جنرل مشرف کو سزا تو ہوسکتی ہے مگر انہیں گھبرانے کی یوں ضرورت نہیں کہ نوازشریف جب ان کو 1999ء کے کیس میں دل سے معاف کرچکے ہیں تو 2007ء کے کیس میں بھی ان کو صدارتی معافی تو مل ہی جائے گی مگرشرط یہ ہے کہ پہلے عدالت مشرف کو مجرم ہونے کے بعد سزا سنائے اورپھر وہ رحم کی درخواست صدر کو بھیجیں۔ مشرف کی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ وقت ہی نہ آئے کہ فرد جرم عائد ہو مقدمہ چلے اور پھر فیصلہ آئے۔ تو دراصل اتنی مہنگی اوربڑی وکیلوں کی فوج رکھنے کا مقصد صرف حکومت اورعدالت پر دبائوڈالنا ہے کہ کسی طرح کیس شروع ہی نہ ہو اورمشرف کو عدالت میں ایک مجرم کی طرح پیش نہ ہونا پڑے۔ انہوں نے پوری کوشش کرلی ہے کہ فوج کو اپنی طرف جھکا دیا جائے مگر کھل کر نہ فوج ان کے ساتھ کھڑی ہوگی نہ حکومت کیخلاف تو اب آخری کوشش یہی ہوگی کہ علاج کے بہانے کھسک لیا جائے اور چکلالہ کی پتلی گلی سے نکل جائیں مگر حکومت والوں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں کیونکہ ایک اصلی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی ذلت اٹھانے کے بعد اب دیسی ریمنڈ ڈیوس کو بھی اگر شریف برادران کے ہاتھ سے قوتیں چھین کر لے گئیں تو پھر میاں صاحب کی حکومت کی بڑی بھد ہوگی اور لوگ کہیں گے کہ یہ حکومت صرف دکھاوے ہی کی ہے اصلی طاقتیں وہی ہیں جو ہمیشہ سے رہی ہیں تو سوال اٹھے گا کہ مشرف کے مقدمے کی تجویز کس لیگی ماسٹرمائنڈ کی تھی اورکیا یہ سارا ڈھونگ اور میلہ نوازشریف کا کمبل چرانے کیلئے لگایا گیا تھا۔
تو آخری مسکراہٹ تو مشرف ہی کے چہرے پر ہوگی کیونکہ ان کو اب اپنی جان بچانے اور سزا سے بچنے کے علاوہ دوسرا ہدف تلاش کرنامشکل ہوگا مگر اس سارے کھیل میں الطاف بھائی ایک نئی طرف حالات کو گھمانے کی کوشش کررہے ہیں اوراس کہانی میں انہوں نے مشرف کا بھی ایک کردار ڈال دیا ہے یعنی اپنے دھوم دھڑکے والے بیان میں جہاں انہوں نے سندھ کے دو صوبے اور ایک نیا ملک بنانے کی دھمکی دی ہے وہیں وہ مشرف کو بھی کراچی اور مہاجروں کی سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں۔ یوں تو مشرف کبھی اس طرح چھوٹی اور تنگ نظر، پاکستان کو مزید ٹکڑے کرنے کی سیاست میں نہ پڑتے مگر جو ایک نیا باب کھل سکتا ہے وہ کراچی کے اردو بولنے والوں کی قیادت کے حوالے سے ضرور انہیں اچھا لگے گا کیونکہ الطاف بھائی نے تو ان کی کھل کر حمایت اس لئے کی ہے کہ وہ بھی اردو بولتے ہیں اورمشرف اگریہ پیشکش مان لیتے ہیں تو یوں سمجھیں کراچی والوں کو ایک نیا لیڈر ملنے والا ہے۔ ہوسکتا ہے اس سے پہلے کہ مشرف کے مقدمے کا فیصلہ ہوالطاف بھائی مشرف کو کراچی آنے کی دعوت دے دیں اور ان کیلئے ہزاروں لاکھوں مجمع لگا کر انہیں مہاجروں کا لیڈر بنانے کی کوشش کریں یہ اس تناظر میں بھی اہم ہوسکتا ہے کہ خود الطاف بھائی کے خلاف لندن میں جو صورتحال بگڑرہی ہے وہ کسی ایسے موڑ پر آجائے کہ الطاف بھائی کو سامنے سے ہٹنا پڑجائے۔ جس طرح متحدہ کے لوگ اب لندن کی پولیس اور حکومت پر کھل کر تنقید کررہے ہیں اور الطاف بھائی اوردوسرے لیڈروں کے گھروں پر چھاپوں اورتفتیش کی شکایت کررہے ہیں اس سے تو لگتا ہے حالات بہت نازک مرحلے پر آچکے ہیں اورمتحدہ کے لیڈر اب یہ سونگھ رہے ہیں کہ ان کو متبادل قیادت کی فوری ضرورت ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ جنرل مشرف اس طرح کی سیاست بھی کرسکتے ہیں مگروہ دن بھی تو یاد کریںجب وہ 12مئی2007ء کو اسلام آباد کے جلسے میں مکے لہرا کر