلات زر میں کمی آئی، روپے کی قدرکم ہوئی، دہرے ہندسے کے افراط زر اور اسٹاک ایکسچینج نیچے کی طرف جانے کی وجہ سے بیرونی فنانسنگ کی ضروریات میں اضافہ ہوا۔یہ سب کروڑوں شہریوں کے لیے دائمی درد کا باعث بنا۔ لیکن طویل سیاسی ہنگامہ آرائی کے بعد حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اس صورت حال کے دوران نظام میں پیدا ہونے والے بگاڑ کے اخراجات کو کیسے پورا کیا جائے۔
ماہرین کے بہ قول بجلی اور تیل کی قیمتوں میں رعایت واپس لینےکے لیے بہت زیادہ سیاسی سرمایہ خرچ کرنا پڑے گا۔ ایک بار جب سمجھ دار معاشی احساس غالب ہو جائے تو اسے منجمد کر کے ریلیف سے پہلے کی سطح پر لے جانا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں گردشی قرضے اور مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوگا، بہ صورت دیگر منہگائی اور زیادہ قرضوں کی شکل میں اپنے پیچھے پڑنے والے اثرات چھوڑ جائے گا۔ ان میں تاخیر اور فیصلہ نہ کرنے کی خواہش کی جا سکتی ہے، لیکن عوام کو اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی، جو پہلے ہی سیاسی کش مکش اورڈولتی معیشت کی وجہ سے پسے جارہے ہیں۔
وہ سیاست دانوں کی لڑائی میں وہ قرض بھی چُکا ر ہے ہیں جوواجب بھی نہ تھے اُن پر۔ چند برسوں میں عوام کے بہت زیادہ تکلیف اٹھانےکے باوجود بنیادی اقتصادی چیلنجز دوبارہ اور پہلے سے زیادہ سنگین ہوکر نمودار ہوچکے ہیں۔ پھر یہ کہ اس وقت اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں ملکی سیاسی اور بیرونی عوامل کیسا برتاؤ کریں گے۔
موجودہ حکومت کی بقا، ایک عبوری حکومت اور اس کی مدت کی مدت یا عام انتخابات اور مستقبل کی حکومت کے اخراجات کے لحاظ سے امکانات مختلف ہیں۔ یوکرین کا بحران پہلے ہی کووڈ سے متاثرہ کساد بازاری کے فوراً بعد عالمی معیشتوں کو تہہ و بالا کر رہا ہے۔ سیاسی بحرانوں کا الجھاو ، فیصلہ سازی اور حکم رانی پر پہلے ہی اثر ڈال رہا ہے۔ وفاقی سیکرٹریٹ میں معمول کاکام کاج بھی متاثر ہوا ہے کیوں کہ بیوروکریٹس روزانہ حکومت چلانے کے لیے ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کا طریقہ اپناتے ہیں۔
اس صورت حال میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستانی حکام کے درمیان بات چیت بے نتیجہ رہی۔ اگرچہ ابتدائی اعتراضات عوامی تحریکوں، خاص طور پر ریلیف پیکج کے گرد گھومتے رہے۔ آئی ایم ایف کے اہداف مستقبل کی پاکستانی حکومتوں اور عوام کو مزید سخت پیشگی اقدامات کی شکل میں پریشان کر دیں گے۔
پاکستان ایک بار پھر اس دوراہے پر کھڑا ہے جو ہر انتخابی دور میں آتا ہے۔ اس بار فرق یہ ہے کہ چیلنجز پہلے سے کہیں زیادہ ہیں اور غیر یقینی کے طول پکڑنے سے علاج بھی مشکل ہو سکتا ہے۔
عوام کے آنسو، اشرافیہ کے عیش
پاکستان کے عوام پیٹرول اور تیل کے نرخوں میں حالیہ کمر توڑ اضافے کے بعد سماجی رابطوں کے الیکٹرانی پلیٹ فارمز پر کُھل کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ شدت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ عوام کے محاصل پر عیش کرنےوالی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کو سرکاری خزانے سے دی گئیں مراعات واپس لی جائیں اور اُن پر ٹیکس لگایا جائے۔ اس مطالبے کی شدت اقتدار کے ایوانوں تک محسوس کی گئی اور وزیر اعظم نے کچھ کٹوتی کا اعلان کیا۔ لیکن پاکستان کے سیاسی اور سماجی نظام پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ جس طرح یہ مطالبہ سطحی نوعیت کاتھا،اسی طرح وزیر اعظم کا اقدام بھی سطحی نوعیت کا تھا۔اصل معاملہ تو بہت گہرا ہے اور اس کی جڑیں ہمارے پورے سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام کے گرد مضبوطی سےجمی ہوئی ہیں۔
جو لوگ اس پورے گورکھ دھندے سے واقف ہیں ،ان کے نزدیک یہ معاملہ بہت گمبھیر صورت اختیا رکرچکا ہےاور اس وقت پاکستان میں جتنے بھی سیاست داں ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے اشرافیہ سے ’’فیض‘‘ نہ اٹھایا ہو ،خواہ وہ پی پی پی یا نون لیگ سے تعلق رکھتے ہوں یا پی ٹی آئی سے۔ ایسے میں کون اس طبقے پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔
