نگراں وزیراعظم کوئی انتظامی یاسیاسی بیک گراونڈ کا ہوگا یا کوئی معیشت کا ماہر۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اس بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔
حکمران اتحاد پی ڈی ایم اور پی پی پی کی لیڈرشپ کا خیال ہے کہ اُن کی مرضی کا کوئی ایسا انتظامی و سیاسی تجربہ رکھنے والا فرد ہو جس پر اُن کو اعتماد ہو اور جو انتخابات ساٹھ یا نوے دن میں کروانے میں مخلص ہو۔
مقتدر حلقوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی معاشی ماہر جس کا انتظامی امور میں بھی تجربہ ہو کو نگراں وزیراعظم ہونا چاہئے تاکہ حال ہی میں کی گئی آئی ایم ایف ڈیل کو کسی بھی خطرہ سے بچایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ اور معیشت کی بہتری کے لئے کئےگئے حالیہ فیصلوں پر تیز تر عمل کیا جائے۔
آئی ایم ایف ڈیل کے مطابق آگے بڑھنے اور معیشت کی سمت درست کرنے کے عمل کو وزیراعظم شہباز شریف بھی یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھانے کے قائل ہیں جس کے لئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیچ پر ہیں۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان اس وقت ایک بہترین انڈرسٹینڈنگ موجودہے اور امید کی جاتی ہے کہ شہباز شریف نگراں وزیراعظم کی تعیناتی میں حکمران اتحاد کی قیادت کی مشاورت کے ساتھ ساتھ آرمی چیف سے بھی مشورے کے ساتھ نگراں وزیراعظم کا نام فائنل کریں گے۔
آئین کے تحت تو یہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن کا اختیار ہے۔ موجودہ کیس میں ان دونوں کے درمیان اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ آج کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض وہی کریں گے جو اُنہیں وزیراعظم یا پی ڈی ایم مشورہ دیں گے۔
راجہ ریاض کا ویسے تو تعلق تحریک انصاف سے ہے لیکن وہ عمران خان سے ناراض بلکہ اُن کے شدید مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ آئندہ کا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑنے کا اعلان بہت پہلے کر چکے ہیں۔
گویا بظاہر نگراں وزیراعظم کی تعیناتی میں کسی تنازعہ کا کوئی خطرہ موجود نہیں لیکن یہ سوال ضرور ہے کہ نام کس کی طرف سے آئے گا؟؟
میڈیا اور سوشل میڈیا پر نگراں وزیراعظم کے لئے کچھ نام ضرور گردش کر رہے ہیں لیکن نگراں وزیراعظم کون ہوگا اس بارے میں ابھی کچھ فائنل نہیں ہوا۔ جو نام گردش کر رہے ہیں اُن میں ڈاکٹرحفیظ شیخ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے فیورٹ ہو سکتے ہیں جبکہ شاید ن لیگ اس نام پر کوئی زیادہ مطمئن نہ ہو۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی اس بارے میں اپنی رائے ن لیگ لیڈرشپ کی عمومی رائے سے مختلف ہو سکتی ہے۔
ویسے تو سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا نام بھی نگراں وزیراعظم کی دوڑ میں شامل ہے لیکن اُن کی مخالفت حکمران اتحاد میں حفیظ شیخ کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہوگی۔
سابق سرکاری افسران میں فواد حسن فواد اور ناصر محمود کھوسہ کے نام ن لیگ کے حوالے سے لئے جا رہے ہیں۔ ان دونوں ریٹائرڈ افسران کا تجربہ اور شہرت اچھی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی نگراں وزیراعظم بنتا ہے تو وہ انتظامی اور معاشی لحاظ سے اپنا کردار بہتر طریقہ سے ادا کر سکتا ہے۔
صحافت سے تعلق رکھنے والے چند ایک نام اپنے تعلقات کی وجہ سے بھی میڈیا اور سوشل میڈیا میں گردش کر رہے ہیں لیکن ان ناموں میں شاید کسی ایک کو ایک اہم وفاقی وزارت مل جائے۔ اگرچہ ابھی تک میں نے مفتاح اسماعیل کا نام نگراں وزیراعظم کے حوالے سے نہیں سنا لیکن مفتاح صاحب کا نام بھی اس پوزیشن کے لئے زیر غور آ سکتا ہے کیوں کہ ایک طرف وہ مقتدر حلقوں کیلئے قابل قبول ہو سکتے ہیں تو دوسری طرف ن لیگ میں خفگیوں کے باوجود اُن کے بارے میں اچھا خیال رکھنے والے کم نہیں۔
نگراں وزیراعظم کے لئےزیادہ چانس یہی ہیں کہ اُس فرد کو یہ ذمہ داری دی جائے گی جو معاشی طور پر پاکستان کے لئے اچھا ثابت ہو۔ یہ ایک اچھی بات ہے لیکن پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے اندر یہ ڈر موجود ہے کہ کہیں کوئی ایسا معاشی ماہر نہ آ جائے یا لایا جائے جس کے ذریعے معیشت کی بہتری کرتے کرتے کہیں انتخابات ہی آگے نہ چلے جائیں۔
اکتوبر یا نومبر میں انتخابات کے بارےمیں اگرچہ ن لیگ اور پی پی پی سنجیدہ نظر آتی ہیں لیکن اصل میں حکمران اتحاد اور اس کی جماعتیں چاہتی کیا ہیں، اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔
ویسے ایم کیو ایم کے ایک اہم رہنما اور وفاقی وزیر فیصل سبزواری صاحب نے چند دن قبل مجھ سے بات کرتے ہوے یہ انکشاف کیا کہ اُن کی جماعت نے اپنے قانونی ماہرین سے یہ رائے مانگ لی ہے کہ کیا ایسے میں جب نئی مردم شماری مکمل ہونے کے قریب ہو، انتخابات 2017 کی پرانی مردم شُماری کی بنیاد پر ہو سکتے ہیں؟ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!!
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)