پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی تمام اقسام یعنی اے، بی، سی، ڈی اور ای عام ہیں اور ماہرین کے مطابق، ان کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ حکومتوں کی عدم دل چسپی ہے۔ اس کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مُلک میں 4مرتبہ’’قومی پالیسی برائے تدارک ہیپاٹائٹس‘‘ بن چُکی ہے، لیکن کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ بہت سے ممالک، عالمی ادارۂ صحت کے’’ ہیپاٹائٹس فِری پروگرام2030ء‘‘ میں شامل ہو کر اِس موذی مرض سے چھٹکارا پا چُکے ہیں، جن میں مِصر سرِفہرست ہے، تاہم پاکستان ابھی تک اِس ہدف سے کوسوں دُور ہے۔
ہیپاٹائٹس سی
2021 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے اعتبار سے سرِفہرست ہے۔ اگر اعداد و شمار کی بنیاد پر بات کریں، تو پاکستان کی کُل آبادی کا پانچواں یا چھٹا حصّہ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہے۔یعنی کم و بیش ایک کروڑ، بیس لاکھ افراد اِس مرض میں مبتلا ہیں۔ جب کہ دنیا بَھر میں اس کے مریضوں کی تعداد7کروڑ ہے اور اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سالانہ 4 لاکھ ہے، جب کہ پاکستان میں اِس مرض سے اموات کی تعداد93لاکھ سے بھی متجاوز ہے اور اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا افراد میں سے صرف 20فی صد ہی کو اپنی بیماری کا علم ہے۔
اِسی لیے عوام سے بار بار درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنا ہیپاٹائٹس بی اور سی کا ٹیسٹ ضرور کروائیں۔ یاد رہے، جس قدر جلد اور ابتدائی ایّام میں اس مرض کی تشخیص ہوگی، اُسی قدر علاج آسان، سستا اور دیرپا ثابت ہوگا۔پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے علاج کا تخمینہ 12000 سے 30000 روپے کے درمیان ہے اور یہ کہ علاج سے 95فی صد متاثرہ افراد میں وائرس ختم ہوجاتا ہے۔2021ء کے اعداد وشمار کے مطابق، صرف دو لاکھ، پچاس ہزار افراد،یعنی تقریباً 2 فی صد نے ہیپاٹائٹس سی کا علاج کروایا، جب کہ اِس مرض کے 2,38,000 کیسز سامنے آئے، یعنی ہر سال70ہزار مریض اس پول میں شامل ہو رہے ہیں اور اگر تشخیص و علاج کے معاملے میں اِسی طرح عدم دل چسپی برقرار رہی، تو2030ء تک 14لاکھ افراد اس مرض سے ہلاک ہوجائیں گے، جن میں آدھے افراد 50سال سے کم عُمر ہوں گے، اِسی طرح لاکھوں افراد معذور یا کام کے قابل نہیں رہیں گے اور معاشرے پر بوجھ بن جائیں گے۔ یاد رہے، ہیپاٹائٹس سی کے تدارک کے پروگرام پر عمل درآمد میں سُستی سے ہر20منٹ میں ایک فرد اس مرض کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی
ہیپاٹائٹس بی، کالے یرقان کی دوسری قسم ہے۔ پاکستان میں اِس کی شرح2.5 سے3فی صد ہے، یعنی تقریباً80لاکھ افراد کسی نہ کسی صُورت اس مرض کا نشانہ بن چُکے ہیں، جب کہ لاکھوں افراد اب بھی اس وائرس کو اپنے جسم میں لیے گھوم رہے ہیں۔ دنیا بَھر میں ہیپاٹائٹس بی سے سالانہ ہلاکتوں کی تعداد 8 لاکھ ہے۔ یہ وائرس، ایڈز سے بھی زیادہ مہلک ہے۔تاہم، اِس سے بچاؤ کی ویکسین گزشتہ30 ،35 سالوں سے دنیا بَھر میں دست یاب ہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ای پی آئی پروگرام میں(بچّوں کی پیدائش کے بعد حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام) 2002ء سے شامل ہے۔
لہٰذا، وہ تمام بچّے جو 2002ء کے بعد پیدا ہوئے اور اُنھیں ٹیکے بھی لگوائے گئے، اب اُنھیں ہیپاٹائٹس بی ویکسین کی ضرورت نہیں ہے، جب کہ2002ء سے پہلے پیدا ہونے والوں کو حفاظتی ویکسین ضرور لگوانی چاہیے۔ فی الوقت پاکستان میں20سال سے زاید عُمر کے افراد میں حفاظتی ویکسین لگانے کی شرح12سے15فی صد ہے، جو کہ ایک المیہ ہے۔ حکومتِ سندھ نے کئی سالوں سے صوبے کے بڑے اسپتالوں میں ہیپاٹائٹس بی کے مفت حفاظتی ٹیکوں کا انتظام کر رکھا ہے، تاہم عوام کا اس طرف رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں ہر شخص کو زندگی کے کسی بھی حصّے میں ہیپاٹائٹس بی ہونے کا اندیشہ 60فی صد ہے۔
یہ مرض پاکستان، خصوصاً اندرونِ سندھ جگر کے فیل ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کی سندھ کے بالائی اضلاع کشمور، جیکب آباد، سکھر، گھوٹکی، شکارپور، شہداد پور، خیرپور اور لاڑکانہ کے علاوہ پنجاب میں رحیم یار خان، ڈیرہ غاری خان، صادق آباد اور ملتان میں15سے20فی صد، جب کہ بلوچستان میں ڈیرہ مُراد جمالی، اوستہ محمّد اور ڈیرہ اللہ یار میں 15 سے 20فی صد کی شرح ہے۔