اشرافیہ کی اصطلاح سے مرادوہ اقلیتی گروہ ہےجو مراعات حاصل کرتا ہے یا معاشرے کے بالائی طبقے پر قابض ہے۔ عام طور پر ، اشرافیہ کا تعلق حکم راں طبقے یا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو کسی خاص علاقے میں اپنی بالادستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ متعدد مرتبہ مختلف اشرافیہ کے مابین اپنے شعبہ اثر و رسوخ کے مطابق تفریق پیدا کی جاتی ہے۔ اقتصادی اشرافیہ ایک ملک یا خطے کا ایک کیس پیش کرنے کے لیے، امیر خاندانوں سے بنا ہوتا ہے۔ سیاسی اشرافیہ، گروہوں، اہم راہ نماؤں، اور ثقافتی اشرافیہ جو آرٹ کے ذریعے ایک ثقافت پر اثر اندازگروہ ہوتا ہے جس کے اراکین لوگوں کے درمیان ہیں، دانش ورانہ کام، وغیرہ کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں اصطلاح اشرافیہ (elites) کے معانی میں تضاد پایاجاتا ہے۔ بعض افراد اس اصطلاح کے معانی سمجھے بغیر اس لفظ کی بے تکی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ اشرافیہ کی ایک تعریف میکس ویبر نے کی ہے جو کافی مقبول ہے جس کی رُو سے وہ سب لوگ، جن کا سماجی ، سیاسی اور معاشی رتبہ (اس نے لفظ position استعمال کیا ہے) عام شہریوں سے بڑھ کر ہے وہ سب اشرافیہ میں آتے ہیں۔ امراء، سیاست داں، بیورو کریٹ اور یہاں تک کہ ویبر فوجی افسران، دانش وروں اور مذہبی شخصیات (جیسے مولاناحضرات اورپادری وغیرہ) کو بھی اشرافیہ میں شامل کرتا ہے۔
وہ لکھتا ہے کہ ہر دور دراصل اس اشرافیہ کے باہمی تعامل (interaction ) اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے equilibrium (توازن کی وہ حالت جس پر اشرافیہ کے تمام گروہ متفق ہوں) کا مظہر ہے۔ اس لیے ویبر اسکول آف تھاٹ میں اشرافیہ اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی، جس کے لیے سب سے اہم پیمانہ یہ ہے کہ آیا اشرافیہ کے باہمی تعامل سے ترقی پسند دور وجود میں آتا ہے یا رجعت پسندی و افلاس کا غلبہ رہتا ہے۔
اشرافیہ کی دوسری تعریف مارکس نے کی ہے جو اسے سماجی سیاسی اور معاشی رتبے کے بجائے سرمایہ (یعنی دولت) سے متعین کرتا ہے ۔ اس ا سکول آف تھاٹ کے مطابق سماجی سیاسی اور معاشی رتبہ دراصل دولت کا مظہر ہے یا اہل دولت کی عطا ہے۔ یوں اشرافیہ سے مراد محض دولت مند طبقہ ہے یا ان کے منظور نظر افراد اس میں شامل ہیں۔ اس تعریف کو جدید سوشل سائنسز میں نامکمل سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ یہ تمام سیاسی، معاشی اور سماجی مظاہر کی مکمل تشریح سے قاصر ہے اور اس میں تنوع نہیں ہے۔
چناں چہ بعض افراد، مثلا کولمبیا یونیورسٹی کے استاد شمس رحمان خان، نے اپنے مضمون The Sociology of Elite میں ویبر اور مارکس کی تعریفوں کو یک جا کر کے اشرافیہ کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں ان کے مطابق اشرافیہ میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے پاس وسائل (یعنی دولت، سرمایہ) موجود ہیں یا وہ سماجی (جیسے کہ مذہبی عہدہ، دانش ور) اور سیاسی (جیسے کہ فوجی افسران، بیورو کریٹس) رتبے کے حامل ہیں۔
پولیٹیکل اکانومی کے لٹریچر کا ایک بڑا حصہ اس بات پر بحث کرتا ہے کہ ایک سیاسی و معاشی، یہاں تک کہ سماجی نظام ،جب مستحکم ہو تو اس سے مراد یہ ہے کہ اشرافیہ کے تمام گروہ اس کی اس حالت (Equilibrium) پر متفق ہیں اور یہ کہ تمام بڑی تبدیلیاں اشرافیہ کے گروہوں کے درمیان تصادم (دوسرے لفظوں میں Disequilibrium ) کے سبب آتی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال میں سول وار شامل ہے۔
یہاں تک کہ اولسن کہتا ہےکہ سوشلسٹ نظام جن ممالک میں آیا وہاں اشرافیہ پہلےہی سےحالت تصادم میں تھی اور سوشلسٹ تحریکوں کو بھی اشرافیہ کے کسی طاقت ور گروہ کی مدد حاصل تھی۔ یوں پاکستان کی موجودہ کس مپرسی اور ابتر حالت کے ذمے دار پاکستان میں اشرافیہ کے وہ تمام گروہ ہیں جو اس کی موجودہ حالت پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ ہنوز اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں۔
کیا اشرافیہ کے گھبرانے کا وقت آگیا ہے؟
