قارئین آپ کو نیا سال مبارک ہو ۔ سال 2014ء کے شروع ہوتے ہی پہلی ہی تاریخ کو سپریم کورٹ میں سابق مرد ِ آہن جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی۔ بظاہر موجودہ حکومت کی پوری کوشش یہ نظر آتی ہے کہ 12اکتوبر 1999ء میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے اور آئین توڑنے کے مرتکب فوجی حکمران کو پہلی بار غداری کے جرم میں کڑی سزا دلوائے۔ جبکہ ماضی میں پاکستان میںجمہوری حکومتوں کو بار بار توڑنے اور آئین کو پامال کرنے والےکسی بھی جرنیل کا ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک کاکوئی ٹرائل نہ ہوسکا ۔بلکہ وہ عدلیہ کے کندھوں کو استعمال کرکے سیاستدانوں کی مدد سے ایک عرصہ تک پا کستان پر حکمرانی کرتے رہے۔ اگر ہم ایمانداری سے تجزیہ کریں تو اس صورتحال کی ذمہ داری سیاستدانوں کی غلطیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف کی ایک غلطی یہ بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے تین 4سینئر جرنیلوں کو چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائز کروایا پھر غیر متوقع طور پر ایک جنرل کو کور سے باہر سے لا کر چیف آف آرمی اسٹاف بنا ڈالا۔ اس مبینہ غیر منطقی فیصلے کے خلاف بغاوت کرکے فوج نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا اورنواز شریف صاحب کی حکومت ختم کرکے انہیں پابند ِ سلاسل کردیا ۔ جس وقت یہ بغاوت ہوئی جنرل پرویز مشرف کا جہاز پاکستانی علاقے میں محو ِ پرواز تھا اس لئے ایک رائے یہ ہے کہ بغاوت کا دراصل جرنیلوں نے خود جی ایچ کیو میں بیٹھ کر فیصلہ کیا ہو گا ۔ اسی لئے جب جنرل ضیاء الدین بٹ آرمی چیف بن کر جی ایچ کیو پہنچے تو ایک معمولی سپاہی نے بھی دروازہ کھولنے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ اس موقع پرہماری عدلیہ کا رویہ یہ تھا کہ سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت دیگر ججز صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر ماضی کی طرح نئے فوجی حکمران کی کارروائی کی توثیق کر دی جو نظریہ ضرورت کی ہی ہم شکل تھی۔ پھر کیا تھا نواز شریف حکومت کے تمام مخالف بشمول خود انکی پارٹی کے چوٹی کے سیاستدانوں نے مشرف حکومت کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے مشرف حکومت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی ۔ مگر جب حالات نے پلٹا کھایا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جبری طور پر غیر فعال بنانا ان کے گلے میں کانٹا بن گیا ۔ وکلا نے پورے ملک میں جلسے جلوسوں سے چیف جسٹس کو دوبارہ ان کا مقام دلا دیا ۔ الیکشن میں مسلم لیگ ق اور مشرف حکومت کے امیدوار شکست کھا گئے ۔ پی پی پی کی حکومت آ گئی مگر جاتے جاتے جنرل پرویز مشرف گارڈ آف آنر کے ساتھ قصرِ صدارت سے رخصت ہو گئے۔ اب جب کہ تمام دیگر مقدمات بشمول لال مسجد سانحہ ، اکبر بگٹی کا قتل ، کراچی میں 12مئی کو چیف جسٹس کی آمد پر شہریوں کا قتل عام سمیت تمام کیسز میں پرویز مشرف ضمانت لے چکے تو سب سے آخر میں حکومت کو آئین توڑنے اور ایک منتخب حکومت ختم کرنے کا مقدمہ چلانے کی سوجھی۔ اب جبکہ مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت صاحب نے پرویز مشرف کے تنہا فیصلے کو اجتماعی فیصلہ قرار دیتے ہوئے تمام متعلقہ افراد کے خلاف یکساں کارروائی کی استدعا کر کے پنڈورا باکس کو کھولا ہےتو ان کی حمایت میں جناب الطاف حسین نے بھی ایسا ہی عندیہ دے دیا ہے ۔ جس کا فائدہ پرویز مشرف کے موقف کو پہنچے گا اورموجودہ حکومت کے الیکشن میں کئے گئے تمام وعدوں کو پورا کرنے ، گیس اور بجلی کے بحران ،مہنگائی، دہشت گردی پر قابو پانے اور کشکول کو خوبصورتی کے ساتھ چھپانے کی کوشش میں ناکام ہو جائے گی کیونکہ صدر ِ مملکت ممنون حسین صاحب نے سادگی میں کشکول ٹوٹنے کا ٹائم ٹیبل بڑھا دیا ہے ۔ اگرچہ ہمارے وزیر خزانہ ڈالر دوبارہ 90روپے پر لانے کا وعدہ کر چکے ہیں ۔ عوام کس کی بات پر یقین کریں ؟ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کے حوالے سے فی الحال خود ان کا ہی یہ دعویٰ سچا ثابت ہوتا نظر آرہا ہے کہ اگر عدلیہ نے مشرف کو سزا سنا بھی دی تو فوج اسے قبول نہیں کرے گی ۔ایک قیاس آرائی یہ بھی ہے کہ جس طرح نواز شریف صاحب کی عمر قید کی سزا کے بعدایک برادر ملک نے ان کو نکالا تھا پھر وہی عمل دوبارہ ہو گا جس کو حکومت کسی طور پر مسترد نہیں کر سکے گی ۔ آخری آپشن کے طور پر ہمدردی میں پرویز مشرف کی والدہ کی بیماری بھی وجہ رہائی بن سکتی ہے۔اس طرح پرویز مشرف ان تمام مقدمات سے صاف بچ نکلیں گے ۔ مگر ان اندازوں کی حقیقت کا تعین صرف وقت ہی کرے گااور وہ بھی اسی سال یعنی 2014ء میں۔ قوم تیار رہے مقدمات یونہی دھرے رہ جائیں گے ۔ ہر طرف دوبارہ مایوسی کے بادل چھانے لگے ہیں جو موجودہ حکومت کے آنے سے کچھ وقت کیلئے امید کے سائے میں چھٹ چکے تھے ۔ ابھی میں نے کالم ختم کیا تھا اور اتفاق سے اسلام آباد میں فرانسیسی قونصلیٹ سے باہر نکلا ہی تھا کہ معلوم ہوا کہ اسلام آباد کی تمام سڑکیں پولیس، رینجرز اور فوج نے بند کر رکھی ہیں کیونکہ عدلیہ نے ملزم پرویز مشرف کو عدالت میں طلب کر لیا ہے ۔ ان کے فارم ہائوس سے لے کر سپریم کورٹ تک دونوں اطراف پولیس ، رینجر اور فوج کے جوان تعینات کر کے تمام ٹریفک بند کر رکھی ہے ۔ میں نے ایک نجی سیکورٹی کے مالک جو میرے دوست بھی ہیں وہ بھی قونصلیٹ سے باہر نکل رہے تھے ان سے اس سیکورٹی پر اُٹھنے والے اخراجات کا اندازاً تخمینہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میری معلومات کے مطابق 1500اہلکار ، پولیس ، رینجر ، فوج ، گاڑیوں کا استعمال ، پیٹرول کے اخراجات اور 15ہیلی کاپٹر کی نگرانی پر تقریباً 40کروڑ روپے خرچ ہونگے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ہم اتنے امیر ہو چکے ہیں کہ ایک دن لاکھوں افراد کو محصور کر کے ایک ملزم کو اسی شان سے عدلیہ کے سامنے پیش کر کے قوم کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے ۔