دعویٰ کررہے تھے کہ کراچی میں انہوں نے اپنی طاقت کا کیسا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ طاقت متحدہ ہی کی تھی اورمشرف کے لگائے ہوئے متحدہ کے گورنر تو ابھی تک موجود ہیں اور ان کو نہ پیپلزپارٹی کی حکومت اور نہ ہی ن لیگ ابھی تک ہٹاسکی ہے تو اگر مشرف کو بالکل ہی دیوار سے لگادیا گیا یعنی ملک سے باہر نہ جانے دیا گیا‘ سزا سنادی گئی اور اتنی مٹی پلید کردی گئی کہ وہ رحم کی درخواست کرنے پر مجبور ہوگئے تو یہ کوئی ناقابل یقین بات نہیں ہوگی کہ وہ کھل کر مہاجروں کی سیاست میں چھلانگ لگادیںکراچی کی باگ ڈور سنبھال لیں اورالطاف بھائی کو یقین دلا دیں کہ وہ ان کے خواب کی تعبیر پوری کرسکتے ہیں حال ہی میں لندن سے ایک دوست تشریف لائے تو انہوں نے ایک مزیدار کہانی سنائی وہ اس الطاف مشرف بھائی بھائی کے موضوع پر تھی مگر یہ وہ دور تھا جب مشرف تو چاہتے تھے کہ وہ متحدہ کے قریب آئیں مگر الطاف بھائی ان کو کسی طرح کا خطرہ سمجھتے تھے۔دوست نے بتایا کہ لندن میں ایک بچی کی سالگرہ تھی اور دونوں مشرف اور الطاف بھائی کو بلایا گیا تھا اور دونوں نے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔ مشرف پہلے آگئےاورسب سے مل کر بیٹھ گئے۔
الطاف بھائی سب سے آخر میں آئے اور بھانپ کر کہ مشرف پہلے سے بیٹھے ہیں انہوں نے وہ ڈرامہ رچایا کہ سب کو یاد رہے گا۔دروازے میں سے انہوں نے بلند آواز میں پہلے تو بچی کو مبارکباد دی پھر ان کے والدین سے ملے پھر تمام شرکاء سے ایک ایک کرکے ہاتھ ملایا اور آخر میں جب مشرف کے پاس پہنچے تو انگلیاں ملا کر پھر دوسرے پروگرام میں مشغول ہوگئے۔یہ پیغام صاف تھا کہ لیڈر متحدہ کا میں ہوں اور کوئی جنرل کرنل یا سابق صدر میرا انتظار کرے جب میں چاہوں گا مل لوں گا‘ مگر یہ کچھ عرصہ پہلے کی کہانی ہے اب شاید الطاف بھائی کو مشرف کی ضرورت پیش آسکتی ہے یا آگئی ہے۔تو غداری کے مقدمے سے تو مشرف نکل ہی جائیںگے یا سزا بھی ہوگئی تومعافی مل سکتی ہے مگر الطاف بھائی کیلئے اب مہاجروں کی سیاست سے دوبارہ قومی دھارے میں آنا مشکل ہوتا جارہا ہے وہ سارے پنجاب اوردوسرے صوبوں میں متحدہ کے آفس کھولنے اورجلسے کرنے کا زمانہ لگتا ہے گزرگیا۔ اب انہوں نے جناح پور یا مہاجرستان یا مہاجر صوبے کی کال تو دے دی ہے اوران کو کوئی تگڑا مہاجر لیڈر بھی چاہئے جو ان کے مشن کو سنبھال سکے اور آگے لے جاسکے کیونکہ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں جو انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے تو وہ لندن چھوڑ کرآبھی سکتے ہیں اگرفرض کریں ان کے خلاف لندن میں کوئی کیس بھی چلتا ہے اورسزا بھی ہوجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ دو تین سال انہیں پابند سلاسل رہنا پڑے گا۔ پیسوں کے آگے پیچھے کرنے اورمنی لانڈرنگ کی سزا بھی اتنی ہی ہے وہ سزا کاٹ کر بھی واپس آسکتے ہیں اگرمشرف کی طرح کا کوئی لیڈر ان کی غیرموجودگی میں مہاجر سیاست کو آگے چلاتا رہے۔ کچھ ان کے دوست جو ناراض ہوکر کراچی چھوڑ گئے ہیں جیسے مصطفیٰ کمال یااوردوسرے وہ بھی واپس آسکتے ہیں تو الطاف بھائی نے آخری پتہ تو پھینک دیا ہے مگر کھیل اب شروع ہوگا مشکل میں نوازشریف آگئے ہیں اگر مشرف رہتے ہیں یا جاتےہیںسیاسی اثرنوازپرہوگااوراگر کراچی زیادہ ہی آپے سے باہر ہونے لگا تو بھی نواز کو ہی سنبھالنا ہوگا۔اب ان سے جو کچھ ابھی ہے وہ تو سنبھل نہیں رہا طالبان سے معاہدہ ہو بھی جائے اورکراچی کا محاذ کھل جائے تو گھاٹے کا ہی سودا ہوگا۔