خالد نذیر خالد ، سیٹلائٹ ٹاؤن، راول پنڈی
دسمبر کی سردی اپنے عروج پرتھی۔ اس سے پچھلی رات آسمان کو بادلوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا، رات سونے سے پہلے جب اس نے ہوا کے شور سے دروازہ کھول کر باہر دیکھا، تو سامنے کچّے صحن میں نیم کا درخت استادہ نیم کے درخت کی ٹہنیاں تیز ہوا کے باعث جُھکنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔ اُس نےسوچا ’’لگتا ہے، صبح سے سردی میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور بارش بھی ہوگی۔‘‘ اوربغلی دروازہ بند کر کے بستر پہ لیٹ گیا۔
صبح وہ اُٹھا،فجر کی نماز اور قرآنِ پاک کی تلاوت کے بعد دفتر جانے کی تیاری کی اور معمول کی طرح چائے، پراٹھے کا ناشتا کیا۔اُس کی بیوی، نبیلہ کسی روبوٹ کی طرح کام انجام دیتی تھی۔اس چھوٹے سے گھر میں افراد کی تعداد بھی تودو ہی تھی کہ جب وہ انٹر میں تھا، تو والد کا اور بی اے میں تھا، تو ماں کا انتقال ہوگیا ، لیکن اس نے محنت مزدوری کرکے اپنی تعلیم جاری رکھی۔چوں کہ وہ ماں، باپ کی اکلوتی اولاد تھا، اس لیے دونوں، خاص طور پر ماں کی رحلت نے اسے بالکل چُپ چاپ کردیا تھا، لیکن وہ ہر پَل اللہ پاک کا شکر ادا کرتا رہتا کہ باپ کی سرکاری نوکری کے سبب فارغ التّحصیل ہوتے ہی اسے باپ کی جگہ ملازمت پر رکھ لیا گیا اور وراثت میں تین مرلے کا گھر بھی ملا تھا۔ زندگی یوں ہی رواں دواں تھی کہ کسی جاننے والے نے شادی کروادی اور یوں نبیلہ اس کی زندگی میں آ گئی۔ گرچہ ماں، باپ کے مرنے کے بعد وہ خاصا خاموش سا ہو گیا تھا،مگر جب سے نبیلہ اس کی زندگی میں آئی تھی،وہ اپنے خاموشی کے خول سے کافی حد تک نکل آیا تھا۔ گوکہ وہ دونوں خوش حال زندگی گزار رہے تھے، لیکن شادی کے کئی سال بعد بھی اب تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔
وہ ناشتا کرکےدفتر کے لیے نکلنے لگا، تو حسبِ معمول نبیلہ نے کہا ’’طارق! آیت الکرسی پڑھتے ہوئے جانا۔‘‘ وہ بھی ہمیشہ کی طرح اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ گھر سے کچھ ہی فاصلے پر چنگچی کا اسٹاپ تھا، جس میں بیٹھ کر وہ میٹرو اسٹیشن تک پہنچتا تھا۔ آج جب چنگچی میں بیٹھا، تو اس کے پہلو میں ایک نو، دس سال کا بچّہ بیٹھ گیا اور جانے کیوں، اس کا دھیان بچّے کی طرف مبذول ہوگیا۔ طارق اس کا جائزہ لے رہا تھا،اس کے منحنی سے جسم پہ پھٹی ہوئی جیکٹ اس کی سردی مزید بڑھا رہی تھی، جب کہ سردی کی شدّت سے بچّے نے اپنے دونوں گُھٹنے آپس میں جوڑے ہوئے تھے۔ پھر طارق کی نگاہ بچّے کے پیروں پر پڑی، جو چپّل یا جوتوں سے خالی تھے۔ اس سے رہا نہ گیا، تو پوچھنے لگا’’بیٹا! کیا کرتے ہو، کہاں جا رہے ہو، اسکول جاتے ہو؟‘‘ ’’نہیں، اب نہیں جاتا، پہلے اسکول میں پڑھتا تھا۔‘‘
بچّے نے سپاٹ لہجے میں کہا، جیسے وہ کسی سوچ میں غلطاں ہو’’ تو اب کیا کرتے ہو؟‘‘طارق نے پھر پوچھا۔ ’’اب مَیں پھول بیچتا ہوں۔‘‘اس نے کہنی سے اپنی ناک رگڑی، جو سردی سے لال ہو رہی تھی۔ ’’تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘ طارق نے ایک اور سوال داغ دیا۔’’مَیں نانی کے پاس رہتا ہوں۔‘‘ بچّے نے جواب دیتے ہوئے ایسے دیکھا، جیسے پوچھ رہا ہو کہ تمہیں اس سے کیا۔طارق نے جیب سے سو، سو کے تین نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا’’بیٹا! پھول بھی بیچو اور پڑھائی بھی مکمل کرو کہ تعلیم بہت ضروری ہے۔ کسی سرکاری اسکول میں داخلہ لے لو۔‘‘ وہ اپنے تئیں اسے ڈھیر ساری معلومات فراہم کر رہا تھا تاکہ حالات کی ستم ظریفی کے باعث، بچّہ زیورِ تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ ’’کیا مَیں روزی روٹی کمانے کے ساتھ تعلیم بھی جاری رکھ سکتا ہوں؟‘‘ بچّے نے آنکھوں میں چمک لیے پُرجوش انداز میں پوچھا۔
’’ہاں بیٹا، کیوں نہیں… تم جانتے ہو، مَیں نے بھی اپنی تعلیم ، کام کاج کے ساتھ ہی مکمل کی ہے اور صرف مَیں ہی نہیں، بہت سے لوگ ملازمت کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ تم ان حالات سے مایوس نہ ہو، تم تو رزقِ حلال کما رہے ہو، یہ بھی بڑے نصیب کی بات ہے، لیکن اس کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کرو۔‘‘ طارق نے بچّے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سمجھایا۔ ’’انکل! کیا آپ مجھے کسی سرکاری اسکول لے چلیں گے؟‘‘ بچّے نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیوں نہیں، ایسا کرتے ہیں، پہلے تمہارے لیے چپّل خریدتے ہیں، پھر سرکاری اسکول چلتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر طارق اور بچّہ اگلے اسٹاپ پر اُتر گئے، قریب ہی کھڑے ٹھیلے سے ربر کی ایک چپّل خریدی اور پھر اسکول کی راہ لی۔‘‘
بچّے کا داخلہ کروانے کے بعد واپسی پر طارق سوچ رہا تھا کہ آج مجھے دیے سے دیا جلانے کا حقیقی مفہوم سمجھ آیا ہے، اگر ہم سب صرف اپنے اپنے حصّے کا دیاہی جلادیں، تو مُلک و قوم ترقّی کےرستے پر گام زن ہو سکتے ہیں اور ہماری بھی آخرت سنور جائے گی۔