• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سال کے آخری روز خبر آئی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے مولانا سمیع الحق سے ملاقات کر کے انہیں یہ کام سونپا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے منہدم سلسلے کو پھر سے جوڑنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مولانا سمیع الحق اکوڑہ خٹک کے مدرسہ حقانیہ کے مہتمم ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں اور ان کے بارے میں شدومد سے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ بہت سے طالبان رہنمائوں کے استاد ہیں تاہم گزشتہ برس حکومت نے طالبان سے مذاکرات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے جو کل جماعتی کانفرنس بلائی تھی، اس میں سمیع الحق کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت بتایا گیا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کے ایک اور دھڑے کے سربراہ فضل الرحمن ان کی شمولیت پر تحفظات رکھتے ہیں۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مولانا سمیع الحق نے بڑے طمطراق سے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم کو بتایا ہے کہ مذاکرات کے ضمن میں پیشرفت کے لئے ڈرون حملے روکنا بہت ضروری ہیں۔ نیز یہ کہ حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ گویا مولانا نے مذاکرات کے ضمن میں چھوٹتے ہی حکومت کو ایسی شرائط پیش کر دیں کہ ناکامی کا ملبہ بھی حکومت ہی پر ڈالا جا سکے۔ یکم جنوری کو طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے امن مذاکرات کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اور سمیع الحق کو تندوتیز تنقید کا نشانہ بنایا۔ طالبان کا ردعمل سامنے آنے کے بعد حکومت کے ایک ترجمان نے وضاحت کی کہ مولانا سمیع الحق نے ازخود وزیراعظم سے ملاقات کے لئے وقت مانگا تھا نیز یہ کہ میاں نواز شریف نے مولانا سمیع الحق کو ایسی کوئی ذمہ داری نہیں سونپی۔ اگر یہ مؤقف درست ہے تو اس وضاحت کے لئے تین دن تک انتظار کیوں کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے یہ وضاحت تو 31دسمبر ہی کو سامنے آنا چاہئے تھی۔ 5جنوری کو مولانا فضل الرحمٰن نے بھی آوازہ لگایا کہ سولو فلائٹ سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ سولو فلائٹ کی مفید مطلب اصطلاح سے مولانا کی مراد یہ ہے کہ قومی اہمیت کے اس اہم معاملے میں انہیں بھی مناسب رونمائی ملنی چاہئے اور اب خبر آئی ہے کہ مبینہ طور پر حکومت طالبان سے مذاکرات میں سعودی حکومت سے مدد مانگنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ بات چیت میں سعودی کردار پر بھروسہ کرنے کی روایت رکھتی ہے۔ 1991ء میں افغان مجاہدین کو خانہ کعبہ لے جایا گیا تھا تاہم کابل کے اقتدار میں ایسی کشش تھی کہ مجاہدین نے حرم پاک میں کئے گئے عہد و پیمان کو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ تب قاضی حسین احمد مجاہدین کی جاہ طلبی کے شاکی تھے۔ جلد ہی کچھ اور لوگوں کو بھی طالبان سے ایسے ہی شکوے ہوں گے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست نے طالبان سے مذاکرات کا بہانہ تراش رکھا ہے تاکہ کچھ سخت فیصلوں کو تعویق میں ڈالا جا سکے۔ اگر ہم نے پاکستان میں مذہبی دہشت گردی کے مسئلے کو صحیح انداز سے سمجھنا اور بیان کرنا ہی نہیں سیکھا تو ہم طالبان سے مذاکرات میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ مخالف فریق سے مذاکرات کرتے ہوئے کچھ بنیادی سوالات کا جواب موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ یہ لڑائی افغانستان سے تعلق رکھتی تھی، طالبان حکومت افغانستان میں تھی، اسامہ بن لادن افغانستان میں تھا۔ سیکورٹی کونسل نے افغانستان پر حملے کی قراردادیں منظور کیں۔ یہ جھگڑا پاکستان کی زمین پر کیسے پہنچا؟ پاکستان میں طالبان 2002-3ء میں تنظیم سازی کر رہے تھے۔ نیک محمد اور عبداللہ محسود تحریک طالبان ہی کے نام پر کارروائیاں کرتے تھے۔ یہ داستان طالبان کے پاکستانی ہمدردوں نے گھڑی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان ڈرون حملوں یا لال مسجد کا ردعمل ہے۔ پاکستان کی ریاست نے القاعدہ اور طالبان کو دو الگ الگ مظاہر سمجھنے کی غلطی کی۔ یہ فکری طور پر ایک ہی تحریک تھی ۔ان لوگوں کو پاکستان کی زمین پر جگہ دینے کا ناگزیر نتیجہ یہ تھا کہ یہاں پر پہلے سے موجود فرقہ پرست اور انتہا پسند قوتوں سے ان کے رابطے استوار ہوئے اور انہوں نے پاکستان کی ریاست کو اپنے ممکنہ ہدف کے طور پر اپنا لیا۔ ہم آج بھی یہ غلطی کر رہے ہیں کہ افغان مجاہدین از قسم حقانی گروپ اور تحریک طالبان پاکستان کو الگ الگ دھڑے سمجھتے ہیں۔ پہلے ہم اچھے طالبان اور برے طالبان میں تقسیم کر کے یہ غلطی کر رہے تھے ۔ اب طالبان نے فضل اللہ کو اپنا سربراہ چن کر ہمارے اچھے اور برے طالبان والے قضیے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ کیا حقانی گروپ کی طرف سے ملا فضل اللہ کے انتخاب کی مذمت سامنے آئی۔ کیا افغان طالبان نے پاکستان کے معصوم شہریوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ کیا حقانی گروپ نے پاکستان کے فوجی جوانوں اور سکیورٹی اداروں پر حملوں کے خلاف کسی کارروائی کا عندیہ دیا۔ کیا تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پاکستان کے آئین اور سیاسی بندوبست کو کفریہ نظام قرار دینے کے خلاف افغان طالبان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آیا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں جان لینا چاہئے کہ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں تقسیم ہمارے ذہن کی اختراع ہے اور یہ اسی طرح سے ریت کا گھروندا ثابت ہو گی جیسے اچھے اور برے طالبان میں فرق کی تلقین۔ ہم نے اپنی پارسائی کے زعم میں دنیا کو بہت سمجھایا کہ جہاد اور دہشت گردی میں فرق کیا جائے۔ اب ہمیں پوچھنا چاہئے کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، یہ جہاد ہے یا دہشت گردی؟
سوال تو یہ بھی ہے کہ مولانا سمیع الحق، منور حسن پاکستان کی ریاست سے مطالبات کرنے میں تو بہت مستعد ہیں، کیا انہوں نے طالبان کی شورش کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ حضرات تو سیاسی رہنما ہیں۔ ہمارے ہاں تو ایسے پارسا صحافی بھی موجود ہیں جو کالم لکھ کر طالبان کو تجاویز دیتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کو کس طرح کے مطالبات کی مدد سے زچ کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کے خلاف تصادم محض عسکری سطح ہی پر بے جوڑ اور غیر متوازن مقابلہ نہیں، یہ فکری اور سیاسی طور پر بھی ان مل اختلاف ہے۔ پاکستان کی ریاست ایک سیاسی بندوبست ہے۔ طالبان اپنے تئیں مذہبی تحریک ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ عقیدے کی آزادی ہر انسان کا حق ہے لیکن دوسروں پر اپنا عقیدہ مسلط کرنا جائز سیاسی مقصد نہیں۔ یہ سیاست اور برخود غلط مذہبی انتہا پسندی کا ٹکرائو ہے،اس کا سیاسی حل نکلنا محال ہے۔
مذاکرات کی میز پر پہنچنے سے پہلے ہر فریق اپنے پتوں کا جائزہ لیتا ہے۔ اگر ہم واقعی طالبان سے مذاکرات کو ایک سنجیدہ امکان سمجھتے ہیں تو ہمیں چند سوالات کے جواب حاصل کرنا چاہئے۔ طالبان کے مطالبات پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہم کس نوعیت کی شرائط تسلیم کر سکتے ہیں یا مذاکرات کی میز پر کس طرح کی پیشکش کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کس حد تک لچک دکھا سکتے ہیں۔ اس طرح کے کسی سمجھوتے کی صورت میں کس نوعیت کا منظر نامہ سامنے آ سکتا ہے۔ کیا پاکستانی حکومت طالبان کے مطالبے پر ملک کا دستور تبدیل کرنے یا رد کر سکتی ہے۔ کیا ہم پاکستان کے وفاق میں جمہوری نظام کو خیرباد کہہ سکتے ہیں۔ کیا پاکستان کے لوگ شریعت کے کسی ایک نمونے پر متفق ہو سکتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ سمجھوتے کی صورت میں پاکستانی ریاست کے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔ ایسے کسی سمجھوتے کی صورت میں منتخب حکومت اور طالبان میں کسے بالادستی حاصل ہو گی۔ پاکستان میں طالبان کو ایک جائز اور بالادست فریق تسلیم کرنے کی صورت میں دنیا کا ردعمل کیا ہو گا۔ ہم مختلف طرح کی تاویل آرائیوں کی مدد سے ان بنیادی سوالات پر پردہ ڈالتے آرہے ہیں۔ کیا اس اہم ترین اندرونی خطرے کی موجودگی میں ہم بدستور فکری پراگندگی کا شکار رہیں گے۔
تازہ ترین