کاش، ہمارے حکم راںعام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں ،جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کے لیے خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ اب ملک کے ستّر فی صد عوام یہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ ٹیکس کے پیسوں پر حکومتی، سیاسی اور سرکاری اشرافیہ کی آسایشوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پاکستان کی ہر نوع کی سرکاری اشرافیہ کےپُر آسایش طرز زندگی پر پاکستان کے خزانے سےاربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
ایک عام پاکستانی ، غریب، سفید پوش، دیہاڑی دار آٹے ، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کرکے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پرٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پر آسایش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ پچاس فی صدلوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب وروز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔
تن خواہ دار طبقہ بیش ترسفید پوش ہے، جوبہ ظاہر تین وقت کھاتا ہے ۔اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔ مہینےکے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی ،آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔ یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے۔
اتنا ٹیکس دینےکے بعد بھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔ ایک عام پاکستانی کو اگر کسی سرکاری دفتر میں کام پڑ جائے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ خالی جیب کسی سرکاری دفتر میں قدم نہیں رکھ سکتا ۔جب تک وہ قدم قدم پر چھوٹے بڑے سرکاری بابووں کو رشوت نہیں دے گا کوئی اسے منہ نہیں لگائے گا۔
واضح تفریق
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے ایک برس قبل جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور اسٹیبلیشمنٹ کو دی گئی اقتصادی مراعات ایک اندازے کے مطابق 17.4ارب ڈالر یا ملکی معیشت کا تقریباً 6 فی صد کے برابر ہیں۔ اور ملک میں مراعات حاصل کرنے والا سب سے بڑا شعبہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جو مجموعی طور پر 4.7ارب ڈالرز کی مراعات یا سبسڈیز حاصل کررہا ہے۔
ان مراعات میں ٹیکس بریکس، چیپ اِن پٹ پرائس، اعلیٰ آؤٹ پٹ پرائس یا سرمائے تک ترجیحی رسائی، زمین اور خدمات تک ترجیحی رسائی سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ مراعات ملک کے امیر ترین ایک فی صد افراد حاصل کرتے ہیں جو ملک کی مجموعی آمدنی کےنوفی صد کے مالک ہیں اور جاگیردار، جو آبادی کا 1.1 فی صد ہیں، لیکن تمام قابل کاشت زمین کے 22 فی صدکے مالک ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمائندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پربحث کی جاتی ہے۔
اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیوں کہ پارلیمان میں موجود نمائندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو بھی کاروباروں کے لیے سالانہ 1.7ارب ڈالرز کی مراعات دی گئیں۔ یہ مراعات زمین، سرمائے اور انفراسٹرکچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ کی صورت میں دی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے امیرایک فی صد افراد کے پاس 2018-19 میں ملک کی 3.14.4 ارب ڈالر کی آمدن کا 9فی صد تھااور غریب ترین ایک فی صدافرادتک صرف 0.15فی صد ہی پہنچ پایا۔ مجموعی طور پر بیس فیصد امیر ترین پاکستانی قومی آمدنی کا 49.6 فی صد رکھتے ہیں اور غریب ترین 20 فی صد کے پاس صرف 7فی صدہے۔
رپورٹ کے مطابق غریب اور امیر پاکستانی واضح طورپر دو مختلف ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں خواندگی کی سطح، صحت کی سہولتیں اور معیار زندگی مکمل طور پر ایک دوسرے سے مختلف، بلکہ متضاد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں متوسط طبقہ مسلسل تشویش ناک حد تک سکڑ رہا ہے۔ درمیانی آمدن والے افراد 2009ء میں آبادی کے 42 فی صدسے کم ہو کر 2019ء میں 36 فی صد رہ گئے تھے۔