متاثرہ افراد میں سے 60فی صد کو باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ30سے 40فی صد افراد میں، جو کہ30سال سے کم عُمر ہوں، وائرس اور جگر کی گرمی مانیٹر کی جاتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کی ادویہ عموماً دس، بارہ سال یا پھر زندگی بَھر کھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، اِس لیے مریضوں کو چاہیے کہ جب بھی ہیپاٹائٹس بی کی دوا شروع کریں، تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ دوا لمبے عرصے تک چلے گی۔ سندھ حکومت ایسے افراد کو مفت علاج کی سہولت صرف ایک سال تک فراہم کرتی ہے، جب کہ یہ ادویہ کم از کم5 سے 10سال تک مفت دی جانی چاہئیں۔
ہیپاٹائٹس ڈی
یہ بھی بی اور سی کی طرح خون سے پھیلنے والا کالا پیلیا ہے۔ یہ صرف اُن لوگوں کو لاحق ہوتا ہے، جو پہلے ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہوں۔ یہ وائرس، ہیپاٹائٹس بی کے 24فی صد مریضوں میں پایا گیا ہے اور یہ پاکستان کے اُس حصّے میں زیادہ ہے، جسے’’ DELTA BELT ‘‘کہتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں سندھ اور بلوچستان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور ڈی میں مبتلا 50 فی صد افراد مرض کی تشخیص تک جگر کے سکڑنے کا شکار ہو چُکے ہوتے ہیں اور اس کے علاج میں اب تک خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
ہیپاٹائٹس اے
پاکستان میں پیلے یرقان کے مریضوں میں سرِفہرست ہیپاٹائٹس اے اور ای کے مریض ہیں۔ تمام اقسام میں سے ہیپاٹائٹس اے کی شرح سب سے بلند ہے اور یہ دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای کے پھیلاؤ کا اہم سبب آلودہ پانی اور ناقص خوراک ہے، لہٰذا جن ممالک میں صاف پانی دست یاب نہیں اور نکاسیٔ آب کا بھی مناسب انتظام نہیں ہوتا، وہاں ہیپاٹائٹس اے اور ای کا راج ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس اے پاکستان میں6سال کی عُمر تک پہنچنے والے 96فی صد بچّوں میں پایا جاتا ہے، یعنی ہر100میں سے صرف چار بچّے ہی اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ واضح رہے، سویڈن میں یہ شرح صرف 2فی صد ہے۔
گویا کسی بھی مُلک میں صاف پانی اور نکاسیٔ آب کا معیار پرکھنے کے لیے اُس مُلک میں ہیپاٹائٹس اے کی شرح دیکھ لی جائے۔ خوش قسمتی سے ہیپاٹائٹس اے سے ہلاک ہونے والے بچّوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم، اس مرض کی تشخیص اور علاج معالجے پر بھی لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے ایک مرتبہ ہونے کے بعد پھر کبھی نہیں ہوتا، اِس لیے ماہرینِ جگر غریب اور ترقّی پذیر ممالک میں نومولود بچّوں کے لیے اس سے بچاؤ کی ویکسین کو زیادہ ضروری نہیں سمجھتے۔ یاد رکھیں، پانی اُبال کر پینے اور ہاتھ منہ کی صفائی سے ہیپاٹائٹس اے اور ای میں واضح کمی آسکتی ہے۔
ہیپاٹائٹس ای
ہیپاٹائٹس ای کے پھیلاؤ کے ضمن میں پاکستان دنیا کے نمایاں ممالک میں شامل ہے۔ 2002ء میں کی جانے والی پروفیسر ڈاکٹر سعید حمید کی ایک تحقیق کے مطابق، ہیپاٹائٹس ای کی شرح پاکستان میں جگر کے مریضوں اور بظاہر صحت مند افراد میں17فی صد تھی، لیکن 2022ء میں ایمس اسپتال، حیدر آباد کی تحقیق کے مطابق یہ شرح63فی صد تک پہنچ چُکی ہے۔ اس کی اہم وجوہ صاف پانی کی عدم فراہمی اور نکاسیٔ آب کا ناقص انتظام ہی ہے۔
بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کے نعرے نئے اور پرانے پاکستان ہی کے گرد گھومتے ہیں، حالاں کہ ہمارا نعرہ’’ عوام ، تعلیم اور صحت و صفائی کو عزّت دو‘‘ ہونا چاہیے۔ پاکستان نیا ہو یا پرانا اور یہاں ہیپاٹائٹس ای سے اموات محدود ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر ہیپاٹائٹس سی حاملہ خواتین یا پہلے سے جگر کی خرابی میں مبتلا مریضوں کو ہوجائے، تو 25فی صد افراد جگر فیل ہونے کے باعث مر جاتے ہیں۔ ہائی رسک مریضوں(حاملہ خواتین اور CLD ) کو ہیپاٹائٹس ای کی ویکسین ضرور لگوانی چاہیے، جو کہ الحمدللہ،2021ء سے پاکستان میں دست یاب ہے۔ (مضمون نگار، ایمس اسپتال، حیدر آباد میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں)