• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سبز انقلاب صرف ایک نعرہ ہی نہیں ہے بلکہ اسے عملی تصویر بنانے کے لئے کسی بھی ملک یا قوم کو ایک محنت طلب عمل سے گزرنا ہوتا ہے جس سے آنے والی نسلوں کو ایک پر فضا اور غذائی ضروریات سے بھرپور دھرتی ملتی ہے۔ اگر کوئی بھی حکومت، سوسائٹی اور فرد اپنے کل کا نہیں سوچے گا تو پھر غذائی قلت کے ساتھ ساتھ ایک بے رونق زمین سامنے آتی ہے۔

پاکستان اپنی زرخیز زمین چار موسموں اور بہترین آب و ہوا کے باعث حکومت کی بھرپور دلچسپی کے بغیر بھی اس وقت مختلف زرعی اجناس پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں نمایاں ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ زرعی پیداوار میں اضافے اور اپنی ضرورت کی اجناس کی طرف توجہ دی جاتی تو آج ہمیں مختلف اجناس کی درآمد کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ اس وقت پاکستان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے خوردنی تیل ، دالوں ، گندم ، دودھ ، چائے کی پتی اورمصالحہ جات سمیت ایسی بہت سی اشیاء کی درآمد پر دس سے بارہ ارب ڈالرز سالانہ خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ ہم زرعی اجناس اور پھلوںکی برآمدات کے ذریعے بھی اس قدر زرمبادلہ حاصل نہیں کررہے ہیں جس قدر ہم اپنی برآمدات بڑھا سکتے ہیں۔

پاکستان کی 80فیصد برآمدات کا انحصار براہ راست زراعت پر ہے۔ پچھلے کئی برسوں میں کپاس کی پیداوار بھی بتدریج کم ہورہی ہے اب ہمیں اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ہی سالانہ 70سے 80کروڑ ڈالرز کپاس درآمد کرنے پر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گندم کی ضرورت پوری کرنے کیلئے 55 سے 60 کروڑ ڈالرز ، چائے کی پتی پر 35 کروڑ ڈالرز ، دالوں پر 40کروڑ ڈالرز، مصالحہ جات پر 40 کروڑ ڈالرز اور چینی کی درآمد پر 10سے 12 کروڑ ڈالرز خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً پانچ بلین ڈالرز کاخوردنی تیل ہرسال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ان اجناس کی طرف توجہ دیں حکومت ان فصلوں کو کاشت کرنے پر خصوصی مراعات دے تاکہ کاشتکاروں کو ان فصلوں کی کاشت کے لئے راغب کیا جاسکے تو اس کے بہت سودمند نتائج سامنے آئیں گے۔

پاکستان کے پاس کراچی سے گوادر تک ساحلی پٹی اور سندھ میں خصوصاً ٹھٹھہ سمیت کئی اضلاع تیل دار اجناس کی کاشت کے لئے بہترین ہیں۔ جہاں ہم پام کی کاشت سے ناصرف اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں بلکہ برآمد کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ حکومت سندھ نے پام کی آزمائشی فصل کاشت کرکے بھرپور نتائج حاصل کئے ہیں اب اسے عام کاشتکاری کے طور پر اپنانے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد کپاس کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے پاکستان میں کپاس کی کاشت میں الارمنگ کمی واقع ہوئی ہے جس سےکپاس سے منسلک ٹیکسٹائل انڈسٹری پر خاص طور پرمنفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔کپاس کی اس کمی کو اب درآمدی بل کی صورت میں ملک پر بوجھ بنادیا گیا ہے حکومت کو چاہئے کہ کپاس کے زیر کاشت رقبہ کو بڑھانے کے لئے کاشتکاروں کی رہنمائی کرے اعلیٰ قسم کے بیجوں کی فراہمی اور کھادوں کی قیمت میں کمی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان میں اس وقت زیرکاشت رقبہ دو کروڑ ایکڑ سے بھی کم ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے خاص طور پر پنجاب میں زرخیز زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز اور دوسرے تصرفات کا خطرناک رجحان پروان چڑھا ہے، یہ حکومتی اداروں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ آئندہ سے قابل کاشت رقبہ کو دیگر مقاصد کے استعمال پر پابندی عائد ہونی چاہئے بلکہ ناقابل کاشت رقبہ کو استعمال کے قابل بنانے کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینی چاہئے، دنیا بھر میں ایسی اراضی سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے ہمیں بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

یہ وطن عزیز کی اہم ضرورت ہے کہ زراعت میں جدید رجحانات کی طرف توجہ دی جائے زرعی آلات اور مشینری کی فراہمی کے لئے حکومت بلاسود قرضے دے۔ بہترین نہری نظام کے ساتھ ساتھ بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا رجحان پیدا کیا جائے تاکہ آبپاشی میں بہتری لائی جاسکے۔ زراعت کے اداروں کو عملی طور پر فعال بنایا جائے جو کسانوں کو زیادہ پیداوار کے علاوہ زمین کے زیادہ اور بہتر استعمال اور سبزیوں کی کاشت کے بارے میں رہنمائی فراہم کریں۔ 1950ء میں زراعت کا پاکستان کی جی ڈی پی میںزراعت کا حصہ 53 فیصد تھا جو اب کم ہوکر 22فیصد رہ گیا ہے، اب ہمارے لئے یہ ناگزیرہے کہ ہم جی ڈی پی میں زرعی شعبہ کا حصہ بڑھائیں اور اس کے لئے ایک ٹھوس پالیسی کا اعلان کیا جائے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین