• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم ایک ناشکری اور ناسپاس قوم ہیں۔ جس شخصیت نے ہمیں پاکستان جیسا لاجواب تحفہ دیا، اسی پر آئے دن بہتان تراشی کرتے ہیں۔ ان کی عظمت کو دنیا نے تسلیم کیا اور ہم ہیں کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے محسن کی ذات، سیاست اور افکار کو متنازع بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ آج کل تو پاکستان کی تخلیق ہی نشانہ پر ہے ۔ دین اسلام کی آفاقیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کی جڑ نعوذ باللہ اسلام کو قرار دیا جارہا ہے اور سیکولرازم میں پناہ ڈھونڈھی جارہی ہے۔ اور اس کے لئے جواز قائداعظم کے فرمودات سے جواز حاصل کرنے کی سعی ناکام کی جاتی ہے۔ اللہ رب العزت ڈاکٹر صفدر محمود اور اس قبیل کے دیگر بزرگوں کو اجر کثیر سے نوازے کہ ان لن ترانیوں کا جواب حتیٰ المقدور دیتے رہتے ہیں۔ مگر اس کا کیا علاج کہ ناشکروں کا یہ ٹولہ من پسند پروپیگنڈے کے حوالے سے گوئیبلز کے پیروکاروں میں شامل ہے کہ غلط بات کو اس تیقن اور تسلسل کے ساتھ پھیلایا جائے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔وہ اپنا تھیسس قانون ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے بانی پاکستان کے 11اگست 1947 کے خطاب پر استوار کرتے ہیں۔ جس میں آپ نے فرمایا تھا۔ ’’آپ آزاد ہیں، پاکستان کے اندر آپ کو اپنے مندروں، مسجدوں اور دیگر عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کس مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے ہمیں اسے آئیڈیل کے طور پر سامنے رکھنا چاہئے اور آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی ہندو رہے گا نہ کوئی مسلمان۔ لیکن یہ مذہب کے حوالے سے نہیں ہوگا، کیونکہ مذہب تو سب کے ذاتی عقائد کا حصہ ہے۔ فی الحقیقت یہ ایک سیاسی حوالہ ہے کہ ریاست کے تمام شہریوں کے حقوق یکساں ہوں گے‘‘۔
بنظر غائر دیکھا جائے تو ان فرمودات میں کچھ بھی تو قابل اعتراض نہیں۔ ایک نوآزاد ریاست کا سربراہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو مذہبی آزادی کی نوید دے رہا ہے اور بتارہا ہے کہ محض مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق روا نہیں رکھی جائے گی۔ مگر کج بحثوں کا کیا کیا جائے کہ کچھ کا کچھ بنادیتے ہیں۔ دراصل قیام پاکستان کے ساتھ ایک طبقے کی جانب سے نظام حکومت اور مستقبل کے آئینی خاکے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیداکرنے کی کوشش کی گئی۔ کہا گیاکہ اس جدید دور میں اسلام کو نئی مملکت کے آئین کی بنیادنہیں بنایا جاسکتا۔ جنوری 1948 میں عیدمیلاد النبی ﷺ کے موقع پر قائداعظمؒ نے اس پروپیگنڈے کا مسکت جواب دیا۔ آپ نے فرمایا:’’پیغمبر اسلامﷺ ایک عظیم معلم، بے مثل اسٹیٹ مین اور ایک ارفع مقنن اور حکمران تھے۔ بیشک جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام محض چند عبادات و عقائد و رسومات کا مجموعہ نہیں، تو بعض لوگوں کو گراں گزرتا ہے ۔نئی ریاست کے آئین اور نظام حکومت کے حوالے سے قائداعظمؒ کے افکار بالکل واضح تھے، جس کا اعادہ فروری 1948 میں امریکی شہریوں کے نام ایک ریڈیو براڈکاسٹ میں آپ نے یوں فرمایا: ’’پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے ہنوز آئین تشکیل دینا ہے۔ جس کی حتمی شکل کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مگر ایک بات یقینی ہے کہ ہمارا آئین جمہوری اور اسلامی عقائد کی روح لئے ہوئے ہوگا۔ وہ عقائد جو ہماری زندگیوں میں آج بھی ویسے ہی قابل نفاذ ہیں جیسے کہ تیرہ سو برس پہلے تھے۔ اسلام اور اس کے آئیڈیلزم نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ اس نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور سب کے ساتھ بھلائی کا درس دیا ہے۔ ہم ان پرشکوہ روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئین کی تشکیل کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں‘‘۔ مزید فرمایا کہ ’’آئین کی شکل کوئی بھی ہو مگر یہ تھیوکریسی نہیں ہوگی۔ یہ اسلامی جمہوریت ہوگی‘‘۔ جس کی مزید وضاحت 14فروری 1948 کو منعقد ہونے والے سبی دربار میں یہ کہہ کر فرمائی: ’’میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات دنیا کے عظیم قانون دہندہ یعنی پیغمبر اسلام ﷺ کی پیروی میں مضمر ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیاد حقیقی اسلام اقدار و ضوابط پر رکھنا ہوگی اور فرمان کے مطابق ریاستی امور سے متعلق تمام فیصلے باہمی مباحث اور مشاورت سے کرنا ہوں گے‘‘۔
اس سے چند روز پیشتر 26دسمبر 1947کو آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی میں ہونے والے اجلاس میں دین کو پاکستانی قومیت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ہمارے اندر اتحاد و یگانگت کا پیدا ہونا فطری امر ہے، کیونکہ ہمارا اللہ ایک ہے، ہمارا رسول ﷺ ایک ہے اور ہماری کتاب ایک ہے، تو ہم بھلا ایک قوم کیوں نہیں بن سکتے؟‘‘اسلام کی آفاقیت کی بہترین تشریح اس تقریر میں موجود ہے ، جو قائداعظمؒ نے 7اپریل 1948 کو پشاور کے گورنر ہائوس میں ایک قبائلی جرگہ میں کی تھی، فرمایا: یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں تمام مذہبی، سیاسی، سماجی، شہری، تجارتی، فوجی، عدالتی اور فوجداری معاملات کے حوالے سے رہنما اصول موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسومات کے سلسلے میں ہی نہیں، روزمرہ زندگی کے معاملات میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے اور اسے باضابطہ بناتاہے۔ یہ ہمارے انفرادی حقوق سے لے کر اجتماعی حقوق تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی موت تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، غرض ہر معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ پس اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو پوری مسلم سوسائٹی کو چلارہا ہے۔ اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے پر پوری طرح حاوی ہے‘‘۔
پاکستان کے معاشی نظام کے بارے میں بھی قائد کی سوچ بڑی واضح تھی۔ آپ مروج معاشی نظاموں سے مایوس تھے اور حقیقی اسلامی تصورات پر مبنی نیا اقتصادی نظام لانا چاہتے تھے۔ 19مارچ 1944 کو لاہور میں پنجاب مسلم فیڈریشن سے خطاب میں آپ نے فرمایا تھا۔ ’’میں کمیونسٹوں کو خبردار کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو معاف ہی رکھیں، کیونکہ ان کا رہنما اسلام ہے ، جو مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس کی موجودگی میں انہیں کسی ازم کی ضرورت نہیں‘‘۔ کمیونزم کی طرح آپ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سے بھی مایوس تھے۔ یکم جولائی 1948 کو اسٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب میں فرمایا:’’مغرب کے معاشی نظام نے نوع انسانی کے لئے قریب قریب ناقابل حل مسائل پیدا کئے ہیں۔ اور دنیا کو درپیش تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔‘‘ آگے چل کر فرمایا:ہمیں اپنا مقدر خود بنانا ہوگا اور دنیا کو ایسا اقتصادی نظام دینا ہوگا جس کی بنیاد انسانی مساوات اور سماجی انصاف پر ہو یوں بطور مسلمان ہم اپنے مشن کی تکمیل کرپائیں گے‘‘۔ قائداعظم جاگیرداری کے بھی سخت خلاف تھے۔
24اپریل 1943 کو دہلی میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے 30ویں اجلاس میں فرمایا: ’’میں یہاں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو وارننگ دینا چاہتا ہوں، جنہیں یہ عروج ہمارے استحصال سے حاصل ہوا ہے، کہ وہ ایک غیراخلاقی، مکارانہ اور خود غرضانہ نظام کی پیداوار ہیں۔ عوام کا استحصال گویا ان کے خون میں ہے.... آپ دیہات میں جائیں ، آپکو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ ملیں گے جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی بمشکل میسر ہے۔ کیا اسکو تمدن کہتے ہیں؟ کیا یہ ہے پاکستان کا مقصد؟ اگر پاکستان کا یہی نقشہ ہے تو میں ایسے پاکستان سے باز آیا‘‘۔ قائد کے ان افکار کا بنظر غائر جائزہ لیں ، تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ قائداعظم ؒ کا تصور پاکستان جدید اسلامی، فلاحی، جمہوری مملکت کا قیام تھا، تاکہ اسے اسلام کی تجربہ گاہ بناکر دنیا کو اسلام کی صحیح تصویر دکھا سکیں۔ آپ مملکت خداداد میں جمہوری کلچر کے ساتھ ساتھ اجتہادی کلچر کو بھی فروغ دینا چاہتے تھے۔ قائداعظم کی اسلامی ریاست میں فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت اور نسل پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ ملائیت اور پاپائیت کے بھی خلاف تھے۔ ہمیں قائداعظم کا یہ احسان کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ انہوں نے ہمیں غلامی سے نجات دلائی، ورنہ آج ہماری حالت کشمیری مسلمانوں جیسی ہوتی۔ سیکولرازم اور متحدہ ہندکے سحر میں مبتلا ’’دانشوروں‘‘ کی عقل پر جانے کیوں پردہ پڑ گیا ہے۔ سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک انہیں دکھائی کیوں نہیں دیتا؟
تازہ ترین